لاہور صدیوں سے کہہ رہا ہے کہ ادبی تقاریب میں ہونے والی باتیں وقت کے آئینے میں ہمیشہ امر رہتی ہیں، چاہے زمانے کے رنگ کتنے ہی بدل جائیں ۔ بے شک تخیل کی مقدس مجلسیں ابدی شعلے بھڑکاتی ہیں۔ تاریخ کے دریا میں دئیے جلاتی ہیں۔ اس وقت میں تین ایسی ہی مجلسوں کا احوال لکھنے لگا ہوں۔ پہلی مجلس ڈاکٹر صغرا صدف کی طرف سے منائی جانے والی منیر نیازی کی سالگرہ تھی۔ صدارت عطاالحق قاسمی نے کی، بیگم منیر نیازی مہمان خاص تھیں، میزبانوں میں الحمرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر توقیر کاظمی بھی شامل تھے۔ اس تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آیا بہتر ہے اسے قلم بند کر دیا جائے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں روایت میں شعر کہنے والا نوجوان شاعر تھا۔ ایک دن پروفیسر سلیم احسن نے بتایا کہ ستار سید کا فون آیا ہے منیر نیازی ہمارے پاس میانوالی آ رہے ہیں، پپلاں کے قریب ان کی زمین ہے۔ وہ جب آئے تو ہماری ادبی و فکری عید ہو گئی، ایک دن میری شاعری سن کر وہ کہنے لگے ’’منصور نامعلوم کی شاعری کیا کرو، یہ تم جو شاعری کرتے ہو، ایسی شاعری تومیر تقی میر بھی کیا کرتے تھے، غالب اور ذوق بھی ایسے ہی شاعر تھے حتیٰ کہ فیض اور ندیم بھی ایسے ہی ہیں، میں نے کہا کہ نامعلوم کی شاعری کیسے ممکن ہے اور انہیں سیف الدین سیف کا یہ شعر سنایا،
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
مجھے یاد ہے ہم اس وقت ایک قدیم درخت کے نیچے کھڑے تھے، درخت کی شاخوں کے ساتھ ہوا اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ منیر نیازی کہہ رہے تھے۔ ’’اس ہوا کے حوالے سے کبھی سوچا ہے کہ یہ کب سے چل رہی ہے‘‘، میں نے کچھ دیر سوچا اور کہا، ’’نہیں، میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا‘‘، بولے، ’’میں نے غور کیا ہے اور پھر یہ شعر سنایا
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
بے شک یہ نامعلوم کی شاعری ہے۔ شاعری میں یہ بات پہلے نہیں کہی گئی، مجھے ایسا لگتا ہے منیر نیازی کی شاعری ایک بے چین روح کی سرگوشی ہے، اپنی خام، بے لگام سچائی سے خاموشی کو توڑتی ہے۔ وہ غیب کو دیکھنے اور غیر محسوس کو محسوس کرنے کی پکار ہے۔ دل کا دلوں کے ساتھ ایک لازوال مکالمہ ہے۔ بہرحال بتانے والی اصل بات یہ ہے کہ اس دن کے بعد میری شاعری بدل گئی اور میری ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ایسی بات کہوں جو پہلے کسی نے نہ کہی ہو۔ اس میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ تو میرے پڑھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔
دوسری تقریب مونا شہاب کے اعزاز میں فرحت زاہد اور شعیب بن عزیز کی طرف سے دیا گیا عشائیہ تھا جس میں ایک خوبصورت مشاعرہ بھی شامل کر دیا گیا، اس میں خالد شریف، توقیر شریفی، نیلم بشیر، رخشندہ نوید، دردانہ نجم، شاہد رضا، سلمیٰ اعوان، رحمان فارس اور مسز رحمان فارس، باصر کاظمی اور نوریہ طلعت عروبہ کے علاوہ بھی کئی اہم شخصیات شامل تھیں۔
تیسری تقریب سلمان غنی اور مزمل سہروردی کو صدارتی ایوارڈ ملنے کی خوشی میں ملک سلمان نے برپا کی تھی۔ اس میں شعیب بن عزیز، سجاد میر، صفدر علی خان، سلمان عابد، نعیم ثاقب، عمران یعقوب، محمد مہدی، غازی بابر، ڈاکٹر قیصر رفیق، عرفان اطہر، فیصل بٹ، میاں حبیب، ذوالفقار راحت، ندیم بھٹی، ساجد خان، عاصم نصیر، اقراء ریاض، مائرہ ہاشمی، عائشہ انصاری سعدیہ مقصود، دعا مرزا، رامین محمود، منیزے معین، سانیہ اسحاق، عائشہ ملک اور ثوبیہ اشرف کے علاوہ بھی بہت اہم افرادنے شرکت کی۔ بے شک کسی قوم کی ترقی کی تاریخ میں، حکومتی ایوارڈز ان غیر معمولی شراکتوں کا لازوال ثبوت ہیں جو ہماری اجتماعی تقدیر کو تشکیل دیتے ہیں۔ ایوارڈ عمدگی کی ایک روشن علامت ہیں، جو عوامی قربانی اور معاشرے کی بہتری کے درمیان ایک لافانی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ سو میں نے دونوں صاحبان کو مبارک باد دی جو اس بات کا اظہار ہے کہ مجھے خوشی ہوئی۔ لیکن زیادہ تر ایوارڈز کی تقسیم پر میرے خیالات اچھے نہیں، سچ پوچھئے تو بیورو کریسی کے دائرے میں، سرکاری ایوارڈز کھوکھلی تعریف بن چکے ہیں، جو حقیقی میرٹ کی عدم موجودگی کو چھپاتے ہیں۔ حقیقی فضیلت ریاست کی طرف سے منظور شدہ اعزازات کی پہنچ سے کہیں زیادہ دلوں میں پروان چڑھتی ہے۔ احمد فراز نے اپنے ایوارڈز واپس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرکاری ایوارڈ کی رغبت آنکھوں کو چمکا سکتی ہے، لیکن یہ اکثر انسانی روح کی گہرائی میں موجود فتوحات کو دھندلا دیتی ہے۔