آپ کو وہ قلاش اور تہی دست شخص تو یاد ہوگا جو افراتفری کے عالم میں بے فکری سے حقہ پی رہا تھا۔ کسی نے پوچھا، گاؤں میں سیلاب آیا ہے، لوگ اپنی جمع پونجی سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں مگر تم اضطراب و بے چینی کے اس ماحول میں اطمینان وسکون کا پیکر دکھائی دیتے ہو، آخر اس لاپروائی کا سبب کیا ہے؟ اس مفلس نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا، آج ہی تو غربت کی اہمیت کا احساس ہوا ہے۔ سب کو اپنا مال و متاع بچانے کی فکر ہے، میں پانے کے خمار اور کھونے کے آزار سے آزاد ہوں، نہ شوق کمال لاحق ہے نہ خوف زوال درپیش۔ اسلئے مست الست ہوں۔ یہ لطیفہ نما حکایت یوں یاد آئی کہ اقوام عالم کی بستی میں آگ لگی ہے اور ہم اپنی مستی میں ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوابی ٹیرف کے سبب پوری دنیا کی معیشت میں بھونچال آگیا ہے ،سب کو اپنی برآمدات کی فکر کھائے جارہی ہے مگر ہمارے ہاں کسی قسم کی تشویش کا پہلو دکھائی نہیں دیتا کیونکہ بمشکل 30بلین ڈالر کی برآمدات ہیں ،ان میں سے بھی امریکہ کو فروخت کی جانیوالی مصنوعات کا تخمینہ محض 5ارب ڈالر ہے تو یہ ٹیرف ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔پوری دنیا برسہا برس سے ہمیں یہ سمجھانے میں لگی ہوئی تھی کہ معیشت ٹھیک کرنی ہے تو برآمدات بڑھاؤ مگر الحمدللہ ہمارے ہاں اس نصیحت کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اب ہم اس نوعیت کے مشورے دینے والوں کو کہہ سکتے ہیں آپ اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھیں ۔تکلف برطرف ہم تو یورپی یونین کی کھڑکی توڑ پیشکش سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے ۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یورپی یونین کا جی پی ایس پلس اسٹیٹس کیا ہے؟
گزشتہ عشرے کے دوران یورپی یونین کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کو اقتصادی حالت بہتر بنانے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا گیا۔Generalised Scheme of Preferenceیعنی جی پی ایس پلس اسٹیٹس کا مطلب یہ ہے کہ جو ترقی پذیر ممالک 27انٹر نیشنل کنونشن کے معیار پر پورا اُترتے ہیں یعنی وہاں انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے، مزدوروں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، گڈگورننس ہے، انہیں یورپی منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی دی جائے۔ پاکستان کے علاوہ بولیویا، کرغزستان، منگولیا، سری لنکا، فلپائن اور ازبکستان کو جی ایس پلس اسٹیٹس دیا گیا ہے۔ ویتنام بھی اس فہرست میں شامل تھا لیکن یکم جنوری 2023ء میں اسے نکال دیا گیا۔ ان ممالک کو یورپ کی 66فیصد ضروریات پر مبنی اشیاء بغیر کسی ٹیکس یا ڈیوٹی کے برآمد کرنے کی اجازت ہے۔ تقریباً35000 مصنوعات جن میں ربڑ اور پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیاء، لیدر کی مصنوعات، سوٹ کیس اور صندوق، قالین، ریشم کے پارچہ جات، مشروبات کی صنعت میں استعمال ہونیوالے کارک اور اسٹرا، فلو رپینلز، لکڑی سے بنی ہوئی اشیاء بشمول دروازے اور کھڑکیاں، کاٹن، کپڑے اور اس طرح کی دیگر بیشمار اشیاء شامل ہیں، بغیر کسی ڈیوٹی کے یورپ کو فروخت کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کو دسمبر 2013ء میں جب میاں نوازشریف وزیراعظم تھے، جی پی ایس پلس اسٹیٹ ملا۔ اس وقت پاکستان کی یورپ کیلئے برآمدات کا حجم 6.22بلین ڈالر تھا۔ چندبرس میں پاکستانی مصنوعات یورپی ممالک تک پہنچنے لگیں اور یورپ کیلئے پاکستان برآمدات کا حجم 9.3بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔2020ء میں اس رجحان میں کمی آنے لگی اور2023ء میں ایک بار پھر پاکستان کو جی پی ایس پلس اسٹیٹس مل گیا۔ 2024ء میں پاکستانی برآمدات 8.240بلین ڈالر رہیں جو 2023ء کے مقابلے میں 3.12فیصد کم تھیں ۔البتہ موجودہ مالی سال کے دوران یورپ کیلئے پاکستانی برآمدات میں کسی حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔جب جولائی سے نومبر تک کے اعداد وشمار دیکھنے کو ملے تو معلوم ہوا کہ گزشتہ برس اس دورانیے میں 3.559بلین ڈالر کی مصنوعات فروخت کی گئیں جبکہ اس سال نومبر تک 3.866بلین ڈالر کی اشیاء یورپ بھجوائی گئیں یعنی 8.62فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ۔اسی طرح گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا فروری آٹھ ماہ کے دوران یورپ کیلئے پاکستانی برآمدات 5.421بلین ڈالر رہیں جبکہ موجودہ مالی سال کے ابتدائی 8ماہ کے دوران 5.921بلین ڈالر کی مصنوعات برآمد کی گئیں ۔گویا اس سال یورپ کیلئے پاکستانی برآمدات کے حجم میں 9فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ بہتری اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لٹیشن کونسل (SIFC)کی کاوشوں کے سبب ممکن ہوئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ناداں چند کلیوں پر قناعت کیوں کئے بیٹھے ہیں جبکہ گلشن کے ایک بڑے حصے پر ہماری اجارہ داری ممکن ہے۔ جن شعبہ جات میں یورپی منڈیوں تک بغیر کسی ٹیکس اور ڈیوٹی کے پہنچا جاسکتا ہے، اگر انکا تخمینہ لگایا جائے تو پاکستان صرف یورپی ممالک کو ہر سال 45بلین ڈالر کی اشیاء برآمد کرسکتا ہے۔ ہم عرب ممالک سمیت بیشتر دوست ممالک کو فلمی انداز میں اس ڈائیلاگ کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتا ہے۔ آپ گوشت ،چاول ،نمک اور مصالحہ جات سمیت غذائی اجناس ہم سے خریدیں تو پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے مگر بغیر کسی منت سماجت کے اپنی مصنوعات و پیداوار کو یورپی منڈیوں تک لیجانے کی جو سہولت حاصل ہے اس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے۔ ایک طرف حکومتی سطح پر نااہلی کا یہ عالم ہے کہ یورپ کی اس کھڑکی توڑ پیشکش پر توجہ نہیں دی جارہی اور دوسری طرف ہمارے کچھ مہرباں ایسے بھی ہیں جو حقیقی آزادی ،تبدیلی اور انقلاب کی آڑ میں مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان سے جی پی ایس پلس اسٹیٹس واپس لے لیا جائے۔ آپ کو حکومت پسند نہیں ،اسٹیبلشمنٹ سے شکایات ہیں تو ہوں گی، کیا کسی دور میں ایسا ہوا کہ حکومت کے مخالفین بالکل ختم ہوگئے ہوں؟ تو آپ تنقید کریں،حکومت کیخلاف تحریک چلائیں،اپنے قائد کے گن گائیں لیکن جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے کاٹنے کی حماقت تو نہ کریں۔ ہمارے مسالہ جات ،ہماری گارمنٹس ،ہماری زرعی اجناس بمشکل یورپ تک پہنچنے لگی ہیں ،اگر ڈیوٹی فری برآمد کی سہولت چھن جائے گی تو کس کا نقصان ہوگا؟ ان شعبہ جات سے جڑے عام افرادکا۔جب بحرانی کیفیت ہوتی ہے تو نئے مواقع جنم لیتے ہیں ۔جب پوری دنیا کساد بازاری کا شکار ہے تو یہی موقع ہے اپنی جگہ بنانے اور حالت سنوارنے کا۔