• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا تجربہ ہے کہ عین اُسی دن اسپتال میں کوئی نہ کوئی ہنگامی صُورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے کہ جس روز ہمیں افرادی قوّت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بعض ملازمین کو مریضوں کا رش دیکھتے ہی غائب ہونے میں مہارت حاصل ہے۔ ایسے کام چور ملازمین کو کسی کام سے باہر بھیج دیا جائے، تو وہ چھے، سات ذاتی کام کرنے کے بعد ہی افسران کو اپنا دیدار کرواتے ہیں اور اگر مزید تاخیر کرنا چاہیں، تو عموماً یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ’’باجی کے لیے چھلی (بُھٹّا) لینے گیا تھا۔‘‘

اسپتال میں معاون اسٹاف کی قلّت ہو، تو اس صُورت میں ماحول کی تلخی کم کرنے کے لیے دِل سے دُعا نکلتی ہے کہ ’’یااللہ! اب تُو فرشتوں کی فوج بھیج کر میری نصرت فرما، جو مریضوں کی قطار بنوا دے، اُنہیں وارڈ، لیبارٹری کا راستہ دکھا دے، تاکہ کم سِن بچّوں کی تھکی ہوئی مائیں اور شوہر، باپ اور بھائیوں کے خوف سے ڈری سہمی اور خُون کی کمی کی شکار خواتین جلد ازجلد صحت یاب ہو کر زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہوجائیں۔

جب ہم نے میڈیکل کالج میں قدم رکھا، تو اکثر یہ دُعائیں سُنائی دیتی تھیں کہ ”باجی! تیرے گھر سُکھ ہی سُکھ ہووے، کوئی ڈُکھ نہ آوے، جتھ پیر ہووے، اُتھ خیر ہووے، اللہ تیکوں مدینہ ڈکھاوے۔“ ان دُعاؤں نے کافی عرصہ ہمارے دِل کو مسرور رکھا۔ تاہم، پھر ذمّے داریاں بڑھنے پر یہ لطیف احساس معمولات اور عادات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سرکاری اسپتال کے ڈاکٹرز کو اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران روزانہ محض نسخہ لکھنے پر ڈھیروں دُعائیں ’’اوپر کی آمدنی‘‘ کی صُورت مل جاتی ہیں۔

تاہم، جُوں جُوں ہمارے لطیف جذبات پر وقت کی گرد دبیز ہوتی گئی، تو ان دُعائیہ کلمات کی جل ترنگ میں کمی آتی گئی اور رہی سہی کسر سرکاری پالیسیوں اور عوامی سطح پر منفی رویّوں نے پوری کردی۔ اور اب لگتا ہے کہ جیسے کوئی غیرسرکاری ایسوسی ایشن قائم ہوچُکی ہے، جس کا کام بظاہر یہی ہے کہ ڈاکٹرز کی کمائی کو ہمیشہ شک کی نظر سےدیکھا جائے۔ 

ڈاکٹرز کو رات کے اوقات میں بھی ذلیل وخوار کیا جائے، جب کہ مریضوں اور اُن کے لواحقین کی بےدھڑک اور دروازے کو ٹھوکر مار کر کلینک میں داخل ہونے سمیت کسی بھی گری ہوئی حرکت کوقابلِ گرفت نہ سمجھا جائے۔ اس ایسوسی ایشن کا نام ’’اینٹی ڈاکٹر ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹرز کے طویل اور مشکل ترین تعلیمی سلسلے، طویل پیشہ ورانہ اوقات اور ٹریننگ کا جب مُلک کے دیگر شعبہ جات کےافسران سے موازنہ کیا جائے، تو بِلاشُبہ مضحکہ خیزتضاد اور نا انصافی دکھائی دیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹرز کی اَن تھک محنت کا نتیجہ مایوسی اور بالآخر غریب الوطنی کی زندگی کا چناؤ ہی ہے۔

پالیسی ساز بھی جانتے ہیں کہ ڈاکٹرز اور اساتذہ کے لیے ان کے علمی خزانے اور صلاحیتوں کی بہ دولت کہیں بھی مواقع موجود ہوتے ہیں اور یہ بات دُرست بھی ہے کہ ڈاکٹرز، فن کار، اساتذہ اور کھلاڑی ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس مُلک کی نوکرشاہی، قاضی، وکلا، سیاست دان یا جرنیل کسی دوسرے مُلک نقلِ مکانی کے بعد دوبارہ اس منصب کےاہل ثابت ہوسکتے ہیں۔ درحقیقت، ایسےافراد کی پیشہ ورانہ زندگی کے خاتمے ہی پراُن کی موت واقع ہوجاتی ہے اور بعد میں یہ وہ سب کچھ بُھگتیں گے کہ جو وہ اس دُنیا میں دوسروں کے ساتھ کرتے رہے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر اور مریض کا آمنا سامنا تکلیف کی صُورت میں ہوتا ہے، لیکن قاضی اور سائل، پولیس اور شکایت کنندہ، دُکان دار اور صارف اور پٹواری اور ڈیلرز بھی تو بوقتِ ضرورت ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ موخرالذّکر روابط میں مرض اور درد کا عُنصر نہیں ہوتا، بلکہ صرف ضرورت یا کاروبار اُنہیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے، جب کہ ہیلتھ سسٹم سے متعلق شعور کے فقدان کے سبب ڈاکٹرز کی کردار کُشی اِس انداز سے کی جاتی ہے کہ جیسے وہ روبوٹس ہیں، گوشت پوست کے انسان نہیں۔

آج کل ڈاکٹرز اور اساتذہ پر اخلاقیات، انسانیت، تمیز، حدود، مہارت اور پیشہ ورانہ طرز سے متعلق حُکم نامہ جبری طور پر لاگو کیا جا رہا ہے، جب کہ پولیس اور بیورو کریسی سمیت دیگر اداروں کو کُھلی چُھٹی دے کر معاشرے کو غیر متوازن کر دیا گیا ہے۔ عدم مساوات، امتیازی سلوک اور اقربا پروری کے باعث سال ہا سال محنت و جدوجہد کر کے پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا حوصلہ افزا نتائج نہ ملنے پر مایوس ہونا فطری اَمر ہے۔ 

یہ بچّے نہ صرف حوصلہ ہاررہے ہیں، بلکہ اُنہیں اس ذہنی خلفشار سے بچانا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ یہ وہ دُنیا نہیں، جس کے لیے اُنہیں تیار کیا گیا ہے۔ 90 فی صد متوسّط طبقے کے بچّے صُبح سے رات گئے تک پڑھائی میں مصروف رہتے ہیں اور ان کے والدین اور بزرگ اُن کے لیے ہمہ وقت سراپا دُعا۔ یہ اپنے بچّوں کے روشن مستقبل کے خواب کو نُور بنا کر اپنی آنکھوں میں سجاتے ہیں۔

یہ وہ والدین ہیں کہ جنہوں نے پل پل اپنی ذات اور ضروریات کی قربانی دے کر محض اپنے بچّوں کی جسمانی پرورش ہی نہیں، بلکہ ان کی شخصیت سازی بھی کی ہوتی ہے۔ ایسے بچّے اگر ڈاکٹرز اور انجینئرز بن کر دیارِغیرجانے پر مجبور کردیئے جائیں گے، تو مٹی، خاندان اور وطن سے وابستہ ان کی جڑیں کم زور ہوجائیں گی اور ہمارا لائقِ تقلید، قابلِ فخر معاشرتی ڈھانچا تباہ ہوکے رہ جائے گا۔ یہ محض ہمارے مُلک ہی کا المیہ نہیں، بلکہ برسوں سے پوری دُنیامیں رائج محنت، ہُنر اور معاش کے اصولوں کو یک سَر تبدیل کرنے کا نتیجہ ہے۔

اس تمام تر صُورتِ حال کے پیشِ نظر ہم اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ دیگر شعبۂ ہائے زندگی کے مقابلے میں قدرت کی کلرکس اور نوکر شاہی پر کچھ خاص نظرِ کرم ہے، جو ہمہ وقت صرف ڈاکومینٹیشن ہی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی نہیں، تو اور کیا ہے کہ کلرک بادشاہ زندہ باد، افسر شاہی پائندہ باد اور پھر اُن کی اولاد شاد و آباد، تو ایسے میں نہ جانے کیسے ہوگا ہمارا وطن آباد۔ افسران کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے مفاد پرست کلرکس انہیں ایک ہی راستہ دِکھا رہے ہیں، جو پردیس کو جاتا ہے۔

گویا غریب اور اَن پڑھ وطن میں مزدوری کرتے رہیں اور ہُنرمند تعلیم یافتہ پردیس جا کر مزدوری کریں۔ سرزمینِ پاکستان میں جو واحد پیشہ پَھل پُھول رہا ہے، وہ کلرک نُما افسری یا نوکر شاہی ہے۔ اب تو دِل چاہتا ہے کہ تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کلرک بن جائیں اور اپنے بچّوں کو بھی کلرک ہی بنائیں۔ اگر وطن کی محبّت ہمیں پردیس جانے سے روکتی ہے، تو ہمارے لیے یہ وہ واحد پیشہ بچا ہے، جو انگریز ہم پر کلرک نُما افسروں کی صُورت مسلّط کر گئے ہیں۔