اللہ تعالی نے قرآنِ مجید انسانوں کے لیے نازل کیا تاکہ وہ اِس سے مستفید ہو سکیں، نہ کہ اِسے محض متبرّک مان کر، عقیدت کے طور پر صرف چومتے اور ماتھے سے لگاتے رہیں اور بغیر سمجھے تلاوت کرتے رہیں۔ سورۃ الاعراف میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ’’ ایسے جِن و انس کثیر تعداد میں ہیں، جن کی آنکھیں ہیں، مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں، اُن کے کان ہیں، مگر وہ اُن سے سُنتے نہیں اور اُن کے دل ہیں، مگر وہ اُن سے سمجھتے نہیں۔
ایسے جِن وانس کی مثال جانوروں جیسی ہے بلکہ اُن سے بھی بدتر۔‘‘ یہ آیت واضح ہدایت ہے کہ جو دیکھتے، سُنتے اور محسوس کرتے ہو، اُسے سمجھو بھی، اُس کی گہرائی میں جاؤ اور جانو کہ اِس کائنات کے راز کیا ہیں اور اِن رازوں میں کیا کچھ پنہاں ہے۔
اللہ تعالی نے کس امر میں انسانوں کے لیے کیا برکتیں اور کیا سہولتیں رکھی ہیں اور انسان فطرت کی طرف سے عطا کردہ عوامل سے کیا فوائد اُٹھاسکتا ہے۔ انسان قدرت کی انعام کی گئی عقل و فہم کو کس طرح استعمال کرے کہ اپنے لیے اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے لیے محفوظ و خوش حال زندگی کا بندوبست کر سکے تاکہ دنیا کی حسنات، خوشیاں، راحتیں اور عظمتیں حاصل کرنے کے ساتھ، آخرت کی حسنات تک بھی رسائی پائے کہ بہرکیف، دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
لیکن ہوا یہ کہ مسلمان ماضی میں بپا ہونے والے اَن گنت فتنوں سے ازحد گھبرا گئے اور تشکیلِ قدیم کے ساتھ یوں جُڑے کہ فہم و تدبیر کے تمام دروازے مقفل کردیئے۔ تشکیلِ قدیم کو ہم آج قدیم کہہ رہے ہیں، کیوں کہ وقت گزر گیا، جو کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ یہی تشکیلِ قدیم اپنے وقت میں جدید ہی تھی۔ یہ تو آنے والی نسلوں کا قصور تھا کہ اسلامی تعلیمات کو ہر آنے والے دَور کی ضروریات کے مطابق سمجھنے کی کوشش نہ کی اور ہر دَور میں ماضی میں رُونما ہونے والی فتنہ پردازیوں کا ڈر فکر و تدبّر کے راہ میں حائل رہا۔
اللہ تعالی نے تو قرآنِ مجید میں رموزِ فلکیات سے لے کر انسانی پیدائش تک، بے شمار پہلوؤں سے متعلق واضح اشارات دیئے تھے، مگر مسلمانوں نے فتنوں کے ڈر سے آنکھوں پر ایسی پٹّی باندھی کہ اُن اشارات کی صرف تلاوت ہی کو دنیا و آخرت کی نجات گرداننے لگے، جب کہ عین انسانی فطرت کے مطابق اسلام کے منکر، اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق(جو اُن تک شاید نہ پہنچی ہوں) اپنی آنکھوں، کانوں اور دل کو غور و فکر کے لیے استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالی کے تخلیق کردہ وسائل بروئے کار لائے اور حیران کُن ایجادات کرتے چلے گئے، جب کہ مسلمان اِسی خلائی دنیا، اِسی جینیاتی علم، اِسی کیمیسٹری، فزکس اور بائیولوجی سے دُور ہوگئے، جس کے بارے میں قرآنِ مجید میں واضح اشارات موجود تھے۔
اِسی علم نے اسلام کے منکروں کو بالادستی عطا کردی اور اِس سے دُوری نے مسلمانوں کو پستی میں دھکیل دیا، کیوں کہ قدرت کے قوانین انتہائی نفاست سے باہم پیہم ہیں، ان پر جو بھی عمل کرے گا، ضرور کام یاب ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جو قدرت کی تخلیق کردہ اِس کائنات پر غورو فکر کرے، وہ ناکام ہو جائے، بلکہ نقصان میں تو وہ رہیں گے، جو غوروفکر نہیں کریں گے اور مسلمانوں کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔
مسلمان، قرآنِ مجید کی تلاوت صرف اور صرف ثواب کی خاطر کرتے رہے اور اس میں دیئے گئے اشارات کو مطلقاً معجزات سمجھتے رہے، یعنی عقل کو تو خود ہی عاجز قرار دیتے رہے، تو پھر عقل نے بھی ایسا ہی برتاؤ کیا اور کچھ بھی سجھائی نہ دیا، جب کہ غیر مسلم سوچتے رہے، فکر و تدبّر کرتے رہے، سو، ان کی عقل نے انہیں مایوس نہ کیا اور وہ اُن تمام وسائل پر اپنی علمی ترقّی کی بدولت قابض ہوگئے، جو اس دنیا میں انسانی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وسائل پر قابض ہوئے بلکہ مسلمانوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا۔
یہی وہ خوف ناک نتیجہ ہے، جو مسلمانوں کو تشکیلِ قدیم کے ساتھ آنکھیں، کان اور دل بند کرکے جُڑے رہنے کا ملا۔ اسلام کی تشکیلِ قدیم نے ابابیل کو آسمانوں سے پتھر، بطور بم گراتے سمجھا، لیکن آج جنگی طیاروں اور ڈرونز سے واسطہ ہے، اِس لیے تشکیلِ جدید کا ہونا ناگزیر ہے، کیوں کہ وہ وقت دُور نہیں، جب وہ معجزات، جن پر قرونِ اولٰی کے انسان نے کبھی دسترس کا خواب بھی نہ دیکھا ہو گا، آج عام انسان کی زندگی کا معمول ہیں۔
مثلاً ہواؤں کے دوش پر اُڑنا آج ہر مسلم وغیرمسلم کو میسّر ہے۔ آج ہر کمانڈر کوسوں دُور اپنے سپاہی کو ہدایت دے سکتا ہے۔ آج انسان لوہے کو ڈھال کر حیران کُن ایجادات کر رہا ہے اور شاید لوہا آج کے انسان کے لیے اُسی طرح نرم ہو گیا ہے، جس طرح حضرت داؤدؑ کے لیے تھا۔ اس کے ساتھ، سائنس اصحابِ کہف کی سنّت پر مستقبل میں سفر کر جانے سمیت کئی اَن ہونیوں تک بھی بہت جَلد پہنچ جائے گی کہ آج کا انسان سائنس کی ترقّی سے جذام کا علاج تو دریافت کر ہی چُکا ہے، جو حضرت عیسیؑ کا معجزہ تھا۔
زندگی کے اِس تیزی سے بدل جانے والے رجحانات کا یہ تقاضا ہے کہ ہم قرآنِ مجید پر ازسرِ نو غوروفکر کریں، جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت 82میں دعوت دی گئی ہے۔ یہ دعوت صرف قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں تھی۔ ہم سب کا ماننا ہے کہ قرآنِ مجید قیامت تک کے لیے ہماری رہنمائی کرنے آیا ہے، اِس لیے اِس پر غور وفکر بھی قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر لازم ہے اور یہی غوروفکر ہر دَور کے انسان کے لیے جدید سے جدید تر راہیں کھول سکتا ہے۔
دنیا بڑی تیزی سے اُس جانب گام زن ہے، جب حضرت عیسیؑ ایک بار پھر زمین پر تشریف لائیں گے۔ اُس سے قبل ہونے والے واقعات کے ہیجان سے اُمّتِ مسلمہ اجمالی طور پر تو واقف ہے، لیکن ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ قرآنِ مجید میں موجود اشارات پر، جنہیں سمجھنا جدید دَور کے مسلمانوں کے لیے چنداں دُشوار نہیں، دسترس حاصل کرتے ہوئے موجودہ اور آنے والے دَور کے مسلمانوں کی رہنمائی کا بندوبست کیا جائے۔
ہم آج بھی حضرت عیسیؑ کے نزول کی تفسیر قدیم دلائل کی روشنی میں اُسی طرح پیش کرتے ہیں، جس طرح حضرت سیلمان ؑ کے تخت کے ہوا میں اُڑنے کو پیش کیا جاتا رہا ہے اور ابھی تک کیا جاتا ہے۔ اِس کا نقصان شاید یہ ہوگا کہ جس طرح خلائی علوم سے دُوری کی بنا پر مسلمان سورۃ الطارق کی درست تشریح و تفسیر سے ناواقف رہے، اُسی طرح کہیں حضرت عیسیٰؑ کے نزول سے بھی نابلد نہ رہ جائیں۔
اگر مسلمان سورۃ الطارق میں بتائے گئے’’کھٹکھٹانے والے ستارے‘‘ کی کھوج میں لگ جاتے، تو آج سیٹیلائٹ لانچ کرنے چین کے اسپیس سینٹر نہ جانا پڑتا۔ اِس لیے شاید زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں کو اِس اَمر کی ضرورت ہے کہ وہ اسلامی افکار کی تشکیلِ نو پر توجّہ دیں اور قرآن و سنّت کی تعلیمات کے وہ پہلو، جن کا ادراک دورِ قدیم کے علماء وفقہا کو نہ تھا، سامنے لاتے ہوئے جدید دَور کے مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔
مثلاً قدیم دَور کے مسلمان علماء و فقہا کو خلا میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے اصول و ضوابط سے آگاہ کرنے کا مسئلہ درپیش نہ تھا، مگر آج کے مسلمان عالِم کے لیے یہ اور اِس سے مِلتے جُلتے زندگی کے بے شمار رنگوں کو بیان کرنا ہے، جو خلائی زندگی سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ اُس وقت تک ممکن نہ ہوگا، جب تک آج کا مسلمان فقیہہ خلائی علوم پر دسترس نہ رکھتا ہو یا کم ازکم اچھی خاصی آگہی اور قدیم دلائل سے ہٹ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی تشکیلِ نو بہرحال ناگزیر ہے اور قدیم دلائل ہی میں مقیّد رہ کر یہ نہ صرف دشوار ہے، بلکہ شاید ناممکن بھی ہو۔ اِس لیے دلائل کی بھی ضروری کاٹ چھانٹ جدید علوم کی روشنی میں کرنی ہوگی تاکہ جدید دَور کے تقاضے سمجھے اور پورے کیے جاسکیں۔ تاہم، قارئین یہ پہلو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ اِس ساری بحث کا محور عقائد و عبادات نہیں ہیں۔
عقائد و عبادات کی تشکیلِ نو کی ضرورت نہ پہلے تھی اور نہ ہی کبھی ہوگی۔ تشکیلِ نو کی ضرورت انسانی زندگی کی تیزی سے تبدیل ہونے والی صُورتِ حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہے اور وہ بھی قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہؐ کے فہم و ادراک پر جدید نظر سے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے ذریعے، نہ کہ عقائد و عبادات کی غیر متنازع ساخت پر۔ کیوں کہ ایک مجتہد کو اجتہاد کی اجازت ہے، ایجاد کی نہیں تاکہ اتباع کے دائرے سے باہر نہ نکلے۔
مسلمان مسئلہ نظریہ و عمل (Thearoy and Practice)میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔عموماً تھیوری آگے بڑھتی ہے، تو پریکٹس وجود میں آتی ہے۔ انسان مریخ پر پہنچنے کی کوشش میں ہے اور مِشنز بھیجنے شروع کردئیے گئے ہیں، لیکن تھیوری سورج کے مدار کا چکر لگا رہی ہے، جب کہ آج کل کے مسلمانوں میں تھیوری بہت پیچھے رہ گئی اور پریکٹس بہت آگے جا چُکی ہے۔ جیسے مسلمان علماء ابھی بھی پیپر کرنسی کے جائز و ناجائز ہونے کی بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اور ہم ایک ایسے دَور میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں پیپر کرنسی کا وجود بھی ختم ہونے والا ہے کہ تمام مالی معاملات اب ورچوئل ہو چُکے ہیں۔
حال ہی میں دورۂ چین کے دَوران ہم بُلٹ ٹرین میں کھانے پینے کی کچھ چیزیں خرید کر نوٹوں کی صُورت ادائی کرنے لگے، تو سیلز گرل نے نوٹ لینے سے انکار کردیا۔ اب ہمارے ہاں بھی موبائل فون کے ذریعے ادائی کا طریقۂ کار رواج پا رہا ہے اور بہت جلد نوٹوں کی چُھٹّی ہو جائے گی۔ تو ایسی صُورت میں نظریے اور عمل میں خلیج مزید گہری ہو جائے گی۔ ہمارے علماء و فضلاء کو اِس خلیج کو ختم کرنا ہوگا، جو موجودہ حالات میں ہوتی نظر نہیں آ رہی۔دوسری طرف، مسلمان معاشرہ نقطۂ موازنہ (Point of reference or Benchmarking)کے الجھاؤ کا شکار ہے۔
حال ہی میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دَوران ہمیں ایک نشست کی میزبانی کی ذمّے داری نبھانی تھی۔ ایک پینلسٹ نے مسلمانوں کے دورِ عروج میں معاشی خوش حالی کو بھرپور انداز میں پیش کیا اور موجودہ مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ ساری خرابی کیپٹل ازم کی ہے۔ جب ہم عروج پر تھے، تو ہمارے خلیفۂ دوم، حضرت عُمرؓ نے ہزاروں میل دُور سے آواز دی، جو فوج کے کمانڈر نے سُنی اور اُس پر عمل کیا۔
حضرت عُمرؓ کے علاوہ شاید ہی کسی حُکم ران کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہو، تو کیا ہم ایسے عالی مرتبت حُکم ران کہ جس کی آواز ہزاروں میل دُور سے سُنی جا سکتی ہو، اُس کے انتظار میں رہیں اور غزہ میں ہونے والے مظالم جیسے مزید سانحات کا انتظار کرتے رہیں یا خالقِ کائنات نے انسانوں کو جو علم عطا کیا ہے، جو موبائل فون کی صُورت ہر نیک و بد کو یہ سہولت دیتا ہے کہ ہزاروں میل دُور پیغام پہنچا سکے، اُس علم سے استفادہ کریں۔
پیجر اور واکی ٹاکی جیسی معمولی ڈیوائیسز سے مرنے کی بجائے ڈرونز اور ریموٹ حملوں سے بچنے اور مزید جدید ایجادات کی صلاحیت حاصل کریں تاکہ ظلم و جبر کے پنجے سے نکل سکیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کیپیٹل ازم کی حُکم رانی کا باعث ہیں۔ اِن دو اداروں نے بھی اسلامک فنانس کے شعبے کھول دئیے ہیں تاکہ مسلمان ممالک کی خواہش کے مطابق مالی معاملات کر سکیں، لیکن ہم مسلمان ہیں کہ اپنے ممالک سے سُود ختم نہ کرنے پر کار بند ہیں۔
یہ ہم ہی ہیں، جو سود سے پاک معیشت کی راہ میں رکاوٹ ہیں نہ کہ کیپیٹل ازم۔ اُدھر انگلستان، جو کیپیٹل ازم کا مرکز ہے، اسلامی سکوک جاری کر چُکا ہے اور اسلامی ہاؤس فنانس کی سہولت دیتا ہے، مگر کیا کریں، اسلامی ہاؤس فنانس منہگا ہونے کے سبب مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے، تو پھر قصور کیپیٹل ازم کا ہوا کہ مسلمانوں کا؟ہمارا تیسرا مسئلہ مذہبی علماء اور دینی علماء میں تفاوت ہے۔
ہم گزشتہ دو ڈھائی صدیوں سے یا شاید اُس سے بھی زیادہ عرصے سے مذہبی علماء کے زیرِاثر ہیں۔ ہم مذہبی علماء کو کہتے ہیں، جن کی توجّہ صرف عقائد و عبادات پر رہتی ہے، معاملات کی عملیت سے وہ بے بہرہ ہیں۔ ان علماء نے مساجد و مدارس کو تو بہت عُمدگی سے چلایا، مگر اُن کے ہاں کبھی دیر سے فیس جمع کروانے کا تردّد ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی فنڈ کے لیے فنانسنگ کی دوڑ دھوپ۔معاشرہ خود اُن کی چوکھٹ پر ضرورت کی ہر چیز ڈھیر کر دیتا ہے۔
اِس لیے اُنہیں نہ تو جرمانے وصول کرنے یا لگانے سے واسطہ پڑتا ہے اور نہ ہی گارنٹیز یا بیموں کے انتظام کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف دینی علماء معاملات کے کارِ زار میں اُترتے ہیں، تو ادائیوں میں تاخیر پر جرمانے لگانا بھی شروع کر دیتے ہیں اور پھر اُسی جرمانے کے مصارف بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ پھر نفع و نقصان کے اصول پر قائم کردہ بینک اکاؤنٹس کو مضاربہ کی صُورت دے دیتے ہیں اور بیمے کے فوائد کو تکافل کے سہارے پورا کر لیتے ہیں۔
کار فنانسنگ کو اجارہ بنا دتیے ہیں اور ہاؤس فنانسنگ کو DM، جیسے حضرت امام ابو حنیفہؒ امانتیں بطور قرض وصول کرتے تھے اور وہی سرمایہ امانتوں کی صُورت مرتکز ہونے سے بچ جاتا اور کاروبار میں گردش کرتا رہتا اور یوں بے شمار افراد کی حصولِ رزق کی کو ششوں میں کردار ادا کرتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دینی علماء جو انسانی زندگی کے عملی پہلوؤں سے آگاہی رکھتے ہیں، وہ بھی تشکیلِ قدیم سے یک سَر الگ ہونے سے کتراتے ہیں اور حضرت سلیمانؑ کے تخت کو ہواؤں کے دوش پہ اُڑاتے ہیں اور یہ کہنے سے گھبراتے ہیں کہ آپؑ کے پاس فقیدالمثال ہوائی جہاز ہوتا تھا، کیوں کہ اُنہیں بھی وہی خوف لاحق رہتا ہے، جو مذہبی علماء کو ہے۔
ہمیں بہرحال ان تین وجوہ پر قابو پانا ہے اور آگے بڑھنا ہے تاکہ مذہبی افکار کی تشکیلِ نو اِس طرح کی جاسکے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں مسلمان سر پٹ دوڑنے لگیں اور جدید سے جدید آلات و ہتھیار، چِپ، کمپیوٹرز، روبوٹس، اینڈرائیڈ، سسٹمز اور سلوشنز تیار کر سکیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں غزہ، کشمیر اور افغانستان جیسے سانحات سے دوچار نہ ہوں۔ (مضمون نگار، کامسیٹس یونی ورسٹی،اسلام آباد (لاہور کیمپس) کے سینٹر آف اسلامک فنانس کے سربراہ ہیں)