• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ آج سے ٹھیک75سال قبل 1950ء کا منظر ہے، انگریز سامراج’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو'‘‘کی نفرت انگیز پالیسی کے تحت ہندوستان پر دوسو سال راج کرنے کے بعد چلا گیا ہے اور ہندوستان کے بٹوارے کو تین سال بیت چکے ہیں لیکن مذہبی بنیادوں پر فسادات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اس زمانے کے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)اور بھارت کے مغربی بنگال میں شدت پسند مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں، دونوں اطراف کی اقلیتی خواتین کو اغواء کیا جارہا ہے جبکہ ایک دوسرے کے مقدس مذہبی مقامات پر حملے جاری ہیں، مغربی بنگال سے کم و بیش دس لاکھ لوگوں کی اپنا گھربار چھوڑ کر مشرقی پاکستان سرحد عبور کرنے کی اطلاعات ہیں جبکہ پاکستان میں مقیم مذہبی اقلیتیں بھی خوف و ہراس کا شکار ہوکر ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں، افواہوں کا بازار گرم ہے اور اقلیتوںپربہیمانہ مظالم نے دونوں ممالک کے مابین سرحدی کشیدگی پیدا کردی ہے۔ ایسے نازک لمحات میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اپنا قائدانہ کردارادا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے بھارت کے پردھان منتری پنڈت جواہر لال نہرو کو پاکستانی دارالحکومت کراچی آنے کی دعوت دیتے ہیں، تاہم نہرو کی معذرت کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ وہ دونوں ممالک کی اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے دہلی جانے کو تیار ہیں۔ لیاقت علی خان دو اپریل 1950ء کو بھارتی دارالحکومت پہنچتے ہیں اور پھر آج سے ٹھیک 75سال قبل اپریل کے مہینے کی آٹھ تاریخ کو اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ایک ایسے تاریخی معاہدے پر دستخط کرلیتے ہیں جسے سفارتی زبان میں لیاقت نہرو پیکٹ یا عرف عام میں دہلی معاہدے کا نام دیاگیا، اس معاہدے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک میں مقیم مذہبی اقلیتوں کواحساسِ تحفظ، دنگے فسادات کی روک تھام اور پُرامن ماحول کو فروغ دینا تھا۔ لیاقت نہرو معاہدے کی شقوں کے مطابق قرار دیا گیا کہ دونوں ممالک اپنی اپنی اقلیتی آبادی کی عزت، جائیداد اور زندگیوں کے تحفظ کیلئے پُرعزم ہیں،دونوں اطراف سے مذہب یا نسل سے قطع نظر تمام شہریوں کیلئے مساوی شہری حقوق اور ترقی کے مواقع پر زور دیاگیا، اقلیتی طبقے کی اغواء شدہ خواتین کی ہر صورت میں سرحدپار خاندان واپسی پر اتفاق کیا گیا،جبری مذہب تبدیلی کو قبول نہیں کیا جائے گا، معاہدے کے تحت اقلیتی کمیونٹی کو13 دسمبر 1950ء تک سرحدپار اپنی اصل رہائش گاہ واپسی مع مال و اسباب کی اجازت دی گئی، معاہدے میں اقلیتوں کے ثقافتی اور تعلیمی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا،جس میںاقلیتی رسم الخط، زبان، مذہبی رسومات اور عبادت گاہوں کا تحفظ شامل تھا۔ معاہدے کے متن کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی فیک نیوز اور افواہوں کی صورت میں دونوں حکومتوں کو سنگین چیلنج درپیش تھا، یہی وجہ ہے کہ لیاقت نہرو پیکٹ میں افواہیں اور غلط خبر پھیلانے والوں کی سخت نگرانی اور ایکشن لینے کی شق شامل کی گئی، دونوں وزرائے اعظم نے اتفاق کیا کہ پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دی جائیگی اوردونوں کے در میان جنگ بھڑکانے یا جغرافیائی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈا پر ایکشن لیا جائے گا، فیصلہ کیا گیا کہ ا قلیتوں کے جان و مال اور جائیداد کے تحفظ کیلئے کمیشن قائم کیا جائے گا۔ پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان کی جانب سے معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں ممالک کے مابین کھچاؤ تیزی سے ختم ہوتا چلا گیا، حالات معمول پر آنے لگے، حالات کے جبر کے تحت نقل مکانی کرنے والے اپنے گھروں کو واپس آنے لگ گئے، بعد ازاں دونوں ممالک کے مابین ایک اور معاہدہ طے پا گیا جسکے تحت دونوں ممالک کے مابین تجارت اور آزادانہ نقل و حرکت شروع ہوگئی۔ تاہم بدقسمتی سے اقلیتوں کیلئے یہ ریلیف وقتی ثابت ہوا اور دہلی معاہدے کے فقط ایک سال بعد ہی لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے دوران شہید کردیا گیا، دوسری طرف بھارت میں معاہدے کو شدت پسند حلقوں کی جانب سے روزِ اول سے شدید تنقید کا سامناکرنا پڑا، پنڈت نہرو کے قریبی سیاسی اتحادی شیام پرشاد مکھرجی نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دیکرالگ ہوگئے، انہوں نے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بھارتی جن سنگھ پارٹی بنالی جو بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں ڈھل گئی۔ میرےپاکستان کی تاریخ کے ایماندار ترین چیف جسٹس سپریم کورٹ رانا بھگوان داس سے آخری سانس تک قریبی مراسم قائم رہے، وہ لیاقت نہرو معاہدے کو دونوں ممالک کے مابین دیرپا امن اور خطے میں استحکام کی ضمانت سمجھتے تھے، بہت مرتبہ دوران گفتگو یہ امر بھی زیر بحث آیا کہ بھارت میں دہلی معاہدے کے بعد سے مسلمان اقلیتوں کی جائیداد کیلئے وقف ادارے کا سربراہ ہمیشہ مسلمان لگایا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا، ملک کے چاروں کونوں میں موجود غیرمسلموں کے مقدس تاریخی مذہبی مقامات قبضہ مافیا کے شر سے محفوظ نہیں۔ میں نے متعدد مرتبہ آواز بلندکی کہ قومی متروکہ وقف املاک بورڈ کی سربراہی کسی محب وطن پاکستانی ہندو کے حوالے کی جائے، میں نے سابق چیف جسٹس رانا بھگوان داس کا نام بھی تجویز کیا، تاہم کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔بدقسمتی سے آج صورتحال اتنی گھمبیر ہوچکی ہے کہ اگر ایک طرف پاکستان میں غیرمسلموں کے صدیوں پرانے مقدس مقامات زبوں حالی کا شکار ہیں تو سرحد پار پنڈت نہرو کے ناراض ساتھی شیام پرشاد مکھرجی کی قائم کردہ سیاسی جماعت برسراقتدار ہے، مودی سرکار کی جانب سے بھارتی مسلمانوں کی وقف املاک کو ہتھیانے کیلئے وقف قوانین میں ترمیم کردی گئی ہے جسکے تحت اب نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے تاریخی مذہبی ورثے کی بقاء خطرے میں پڑ گئی ہے بلکہ بٹوارے کے بعد پہلی مرتبہ بھارت میں کسی غیرمسلم کو وقف ادارے کا سربراہ لگانے کا قانونی جواز بھی میسر آگیا ہے۔ رواں ماہ اپریل میں لیاقت نہرو معاہدے کو 75 سال بیت رہے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے اقلیتو ں کے تحفظ کے تاریخی معاہدے کو فراموش کردیا ہے،آج میری دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت سے اپیل ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں مقیم مذہبی اقلیتوں کے احساسِ عدم تحفظ کو دور کرنے کیلئے انہیں قومی دھارے میں شامل کریں، اپنے ممالک میں قائم وقف اداروں کی سربراہی اقلیتوں تک محدود رکھیں اور لیاقت نہرو معاہدے کے تحت اقلیتوں سے متعلق وعدوں پرمن و عن عملدرآمد یقینی بنائیں۔

تازہ ترین