• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی ہائوس میں بیٹھے ہوئے ایک ادیب نے چائے کا ایک گھونٹ بھر کر پیالی واپس پلیٹ میں رکھی اور میری طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا تمہیں پتہ ہے کہ میں بننا مجمع باز چاہتا تھا مگر بن ادیب گیا ہوں۔ کیا مطلب؟ میں نے اس کی ہنسی میں شامل ہوتے ہوئے پوچھا مجھے اس کے لہجے سے تاحال اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہا ہے یا وہ اس وقت مذاق کے موڈ میں ہے ۔

میں صحیح کہہ رہا ہوں ،اس نے داہنے ہاتھ سے اپنے بال ماتھے پر سے سمیٹتے ہوئے قہقہہ لگاتے کہا جب میں بی اے میں پڑھتا تھا تو فٹ پاتھ پر مجمع لگانے والے مقرروں کی تقریریں بڑی دلچسپی سے سنا کرتا تھا تقریر کے اختتام پر ان میںسے کوئی سرمہ بیچتا کوئی دانتوں کا منجن فروخت کرتا اور کسی کی تان بوڑھوں کو جوان بنانے والی دوا پر ٹوٹتی بعد میں ان میں سے ایک مجمع باز سے میری دوستی ہو گئی جس کی اپنی ذاتی کوٹھی تھی اور جب وہ دوسرے شہروںمیں مجمع لگانے کے لئے دورے پر نکلتا تو کسی صاف ستھرے ہوٹل میں قیام کرتا اس کا ’’اسٹاف‘‘ دو افراد پر مشتمل تھا جو ’’مجمع گاہ‘‘ میں آدھ گھنٹہ پہلے پہنچ جاتا ان میں سے ایک لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے ابتدائی نوعیت کی تقریر کرتا اتنی دیر میں کچھ لوگ جمع ہو جاتے تو ان کا ’’باس‘‘ جس کا چہرہ سرخ و سفید تھا اور جو بارعب شخصیت کا مالک تھا پستول کمر کے ساتھ باندھے وہاں پہنچ جاتا اور ’’جوہر حیات‘‘ نام کی بوتلیں اپنی صحت کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے بیچتا اس کی تقریر اتنی دلپذیر ہوتی کہ کم از کم پچاس بوتلیں وہیں فروخت ہو جاتیں چنانچہ سو روپے فی بوتل کے حساب سے وہ ہزاروں روپے جیب میں ڈال کر اپنے ’’اسٹاف‘‘ کو کسی اور جگہ کا پتہ دیتا اور پھر آدھ گھنٹے بعد خود ٹیکسی میں بیٹھ کر وہاں مجمع لگانے پہنچ جاتا یہ آج سے کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے اور وہ اس زمانے میں بھی کم از کم دس ہزار روپے روز کے کماتا تھا۔

’’مگر تم تو اپنے بارے میں کچھ بتانے والے تھے ؟‘‘

’’ہاں میں تو یہی بتانے لگا ہوں وہ ایک بار پھر ہنسا !‘‘دراصل ایک دن میں نے اسے یہ جوہر حیات تیار کرتے دیکھا جو بوڑھوں کو جوان اور جوانوں کو نوجوان بناتا تھا ہوٹل کے کمرے میں اس نے میری موجودگی کے دوران اپنے ملازم کو یہ جوہر حیات تیار کرنے کی ہدایت کی جس پر یہ ملازم جو ٹنڈا تھا فوراً اٹھا ایک بڑی بالٹی پانی سے بھری اس میں کچھ سکرین تھوڑا سا رنگ ملایا اور ایک مٹھ چھان بورے سے ملتی جلتی کوئی چیز اس میں مکس کی اس کے بعد اس نے اپنا واحد ہاتھ بالٹی میں ڈال کر پانی زور زور سے ہلایا اور اب یہ ’’جوہر حیات‘‘ ٹانک تیار تھا خالی بوتلیں اس کے پاس دھری تھیں وہ ایک ایک کرکے بوتل پانی میں ڈالتا۔ غٹ غٹ کی آواز آتی اور بوتل بھر جاتی بعدازاں اس نے ان بوتلوں پر ’’جوہر حیات‘‘کا خوبصورت لیبل چسپاں کیا جس کے نیچے ’’غلط ثابت کرنے والے کو ایک لاکھ روپے انعام ‘‘ لکھا تھا اور انہیں ایک اٹیچی میں پیک کر دیا رنگ، سکرین ،چھان بورے اور پانی سے بھری بالٹی آدھی سے زیادہ بچ گئی تھی جو اس نے وہیں الٹا دی تھی اور یوں باقی ماندہ جوہر حیات نالی میں بہہ گیا‘‘

سبحان اللہ !اس سارے قصے کے دوران پہلی بار میرے چہرے پر مسکراہٹ ابھری اور اب اس کہانی کے اصل حصے میں میری دلچسپی مزید بڑھ گئی چنانچہ میں نے کہا !’’تم تو اپنے بارے میں کچھ بتانے والے تھے ؟‘‘’’اب میں وہی بتانے لگا ہوں ‘‘ اس نے چائے کا ایک اور گھونٹ لیتے ہوئے کہا بس وہیں میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں نے اپنا کیریئر بنانا ہے تو ایک مجمع باز کے طور پر ہی بنانا ہے میں نے اس دوران گریجویشن کرلی تھی اور نوکری مل نہیں رہی تھی پھر کیا ہوا ؟میں نے محسوس کیا کہ کہانی کا ٹیمپو (TEMPO)کچھ سلو ہو گیا ہے ۔پھر یوں ہوا کہ میں نے دانتوں کی دوا بیچنے کا پروگرام بنایا اس پروجیکٹ کیلئے میں نے بازار سے چھوٹے سائز کی دو سو شیشیاں خریدیں ایک بالٹی میں پانی بھرا اس میں تھوڑی سی کھٹائی جو گول گپوں میں ڈالتے ہیں ملائی ،تھوڑا سا زردے کا رنگ اس میں مکس کیا اور پھر دانتوں کی موتیوں کی طرح چمکانے والی دوا تیار تھی‘‘۔

پھر میں نے کوئی ڈیڑھ صفحے کی تقریر لکھی جس میں پانچ شعر بھی شامل تھے جن میں سے چار میرے اپنے اور ایک علامہ اقبال کا تھا اور بعدازاں اسے زبانی یاد کرنے کے بعد کوئی ایک ہفتے تک اس کی ریہرسل کرتا رہا یہ خاصا مشکل کام تھا کیونکہ اس کے لئے لہجہ بھی خالص مجمع بازوں ایسا بنانا تھا چنانچہ صرف ایک لفظ ’’دند‘‘ (دانت) کو مجمع بازوں کے انداز میں ادا کرنے کے لئے میرے کئی دن صرف ہو گئے کیونکہ ’’دند‘‘ کا لفظ دانت میچ کرادا کرنا تھا ۔یعنی دن د‘‘

اس گفتگو کے دوران شام ہونے کو تھی اور ٹی ہائوس کی میزیں ایک ایک کرکے ادیبوں سے پر ہونا شروع ہو گئیں ان میں رنگا رنگ ادیب تھے ہر لیبل کے، ہر مارکہ کے مگر اس وقت میرا دھیان ان کی طرف نہ تھا بلکہ میں دعا کر رہا تھا کہ ان میں سے کوئی ہماری میز کی طرف رخ نہ کرے چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر احتیاطاًستون کے پیچھے والی کرسی پر بیٹھ گیا مجھے اس داستان میں بڑا مزہ آ رہا تھا اچھا ’’پھر کیا ہوا‘‘ہاں یہ تو میں تمہیں بتانا بھول ہی گیا کہ ان دنوں میں پنڈی میں ہوتا تھا چنانچہ پنڈی کے کسی بازار میں مجمع لگانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لہٰذا ہم نے اس کے لئے ملتان کا انتخاب کیا اور پھر ملتان جانے والی گاڑی میں سوار ہو گئے جس ڈبے میں ہم سوار تھے وہ مسافروں سے بھرا ہوا تھا میرے دوست نے مجھے کہنی ماری اور آہستہ سے کہا ۔

بسم اللہ اس ڈبے ہی سے کرو تجربے کے لئے یہ بہترین جگہ ہے لیکن ا تنے سارے لوگ دیکھ کر میری ہمت جواب دے گئی چنانچہ اس کے اصرار پر میں نے اپنی جگہ سے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو مجھے یوں لگا میرے پائوں من من کے ہو گئے ہیں لہٰذا میں پھر واپس بیٹھ گیا اور میں نے اپنے دوست سے کہا کہ دوسرے ڈبے میں چلتے ہیں مگر دوسرے ڈبے میں بھی میری کیفیت جوں کی توں رہی مجھے یوں لگتا تھا جیسے یہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ میرے واقف ہیں اس دوران مسافر ایک ایک کرکے مختلف اسٹیشنوں پر اترتے جا رہے تھے حتیٰ کہ اس ڈبے میں صرف تین مسافر رہ گئے جن میں سے دو بوڑھے اور ایک جوان تھا میرے دوست نے مجھے ٹہوکا دیا اور کہا یار خدا کے لئے ہمت کرو اب سنہری موقع ہے۔ (باقی کل)

تازہ ترین