• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں فوجی آمروں سے اتنا خوف نہیں آتا جتنا پاپولسٹ لیڈرز سے آتا ہے، فوجی آمر آئین کو روند کر اقتدار میں آتا ہے اور ایک مسلمہ آئین شکن ہوتا ہے، کوئی شک کی گنجائش نہیں ہوتی، کوئی ابہام نہیں ہوتا، سیاست دانوں سے فطری نفرت رکھتا ہے، انہیں مسائل کی جڑ سمجھتا ہے اور خود کو مسیحا گردانتا ہے، جب کہ پاپولسٹ لیڈر آئین کے تحت اقتدار کے ایوان میں داخل ہوتا ہے اور پھر اندر سے سیند لگاتا ہے، سب کوائف آمر کے رکھتا ہے مگر جمہوریت کی ڈُگڈُگی بجاتا رہتا ہے، یعنی منافقت میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے۔ پاپولسٹ لیڈر کے کام یاب کاروبار کی اساس عوام کو بے وقوف بنانا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو پیچیدہ مسائل کا آسان حل بتاتا ہے، عوام اُس کے جھانسے میں آ جاتے ہیں، اور جب تک عوام سرابوں کو پہچان پاتے ہیں، اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

پچھلی صدی کے تیسرے چوتھے عشرے میں دنیا نے پاپولسٹ راہ نمائوں کی تباہ کاریوں کو بھگتا ہے، ان پاپولسٹ راہ نمائوں نے وطن پرستی اور نسلی برتری کے نام پر بنی نوع انسان کو عالمی جنگ کا تحفہ دیا جس میں لگ بھک آٹھ کروڑ انسان لقمہء اجل ہوئے، کروڑوں لوگ اعضاء سے محروم ہوئے، معیشتیں تباہ ہوئیں، اور کروڑ ہا انسانوں کی زندگی مشکل بنا دی گئی۔ آج کل دنیا میں ایک ٹریڈ وار کا بہت چرچا ہے، اسی نسبت سے ماضی کے پاپولسٹ راہ نمائوں کی کرم فرمائیاں یاد آ گئیں۔امریکا نے آج تک جتنی جنگیں لڑی ہیں ان میں سے کوئی بھی اس پر تھوپی نہیں گئی، وہ سب امریکا کی شروع کی ہوئی جنگیں تھیں جو اُس نے مختلف ملکوں پر وقتاً فوقتاً مسلط کیں۔ آج کی دنیا میں بڑی طاقتوں کے درمیان روایتی جنگ ممکن نہیں، آج کی دنیا میں بڑے ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ ہی ممکن ہے، سو امریکا اس کا آغاز کر چکا ہے۔ یہ جنگ بھی امریکا پر مسلط نہیں کی گئی، اُسے کسی قسم کا اشتعال نہیں دلایا گیا، بس بیٹھے بیٹھے، یونہی ایک پاپولسٹ امریکی صدر کو خیال آیا کہ پوری دنیا یعنی واقعی پوری دنیا کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا جائے۔ امریکا نے آج سے پہلے جتنی جنگیں لڑیں ان میں اسے کم یا زیادہ حلیف میسر رہے ہیںلیکن آج جس جنگ کا آغاز کیا گیا ہے یہ امریکا بمقابلہ کرہِ ارض قرار دی جا سکتی ہے۔ بنیادی مسئلہ کیا تھا، ٹرمپ صاحب نے دنیا بھر سے امریکا میں درآمد ہونے والی اشیاء پر یک مشت بے محابہ ٹیکس کیوں لگایا ہے؟ اس لیے کہ امریکا کا تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے (تقریباً 1.2 ٹریلین ڈالر) اور دوسرے مقامی صنعت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنےکیلئے۔ امریکا کا تجارتی خسارہ عشروں میں بہ تدریج مختلف معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں یہاں پہنچا ہے، اس پیچیدہ مسئلے کا ایک انتہائی سادہ حل نکالا گیا ہے کہ ’’بس ہمیں نہیں پتا ہمارا خسارہ پورا کریں‘‘۔ دنیا بالخصوص چین کم لاگت پر چیزیں بناتا ہے، امریکی اشیاء کی پیداواری لاگت زیادہ ہے، اور اس کا حل یہ نکالا گیا کہ درآمدی اشیاء بھی مہنگی کر دی جائیں۔ دوسری طرف امریکا آنے والے تارکینِ وطن کیلئے ناروا سخت پالیسیاں بنا کر انہیں بھی خوف زدہ کیا جا رہا ہے یعنی لیبر فورس کو بھگایا جا رہا ہے، اور معصوم سی خواہش یہ ہے کہ امریکی صنعت کو پھر سے مستحکم کیا جائے۔

نظر آ رہا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کا سب سے پہلا شکار امریکی عوام ہوں گے جنہیں ہوش رُبا افراطِ زر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دنیا بھر کی صنعت، سپلائی چینز، سرمایہ، تجارت ، یعنی معاشیات کا پورا نظام کچھ ہی دن میں درہم برہم نظر آنے لگا ہے، دنیا بھر کے سٹاک ایکسچینج میں اربوں ڈالرز راتوں رات ڈوب چکے ہیں، اور صرف ڈائو جونز اور نازڈیک میں 6.6 ٹریلین ڈالر ہوا ہو گئے۔ اگر امریکا کا اندازہ تھا کہ دنیا اُس کی نئی ٹیرف پالیسی کو کڑوی گولی سمجھ کر نگل جائے گی تو یہ اندازہ قطعاً غلط ثابت ہوا ہے، چین سے کینیڈا، اور یورپین یونین سے میکسیکو تک، قریباً ہر ملک نے امریکا پر جوابی ٹیرف کا نفاذ کر دیا ہے، یعنی جوابی اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ اس معاشی جنگِ عظیم میں امریکا جیتے یا دنیا، یہ طے ہے کہ اس کی تباہ کاریوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ ہم بہت عرصے سے سُن رہے تھے کہ دُنیا یک قطبی مرحلے سے آگے نکل کر کثیرالقطبی دور میں داخل ہو رہی ہے، سال ہا سال سے بہ تدریج ایشیا پیداوار اور تجارت کے میدانوں میں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، یہ بات اگر ساری دنیا کو معلوم تھی تو ’’شاید‘‘ امریکا نے بھی مشرق سے ابھرتے ہوئے اس سورج کو دیکھ لیا ہو۔ امریکا کی نئی ٹیرف پالیسی دنیا پر اپنی اور ڈالر کی چودھراہٹ برقرار رکھنے کی آخری کوشش نظر آ رہی ہے۔ عالمی معیشت کے ماہرین، بالخصوص امریکی پروفیسر اور تھنک ٹینک کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اوندھے منہ گرے ہی گرے، لیکن یہ سیلاب بہت کچھ بہا کر لے جائے گا۔ امریکا کا ڈھلان کا سفر تو بہت دنوں سے جاری تھا مگر قرائن بتا رہے ہیں کہ اس عمل کو مہمیز ملنے کے امکانات روشن تر ہوتے جاتے ہیں۔ پاپولسٹ حکم ران انتہائی خطرناک مخلوق ہوتی ہے۔ یہ معاشروں کو اتھل پتھل کر دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، ان کا ہنر تعمیر نہیں، تخریب ہوا کرتا ہے، یہ خواب بیچتے ہیں، جن کی تعبیر ہمارے بد ترین اندیشوں کو بھی پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔

پس نوشت:اللہ والوں کی ایک بات یاد آ گئی، بچپن میں والد صاحبؒ کو میں نے کہتے سُنا کہ ’’امریکا اور سوویت یونین کو زوال آئے گا، اور جلد آئے گا، اگر ہم نے نہ دیکھا تو آپ دیکھیں گے، اور پہلے سوویت یونین گرے گا کیوں کہ وہ اللہ کا علانیہ دشمن ہے، اور پھر امریکا کی باری آئے گی جو تاریخ کی متکبر ترین ریاست ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ والد صاحبؒ کی قبر کو نور سے بھر دے...آمین۔

تازہ ترین