• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل نئی نہروں پر لڑائی جاری ہے، خاص طور پر صوبہ سندھ میں بھرپور احتجاج ہو رہا ہے، اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے اور اب وہ احتجاج میں شامل کیوں ہو رہی ہے؟ ایک طرف سندھ میں سورج آگ برسا رہا ہے اور دوسری طرف ہر شہر میں احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کا سماں ہے، پانی کا تنازعہ ہے کیا؟ نہروں پر ہونے والی لڑائی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ بچت کا یہ فارمولہ کیا ہے؟ یہ سب کچھ بیان کرنے سے پہلے پس منظر میں جھانکنا ضروری ہے۔ پاکستان میں ماضی قریب کی تاریخ میں جب کبھی بھی کالا باغ ڈیم کی بات چھڑی تو ہمارے ہاں پورے صوبہ سندھ سے اور خیبرپختونخوا کے ایک مخصوص حصے سے احتجاج کی آوازیں بلند ہوئیں حالانکہ اگر یہ ڈیم 60ء کی دہائی میں بن جاتا تو خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع خوشحال ہو جاتے، سندھ کی زمینوں کیلئے بھی وافر پانی میسر ہوتا اور بلوچستان کی زمینیں بھی سیراب ہو جاتیں، کچھ پانی پنجاب کے حصے میں بھی آ جاتا مگر یہ نہ ہو سکا۔

سندھ سے احتجاج کے لئے زیادہ توانا آواز پلیجو خاندان کی طرف سے بلند ہوتی رہی، رسول بخش پلیجو نے دنیا کو حقائق دکھانے کی بڑی کوشش کی پھر ایاز لطیف پلیجو نے پانی کا مقدمہ خوب لڑا، اسی خاندان کی ایک لڑکی سسی پلیجو اگرچہ پیپلز پارٹی میں ہیں مگر انہوں نے ہمیشہ سندھ کے حقوق کے لئے آواز بلند کی ہے، سسی پلیجو اکثر و بیشتر لباس بھی ایسا پہنتی ہیں جو سندھی ثقافت کا ترجمان ہو۔ دریائے سندھ صرف ایک دریا تو نہیں، پوری تہذیب کا نام ہے اور یہ تہذیب ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ چار پانچ ہزار سال پہلے سنسکرت زبان میں سندھو دریا کی تعریفوں سے بھرپور کہانیاں ملتی ہیں، سندھو شیر دل دریا ہے، سنسکرت میں اسے کبھی بے مثال گائے، کبھی تیز رفتار گھوڑی کی مثالوں سے بیان کیا گیا ہے اور کبھی اسے سورما کہا گیا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے مغلیہ دور میں چند نہریں نکالی گئیں، وہ نہریں کسی بیراج کے بغیر دریاؤں سے براہ راست نکالی گئی تھیں۔ انگریز دور میں نظام میں جدت لائی گئی اور بیراج بنائے گئے۔ آج کے مشرقی پنجاب میں بیراج زیادہ بنے، ہمارے ہاں انگریزوں نے صرف ایک بیراج بنایا، جسے سکھر بیراج کہا جاتا ہے۔پانی کی تقسیم کے سلسلے میں عالمی قوانین ہیں، اسلامی قوانین بھی ہیں، یہ قوانین کم و بیش ایک جیسے ہیں، جب ایک دریا، ایک سے زائد ملکوں یا صوبوں سے گزرتا ہو تو بالائی حصے کے لوگ زیادہ پانی استعمال نہیں کر سکتے بلکہ زیادہ پانی زیریں حصے کے لوگوں کو ملتا ہے۔ پانی کی تقسیم کا یہ فارمولہ رومن دور سے چلا آرہا ہے، ہمارے ہاں پانی پر جھگڑا 1859ء سے شروع ہوا، جب دریائے راوی سے باری دو آب کینال نکالی گئی، 1885ء میں سدھنائی کینال کے علاوہ لوئر چناب اور لوئر جہلم نکالی گئیں، 1908ء میں پہاڑ پور نہر نکالی گئی، 1914ء میں ایک اور نہر نکالی گئی، 1915ء میں ٹرپل کینال یعنی تین نہریں نکالی گئیں پھر 1919ء میں گیارہ نہریں نکالی گئیں۔

انگریزوں کے دور میں بھی عالمی قوانین کا احترام نہ کیا گیا۔ جب احتجاجی آوازیں بلند ہوئیں تو 1901ء میں پانی کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اریگیشن کمیشن بنایا گیا، کپاس کی فصل خاص طور پر متاثر ہوئی تو 1909ء میں کاٹن کمیٹی بنائی گئی، اس کمیٹی کا کام بھی پانی کی تقسیم کو بہتر بنانا تھا، غیر منصفانہ تقسیم پر اختلافات جاری رہے۔ 1933ء میں انڈس کمیٹی بنائی گئی، جس کا سربراہ یو پی کے ایک شخص کو بنایا گیا مگر مسئلہ حل نہ ہو سکا پھر 1945ء میں کلکتہ ہائیکورٹ کے ایک جج مسٹر راؤ کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا، اس نے جو حل دیا وہ کسی حد تک قابل قبول تھا مگر 1947ء میں برصغیر تقسیم ہو گیا، پاکستان بن گیا۔

1947ء کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کے لئے ایک کمیٹی بنی، جس کا سربراہ بھارتی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس تھا۔ اثاثوں کی تقسیم میں پانی کا مسئلہ بھی تھا، اس مسئلے کے لئے صرف پنجاب کا نمائندہ شامل کیا گیا حالانکہ پانی کے مسئلے پر برسوں سے سندھ کو اعتراضات تھے، ان حقائق کو پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب ’’ایمرجنسی آف پاکستان‘‘ میں تسلیم کیا ہے۔

1960ء میں انڈس ٹریٹی یعنی سندھ طاس معاہدہ ہوا، یہ معاہدہ بھی پانی کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بھارت کو تین دریا بیچ دیئے گئے۔ سندھ کے دانشور نہ صرف سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی سمجھتے ہیں بلکہ اس کے بعد پانی کے سلسلے میں جو کچھ ہوا اسے بھی غیر قانونی تصور کرتے ہیں کیونکہ بھارت کو دیئے گئے تین دریاؤں کی قیمت دریائے سندھ چکا رہا ہے۔ جہلم اور چناب پر بھارت نے غیر قانونی ڈیمز بنائے اور پاکستان کی حکومتیں دیکھتی رہ گئیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین