• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے وہ شخصیات جو اسی ہفتے گزشتہ بن گئیں۔ کیوں مسلسل اکسا رہی ہیں کہ میں انکی شخصیات کے پرت جو دنیا بھر میں پہلے ہی کھلے ہوئے ہیں، مگر ذاتی سطح پر ہیں آپکو بتائوں کہ وہ شخص جو نفسیاتی، دماغی امراض کے ماہر کے طور پر دنیا بھر میں جانا جاتا تھا۔ اسکا نام تھا ہارون، ڈاکٹر ہارون جسکی زندگی اپنی بیوی اوراسکے دوستوں کی بھی تھی، ہر گھڑی جو اسے فارغ ملتی وہ ہمارے ساتھ، کبھی پاکستان میں ظلم اور زیادتی کے خلاف اور کبھی انڈیا پاکستان کی دوستی کو فروغ دینے اور پھر جب ہمارا اکٹھ ہوتا، تو علی امام، عاصمی، بی۔ ایم۔ نوشابہ، ڈاکٹر سرور، ذکیہ سرور اور دوست انیس ہارون اور میرے ساتھ بیٹھ کر وہ دلسوز کہانیاں سناتا کہ روز شام کو عورتیں سسکیاں لیکر بولتیں اور اونچی آواز میں روتی جاتیں۔ پھر مجھے پیار سے کہتا سنائو وہ نظم احتساب جو پچیس سال پرانی ہے۔ شہر میں منادی ہے ؍جو زمیں کے بیٹے ہیں ؍وہ کلاہ غیرت کو کج کریں، اماں پائیں؍ عدل کو گِرو رکھیں/ فرض منصبی پائیں۔ یہ نظم کا ٹکڑا ختم ہوتا، وہ پھر کہتا سنائو، زمانہ وہ آیا کہ بالشتیوں نے ؍تماشہ گروں کو بھی حیراں کیا۔ پھر میں نظمیں سناتی تھک جاتی کہ ادھر فہمیدہ ریاض اور آصف فرخی، اندر آتے فوراً ماحول بدل جاتا۔ پھر عاصمی زور سے کہتا فہمیدہ سنائو تم بھی ہم جیسے نکلے۔ یوں نظم سنتے ہوئے پھر ایسی اپنی چھوٹی چھوٹی نظمیں سناتی، اتنی دیر میں نہاری، پائے اور ہم سب کھانے والے۔ ایسا موقع ہر تین ماہ بعد یا پھر یکم مئی اوربھٹو کی برسی پر بلا کسی تکلف کے، یہ نشستیں ہوتیں۔ اب انکو یاد کرتے ہوئے انیس سے گلے مل کر یہ بھی یاد کیا کہ ہارون بہت زبردست فوٹو گرافر تھا۔ اس نے میری اور علی امام کی زور سے ہنستے ہوئے تصویر اتاری۔ پھر دونوں کو الگ الگ فریم کر کے دیا۔ آج بھی میرےفلیٹ کا دروازہ کھلتے ہی اس پرنظر پڑتی ہے۔ اسی لمحے میرے سامنے رعنا شیخ آ گئی۔ پھر؟ بچھڑنے والے نجم الدین شیخ کو یاد کرتے ہوئے، وہ زمانے یاد آئے جب رعنا سیکریٹری کلچر میں ڈی جی کلچر اور فارن سیکرٹری نجم الدین شیخ تھے۔ ہم نے مل کر بین الاقوامی کانفرنسیں میوزک، ڈانس فیسٹیول کروائے اور فارن آفس میں مہمانوں کو دینے کیلئے پاکستانی مصوروں کے فولیوز بنوائے۔ وہ زمانے گئے پھر سب کچھ بدل گیا۔ ابھی رات گہری نہیں ہوئی تھی کہ فون پر حنیف کا کالم تھا ’’لو اب تو منظور اعجاز بھی گیا‘‘۔ وہ امریکہ میں واشنگٹن میں ضیا کے زمانے میں تنگ ہو کر گیا تھا وہ وارث شاہ کا عاشق تھا۔ اس نے اچھے دنوں میں نجم حسین سید کے ساتھ مل کر پنجابی سنگت بنائی۔ نجم بیٹھک میں لوگ اپنے آپ ہی چپکے سے چلے آتے تھے۔ مگر منظور اعجاز تو اپنی خوبصورت آواز میں وارث شاہ اور بلھے شاہ ہمیشہ پڑھتا ہوا داخل ہوتا۔ بوسٹن میں تنویر مسعود کے گھر میں خاص مجھ سے ملنے آیا اور پھر میں خالد حسن کی ضد پر واشنگٹن گئی اور منظور اعجاز کے گھر میں شاہین صہبائی، اکمل علیمی کے علاوہ پنجابی ادیب انتظار کررہے تھے۔ میں نے جب پوچھا ’’مارکسزم کو عالمی سطح پر وداع کرتے ہوئے جو کتاب لکھ رہے تھے، وہ کیا ہوئی۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا چھپ گئی۔ میری 22کتابیں، زبیر احمد نے شائع کی ہیں۔ ڈاکٹر منظور اعجاز نے نہ صرف امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھاپا، بلکہ اسکا ارادہ بھگت سنگھ پر فلم بنانے کابھی تھا۔ شدید ایکسیڈنٹ کے بعد 6ماہ تک وہ اسپتال سے صحت یاب ہوکر نکلا۔ پھر اسی طرح اردو اور انگریزی کالم لکھتا رہا۔ اپنی دھرتی، شاعری اور دوستوں کو ہر شام یاد کرتا، ویسے تو ہم سب کا دستور تھا۔ مگر پاکستان میں نہ ضیغم صاحب ہیں، نہ شفقت نہ اختر حسین نہ ہمارے سنگی ساتھی کہ منو بھائی کی نظمیں پڑھنا، اب یہ دکھاوا رہ گیا ہے۔

پاکستان میں عید کی چھٹیوں کے بعد ہمارے وزیر اعظم نے قوم کو سستی بجلی کا تحفہ دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ موقع اگلے ماہ کے بلوں میں ملے گا پھر انتظار، سستی بجلی کے اعلان پر خوشی کے نقارے بجنے لگے، ہر شعبہ سے تعریف اور تحسین اور وزیر اعظم کی محنت کو داد دیتے ہوئے آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات بھی شائع ہونے لگے۔ کالم لکھے جانے لگے۔ کہیں یہ تجزیہ کہ کیوں اور کیسے؟ اچانک کیا ہو گیا، وعدہ کیسے پورا ہوا؟ اچانک میری نظر رئوف کلاسرا کے کالم پر پڑی۔ اس نے بجلی کی قیمتوں کے بڑھنے کے عوامل کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے یہ بے لاگ تفصیل دی کہ اس وقت حکومتی افراد کے بھی بجلی گھر مل کے مہنگی بجلی، سستا تیل ہونے کے باوجود فروخت کرتے رہے۔ ایک بہت نازک بات کہ کئی لوگ بجلی کی قیمت کم ہونے کو معجزہ کہہ رہے ہیں۔ اس گنہگار زمانے اور منافق لوگوں پر معجزے نہیں ہوتے۔ اللہ معاف کرے۔

عید کے بعد سیاسی ماحول ابھی گرم ہونے کیلئے گرمی کے بڑھنے کا انتظار کر رہا ہے۔ سب سے ضروری اور اہم گفتگو آج کل کے ماحول میں صرف مولانا فضل الرحمان یا پھر اختر مینگل صاحب کررہے ہیں۔ موضوع گفتگو دو صوبے یعنی کے پی اور بلوچستان۔ خاص طور پر ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ گرفتار لوگوں کی رہائی کیلئے اس طرح توجہ دلانے کی کوشش کررہے ہیں جیسا کہ ہمارے کئی کالم نگار پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین خاص طور پر یاسمین راشد اور اعجاز چوہدری کیلئے لکھ رہے ہیںاور بیان تو ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی دیا ہے مگر حکم کس کا چلتاہے۔ نہ ججز کا، نہ حکومت، بس مقتدرہ کا۔ پاکستان کے قیام کے تھوڑے عرصے بعد ہی مقتدرہ کا حکم چلنے لگا، اب تو قد آور شجر بن چکا ہے۔ دیوار جب کھڑی ہو جائے تو اونچی ہی ہوتی جاتی ہے۔ اس کے گرانے کے آلات، اب تو صرف ٹرمپ کے پاس ہیں مگر پاکستانی قوم کچھ نہیں تو امریکیوں کے ٹرمپ کے خلاف دو مہینے بعد ہی 50 ریاستوں کے مظاہرے دیکھے مگر صرف ٹی وی پر کہ ہمارے ملک میں دفعہ 144 نافذ ہے۔

تازہ ترین