قارئین کرام! غور فرمائیں، ہماری بطور قوم و مملکت آزادی و خود مختاری تو ابتدائے قیام پاکستان سے ہی ایک سوال بنا رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی چار پانچ سال کو آپ، آباد کاری ، نئی مملکت کی فوری ادارہ سازی اور پہلے سے موجود نئے تقاضوں کے مطابق سنبھالے رکھنے اور بہتری لانے میں انہماک کا الاؤنس دیا جاسکتا ہے۔ آئین سازی میں ہم بدنیتی کے باعث ابتدا سے داخلی چپقلش اور گورننس کے بگاڑ پیدا ہونے اور ان میں طوالت میں مبتلا ہوتے مارشل لاؤں کی بھٹکی راہ پر نکل گئے۔ کامیاب ترین جگاڑ، 1962ءکے متنازعہ آئین کے تحت صدارتی انتخابات۔ 64ایوب خان بمقابلہ فاطمہ جناح میں ملک گیر دھاندلی کے باوجود صنعتی، زرعی ترقی اور عوامی خدمات کی ادارہ سازی کے اعتبار سے تیز تر اور ثمر آور بھی تھا، لیکن ذہن نشین رہے پس پردہ صرف الیکشن۔ 1964کی ملک گیر دھاندلی ہی نہیں تھی اسکے نتیجے میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں کراچی و حیدر آباد میں ہونے والی سخت عوامی ناراضی اور سیاسی صدمہ بھی تھا۔ متحدہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات یحییٰ خانی مارشل لا نے نہ اپنے زور پر کرائے تھے نہ 1962کے آئین یا کسی اور عبوری دستور کے تحت، بلکہ یہ (الیکشن۔ 1970) مارشل لائی حکومت اور ملکی جماعتوں کے درمیان اس اتفاق پر ہوئے تھے کہ ایوبی دور کے خلاف ڈیمو کریٹ الیکشن کمیٹی کے تسلیم شدہ تھے۔ ان مطالبات میں ملک میں صدارتی نظام کی جگہ دوبارہ پارلیمانی طرز حکومت کی بحالی، بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹنگ سے منتخب ایوان کی تشکیل برائے حکومت سازی تھی۔ البتہ ایوب خان نے ون یونٹ توڑنے کا مطالبہ نہیں مانا تھا جسکے تحت مغربی پاکستان میں موجودہ چار انتظامی یونٹ (صوبے) پنجاب، سندھ، بلوچستان اور نارتھ ویسٹ پرونس (سرحد) انتخاب سے پہلے بننے تھے۔ یحییٰ مارشل لانے بھی ون یونٹ توڑنے کو تسلیم نہیں کیا اور جو ڈیک اور ایوب حکومت کے درمیان مطالبے مانے گئے تھے اس میں ملکی سلامتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا اضافہ ایک لیگل فریم ورک آرڈر میں کر کے جاری کردیا جس پر کسی پارٹی نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ یوں ان ہی تسلیم شدہ مطالبات اور مارشل لائی حکومتی لیگل فریم ورک آرڈر کی بنیاد پر الیکشن۔ 1970ہوا۔ یہ بھی اتفاق ہوگیا کہ ملک کا دستور اب نئی منتخب اسمبلی بنائے گی۔
قارئین کرام! غور فرمایا جائے کہ الیکشن 1970کے نتائج کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی وفاقی قوت ثابت ہوئی تو مغربی پاکستان کی سب سے اکثریتی جماعت پی پی اور ملکی اکثریتی منتخب جماعت عوامی لیگ میں دستوری نوعیت کے اختلاف نے اس وقت سر اٹھا لیا جب مارشل لائی حکومت نے ڈھاکہ میں 1971میں اسمبلی کا اجلاس طلب کیا۔ اختلاف کی بنیاد بھٹو صاحب کا عوامی لیگ کے اس 6نکاتی انتخابی ایجنڈے پر اختلاف تھا جسے کسی بھی جماعت اور نہ خود مارشل لائی حکومت نے انتخابی مہم کے دوران تبدیل کرنے کا کوئی باضابطہ تو کیا عمومی اور سیاسی مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔ واضح رہے حکومت نے مجیب کو 6نکات کی بنیاد پر اپنے ہی لیگل فریم ورک آرڈر کی بنیاد پر بھی کوئی قانونی کارروائی کی تھی اوربھٹو صاحب سمیت الیکشن میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت یا قائد نے لیگل فریم ورک آرڈر پر کوئی قانونی اعتراض نہ کیا تھا، اگرچہ اس میں کچھ تشویش کے اور اعتراض کے کچھ پہلو تھے، لیکن مجیب کو اس وقت ملتی اور مسلسل بڑھتی عوامی تائید میں شاید حکومت نہ بھٹو صاحب نے اسے اپنی سیاسی ساکھ کے خلاف سمجھا کہ وہ مجیب کے چھ نکاتی پروگرام پر اعتراض کرتے۔ خصوصاً بھٹو صاحب کی تو ایسا کرنے سے عوامی سیاست کے علمبردار ہونے کی نفی ہوتی تھی۔ لیکن یہ ان کی بڑی تاریخی غلطی نہیں تباہ کن فیصلہ یہ تھا کہ مجیب الرحمٰن کے ملکی سطح کے الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد نو منتخب اسمبلی کے پہلے معینہ فریضے دستور سازی کیلئے بلائے گئے اجلاس کی ناصرف مخالفت کی بلکہ مغربی پاکستان میں رہتے انہوں نے اس کی دھمکی آمیز سیاسی ابلاغ سے مزاحمت بھی کی۔
قارئین کرام! آج پاکستان پھر یقیناً اس سے بھی بڑے آئینی بحران میں مبتلا ہو گیا۔ 1970-71کی سیاست کا سبق بہت بروقت، اس سے نظریں چرانے اہل فہم و سیاست کیلئے پاکستان سے بے وفائی کے برابر ہوگا۔ موجود بحران تو آئین سے متصاد م ہوتے، بری طرح ہاروں کو، عدلیہ و الیکشن کمیشن کے خلاف آئین رویے اور اقدامات سے، مکمل منتخب حکومت کا روپ دے کر اقتدار میں لانے کی ان ہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کا شاخسانہ موجود گھمبیر سے گھمبیر ہوتا جاری آئینی بحران ہے۔ 1971میں تو مجیب کے انتخابی پروگرام اور اس کی بنیاد پر دستور بننے کے خدشات پر اسمبلی کے اجلاس کی مزاحمت سے پیدا ہوا تھا۔ حالانکہ امکان غالب تھا کہ عوامی لیگ متحدہ پاکستان کی حکومت کے حصول کیلئے کچھ لے دے پر آ جاتی اور وہ چھ نکات کے مغربی پاکستان کی اکثریتی قیادت کیلئے بعد از انتخابی عمل، نتائج آنے پر اعتراضات اٹھانا اور ان پر اسمبلی اجلاس سے قبل مجیب الرحمٰن سے انتخابی منشور کو تبدیل کرانا آگ کا کھیل تھا، وہ منشور جس پر مجیب نے بلاشبہ بنگالی عصبیت کو بھڑکا کر اور بھارتی نادیدہ مداخلت سے اسے مزید تشویشناک بنا دیا تھا۔ لیکن انتخابی مہم میں اس پر خاموشی اور بعد میں اس حد تک اعتراض کہ اسمبلی اجلاس کا ہی بائیکاٹ اور مزاحمت کا خطرناک کھیل، آگ سے کھیل کے برابر ثابت ہوا۔ یہ جیتی اکثریت کو بعد از انتخاب پارلیمانی عمل سے مینڈیٹ کو مائنس یا اقلیتی جماعت کا مصلوب کرنے کے مترادف تھا۔
غور فرمایا جائے، آج یہ جو جیتے اسیر قائد کے مائنس کی تگ و دو کرکے مطلب کے روڈ میپ پر ملک کو چلانے کی سعی لاحاصل، 40سالہ حکومتی تجربہ رکھنے والی حکومتی سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں یہ عوام کی بیداری اور اس کے عمل اور باکمال و جمال انتخابی عمل کے مظاہرے کے بعد صرف مائنس کی بات نہیں۔ یہ معاملہ 25 کروڑ کی آبادی میں بالغ رائے دہی کے آئینی سب سے بنیادی حق تشکیل حکومت سے جڑا ہوا ہے۔ عوامی لیگ کی بنگالی عصبیت کی مینڈیٹڈ اکثریت اپنا کچھ مثبت رنگ اور پھر وراثتی آمریت کا قبیح رنگ دکھانے، فسطائیت سے بیداری کو دبانے کے بعد وہاں پہنچ گئی جہاں کا خمیر تھا۔ پاکستانی وراثتی روایتی پارلیمانی ہر دو قوتیں بھی اسی دھندے کے عمل میں عوام کو مائنس کرکے ان کے سینے پر ملک کو کہاں لے جا رہی ہیں، پاکستان کا اضطراب اور ہر شعبے کی عالمی درجہ بندی سے لے کر آج پھر گندم خریداری کے حکومتی فرار سے لاکھوں کسانوں میں ہا ہا کار مچا رہی ہے۔ گرین پاکستان کے خواب پر صدر مملکت، پارلیمانی مشترکہ اجلاس میں انتباہ کرتے ہیں خبردار! ٹرمپ کے خطرناک اعتماد اور بڑے پرخطر انتخابی پروگرام سے جو عالمی معاشی تباہی برپا ہو رہی ہے وہ امریکیوں کو آغاز دوسرے دور پر ہی شدید نالاں کرتی معلوم دے رہی ہے۔ اتحادی اور ہمسائے سخت ہراساں وپریشان ہیں۔ خدارا سوچا جائے کہ ہم نے اپنے آپ کو اپنے تئیں بڑے پرخلوص اور یقینی نتیجہ خیز اعتماد کے جنون سے بہت بڑے آئینی بحران میں خود مبتلا نہیں کر لیا؟۔ وما علینا الالبلاغ۔