جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان پہلے ایک سال میں دوریاں تو کم ہوئی ہیں مگر بات ابھی قربت نہیں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق بات اتحاد تک نہیں پہنچ پا رہی اسکی ایک وجہ دونوں کے ایک دوسرے کے حوالے سے ’’تحفظات‘‘ ہیں اب چونکہ دونوں کی ہی اصل طاقت کے پی ہے۔ لہٰذا معاملات اب تک حل طلب ہیں۔ ماضی میں لفظوں کی ’’گولہ باری‘‘ اور ذاتی حملوں نے دونوں کو ہی زخمی کیا اورجب تک اِن زخموں پر ’’مرہم‘‘ نہیں رکھا جاتا تو شاید بات حکومت مخالف ’’اتحاد‘‘ اور آگے چل کر ’’انتخابی اتحاد‘‘ تک نہ پہنچ پائے۔
جے یو آئی پاکستان کی اہم ترین مذہبی سیاسی جماعت ہے جو اب ایک مکمل سیاسی جماعت کے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ جماعت کے ذرائع کے مطابق پچھلے دو تین انتخابات میں اُنکی جماعت نے دوسرے مسلک کے لوگوں کو بھی پارٹی ٹکٹ دیئے اور اب بات پارٹی کے عہدوں تک بھی آ رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کے مولانا اور جے یو آئی کو اصل تھریٹ مذہبی شدت پسند گروپ ’’داعش‘‘ سے ہے جس نے پوری ایک کتاب پشتو زبان میں شائع کی ہے اور وہ پارلیمانی جمہوریت کو کفر کا نظام سمجھتے ہیں۔ لہٰذا کے پی میں بشمول سابقہ فاٹا کے علاقوں میں شدت پسندوں کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ خود جے یو آئی اور مولانا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ 2013ء سے 2025ء تک کے پی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور سیاسی طور پر پی ٹی آئی نے صوبہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابی شکست دی ہے۔ جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی اور گزشتہ دو الیکشنز میں تو اُسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ تاہم مولانا مرکز اور پنجاب کی طرح کے پی، بلوچستان اور کراچی میں بھی الیکشن کو فارم 47کا انتخاب قرار دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی پر صرف مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی طرف سے طالبان اور مذہبی شدت پسندوں کی خاموش حمایت کا الزام نہیں بلکہ مولانا کو بھی شکوک و شبہات ہیں۔
تاہم مولانا نے اُس وقت ایک بڑا سیاسی فیصلہ کیا جب انہوں نے 2022ء میں سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کی۔ مولانا کے قریب ترین ذرائع کا کہنا ہے غالباً 2021ء اور 2022ء میں بھی اُس وقت کے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں مولانا لانگ مارچ کے ذریعے عمران حکومت پر دباؤ بڑھانے اور نئے الیکشن کے حامی تھے۔ مولانا سمجھتے تھے کہ اُس وقت حکومت کمزور تھی اور سڑکوں پر اسمبلیوں سے استعفیٰ دیکر دباؤ بڑھایا جا سکتا تھا۔ مگر مولانا اسٹیبلشمنٹ کے ذریعہ عدم تحریک کے حق میں نہیں تھے جس نے عمران کو ایک نئی سیاسی زندگی دے دی۔ مولانا اور خود مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف 2022ءمیں تحریک کے فوراً بعد الیکشن کے حق میں تھے مگر ’’نئے اتحادیوں‘‘ جن میں ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل تھی حکومت بنانے اور چلانے کے حق میں تھے۔
بات 2024ءکے الیکشن تک آئی تو عمران خان مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور مولانا اِس کا الزام مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی ناقص پالیسیوں کو دے رہےتھےجسکی وجہ سے خود جے یو آئی کے ہاتھ سے ایک بار پھر کے پی نکلتا نظر آ رہا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب الیکشن کے بعد میاں نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے مولانا سے ملاقات میں اُن کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تاہم انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ اس ملاقات میں ایک ایسا لمحہ آیا تھا جب میاں صاحب نے خود ’’سر پکڑکر‘‘ مولانا کے فیصلے سے اتفاق کیا۔ یاد رہے کہ مولانا 2018ء کے الیکشن کے وقت بھی اسمبلیوں سے استعفیٰ دیکر تحریک کی بات کرتے تھے۔ 2024ء میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف اور خود عمران خان کے اندر مولانا کے حوالے سے بڑی تبدیلی لے کر آیا اور اُنکے لیے ایک ’’نرم گوشہ‘‘ پیدا کیا۔ یہ ابتدا تھی دونوں جماعتوں کے درمیان دوریاں ختم کرنے کی اور بات چیت شروع کرنے کی ۔ بعد میں 26ویں آئینی ترمیم کے وقت دونوں جماعتیں اور قریب آئیں اور خود عمران خان نے اپنی جماعت کے رہنمائوں کو مولانا کی حمایت کا پیغام دیا۔ مولانا نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کی پیش کردہ ترامیم اور تجاویز کو حکومت کی ٹیم سے منوایا تاہم آخری وقت میں پی ٹی آئی نے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا مگروہ مولانا کی کا وشوں سے خوش تھی۔
اب خود پی ٹی آئی کے اندر کی ’’ٹوٹ پھوٹ‘‘ سے کسی حکومت مخالف اتحاد اور تحریک کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں جسکا کم ازکم وقتی فائدہ تو حکومت کو ہی ہو رہا ہے، رہ گئی بات ’’گیٹ نمبر4‘‘ کی تو جس طرح اعظم سواتی صاحب اچانک متحرک ہوئے ہیں اور ’’گیٹ نمبر4‘‘ کے دروازے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں اُس نے تحریک یا اتحاد کو مزید تاخیر کا شکار کر دیا ہے۔ دوسری طرف اُنکی کوششوں کو خود پی ٹی آئی کے رہنما انفرادی کاوش قرار دے رہے ہیں۔ نظر یہی آرہا ہے کہ پارٹی نے ’’دیکھو اور انتظار‘‘ کرو کی پالیسی اختیار کرلی ہے ایسے میں پارٹی کے جو لوگ زیر زمین سے منظر عام پر آئے تھے جیسا کہ مراد سعید وہ واپس پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اگر کچھ ملاقاتوں اور ریلیف کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اشارے واضح ہو سکتے ہیں۔ ’’گیٹ کھولنے‘‘ کے بیک ڈور پیغامات تو چلتے رہتے ہیں۔ اس کا انتظار خود قیدی نمبر 804کو بھی ہے اور مولانا فضل الرحمان کو بھی۔ موجودہ صورتحال میں تاحال عمران، شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد وغیرہ کو کوئی ریلیف ملنے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ البتہ خود حکومت اور مقتدرہ کیلئے اہم سوال یہ ضرور ہے کہ آخر کب تک پاکستان کی سیاست عمران اور اینٹی عمران کے گرد گھومتی رہے گی وہ تو جیل میں رہ کر بھی الیکشن جیت گیا تھا مطلب اُس کی جماعت فارم- 45والی۔ شائد مولانا کو بھی اِسی کا انتظار ہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں ملاقات میں کہا تھا’’ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ میں اگر بات کروں تو کس سے کروں۔ یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے اور ہمیں انتظار ہے سال بھر پہلے دیئے ہوئے تحفظات کے جوابات کا‘‘۔
مولانا اپنے والد مولانا مفتی محمود مرحوم کی طرح پاکستان کی سیاست کا اہم ترین کردارہیں اور جے یو آئی کے بارے میں تو بہت پہلے جماعت اسلامی کے امیر جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے مجھ سے کہا تھا جے یو آئی پارلیمانی سیاست میں جماعت اسلامی سے بہت آگے ہے۔ مولانا کئی اتحادوں کے سربرا ہ رہے ہیں چاہے وہ متحدہ مجلس عمل ہو یا پی ڈی ایم اور اب اگر کوئی حکومت مخالف اتحاد بنتا ہے تو زیادہ امکان مولانا کی سربراہی میں ہی بننے کا ہے۔ مگر کیا ایسا کوئی اتحاد بن پائے گا کیونکہ کسی بھی تحریک کے اس وقت چلنے کا مطلب محض حکومت مخالف تحریک نہیں سمجھا جائے گا۔ ابھی تو 9 مئی اور 26 نومبر سے ہی پی ٹی آئی باہر نہیں آ پائی اور اب 9 مئی کے دو سال مکمل ہونے کو ہیں عین ممکن ہے اُس وقت تک کوئی صورت سامنے آجائے۔