نصرت عبّاس داسو
ہمارے ہاں بیش تر افراد سائنس اورمذہب کو ایک دوسرے سے متصادم سمجھتے ہیں اور ان کے مابین ہم آہنگی کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔ تاہم، حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے۔ سائنس کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کی جستجو میں سرگرمِ عمل ہے، جب کہ مذہب انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کا ضامن۔ ان دونوں کے درمیان نہ تو کوئی فطری تصادم ہے اور نہ ہی کوئی ازلی دشمنی، بلکہ اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے، تو دونوں میں ایک توازن اور ربط دکھائی دے گا۔
سائنس کا بنیادی مقصد حقیقت کی تلاش ہے۔ یہ کائنات کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سائنس کسی بھی نظریے کو جامد اور ناقابلِ تغیّر نہیں مانتی، بلکہ تحقیق و جستجو کے بعد ایک نظریہ قائم کرتی ہے اور جیسے ہی کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے، تو پُرانے نظریات کی اصلاح کرلی جاتی ہے یا انہیں رَد کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مذہبی نظریات حتمی اور غیر متبدّل ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ کسی سائنسی تجربے یا مشاہدے پر نہیں بلکہ الہامی تعلیمات پرمشتمل ہیں۔ تاہم، یہ کہنا کہ سائنس ہمیشہ مذہب کی نفی کرتی ہے، ایک غیر منصفانہ اور سطحی بات ہے۔
درحقیقت، سائنس کی اکثر تحقیقات مذہبی تعلیمات کی تصدیق کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کائنات کا آغاز ایک نقطے سے ہوا اور اللہ تعالیٰ کایہ فرمان بِگ بینگ تھیوری سے عین مماثلت رکھتا ہے۔ اِسی طرح اگر انسانی تخلیق کے مراحل کو سائنسی تحقیق کی روشنی میں دیکھا جائے، تو وہ بھی قرآنِ پاک میں بیان کردہ حقائق سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔
البتہ بعض مواقع پر سائنس کے نتائج مذہبی نظریات سے بظاہر مختلف نظر آتے ہیں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سائنسی تحقیق محدود اور تغیّر پذیر ہے۔ ایک سائنسی نظریہ آج کسی ایک نتیجے پر پہنچتا ہے، لیکن چند سال بعد نئی دریافتوں کی روشنی میں وہی نظریہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
یعنی مذہب اور سائنس میں اختلاف درحقیقت مذہب کی کم زوری کی بجائے سائنسی علم کی محدودیت کی وجہ سے ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں نیوٹن اور آئن اسٹائن کے نظریات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نیوٹن نے کلاسیکل میکینیکس اور کششِ ثقل کے عمومی نظریے کی وضاحت کی، جس کے مطابق تمام اجسام اُس وقت تک ایک مقرّرہ رفتار سے حرکت کرتےہیں کہ جب تک کوئی بیرونی قوّت ان پر اثرانداز نہ ہو اور کششِ ثقل ایک فوری قوّت ہے، جو تمام اجسام کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لیکن پھر آئن اسٹائن نے نسبت کے نظریے (Theory of Relativity) کے ذریعے اس تصوّر کو بدل دیا۔
آئن اسٹائن کےعمومی نظریۂ اضافیت (General Theory of Relativity) کے مطابق، کششِ ثقل (Gravity) دراصل دو اجسام کے درمیان ایک قوّت نہیں، بلکہ یہ زمان و مکاں میں موجود گھمائو (Curvature) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بڑے اجسام (زمین یا سورج) اپنے گرد زمان و مکاں کو جُھکا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے دوسرے اجسام اس خمیدگی کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔ یہ نظریہ آج بھی کائنات کی طبیعات میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی تصدیق متعدد تجربات اور مشاہدات سے ہو چُکی ہے۔ اس ضمن میں بلیک ہولز اور گریویٹیشنل ویوز (Gravitational Waves) کی دریافت قابلِ ذکرہے۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ مذہب کا دائرہ کار سائنس سے مختلف ہے۔ مذہب انسانی زندگی کو اخلاقی، روحانی اور فلسفیانہ بنیادوں پر استوار کرتا ہے، جب کہ سائنس مادّی اور طبیعاتی قوانین کی تلاش میں رہتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مخالف نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے تکمیل کُنندہ ہیں۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ سورج کیسے طلوع ہوتا ہے، جب کہ مذہب یہ سکھاتا ہے کہ طلوع ہوتے سورج کو دیکھ کر شُکر کیسے ادا کیا جائے۔ سائنس بتاتی ہےکہ پانی کے مالیکیولز آپس میں کس طرح جُڑے ہوتے ہیں، جب کہ مذہب ہمیں پانی کے استعمال میں اعتدال اور اس نعمت کا شکر اور اس پرغور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
جدید سائنسی تجربات میں جب کوئی ایسا نتیجہ نکلتا ہے کہ جو کسی خاص مذہبی عقیدے سے مختلف نظر آتا ہے، تو لوگوں میں تشویش پیدا ہوجاتی ہے۔ تاہم، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سائنسی دریافتیں ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں اور ان میں بہتری و اصلاح کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ مثال کے طور پرماضی میں نیوٹن کے قوانین کو حتمی سمجھا گیا، لیکن آئن اسٹائن کی تحقیق نے اُن میں تبدیلی پیدا کردی۔ اسی طرح آج جو سائنسی نظریات موجود ہیں، ممکن ہے کہ کل اِن میں بھی بہتری یا تبدیلی آجائے، جب کہ اس کے برعکس مذہبی احکامات حتمی اور اٹل ہیں، کیوں کہ وہ خُدا کی طرف سے نازل کیےگئےہیں اور ان کی نوعیت اخلاقی و روحانی ہے، جو وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوسکتی۔
یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سائنس بعض اوقات اپنی محدودیت کے باعث حقیقت کو مکمل طور پرسمجھنے سےقاصر رہتی ہے۔ مثال کے طور پر انسانی شعور اور وجدان کا معاملہ ابھی تک سائنس کی گرفت میں پوری طرح نہیں آیا۔ اسی طرح رُوح کی حقیقت یا زندگی کے مقصد جیسے معاملات بھی تاحال سائنس کے دائرۂ کار سے باہر ہیں اور یہی وہ معاملات ہیں کہ جن میں مذہب انسان کو تسلّی اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ایک سطحی سوچ ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی انسانی فہم کے دومختلف زاویےہیں، جوایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر سائنس حقیقت کی کھوج میں مصروف ہے، تو مذہب حقیقت کا مفہوم سمجھاتا ہے۔
اگر سائنس ہمیں زندگی گزارنے کے عملی اصول بتاتی ہے، تو مذہب ہمیں ان اصولوں کے پیچھےکارفرما اخلاقیات اور مقاصد سے رُوشناس کرواتا ہے۔ دونوں میں ہم آہنگی ممکن ہے، بشرطیکہ ہم ان دونوں کو اُن کے دائرۂ کار میں سمجھنے کی کوشش کریں۔
آج کے دَور میں ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مذہب اور سائنس کے مابین غیر ضروری تصادم کی بجائے ان دونوں کے درمیان موجود ہم آہنگی کو تلاش کیا جائے، کیوں کہ جب سائنس اور مذہب ساتھ چلتے ہیں، تو انسان نہ صرف مادّی ترقی حاصل کرتا ہے بلکہ روحانی سکون بھی پاتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کے مددگار کے طور پر دیکھنا چاہیے۔