مجھ جیسے پاکستانیوں کو خبریں سننے اور پڑھنے کی ایسی لت لگی ہوئی ہے کہ اگر ایک شام بھی کہیں باہر گزرے اور واپس آکر اپنے ملک کی خبروں کا وقت نہ ہو تو ڈی۔ ڈبلیو یا بی بی سی سے پاکستان کی خبر مل جاتی ہے۔ میں اپنے بیٹے فیصل کو لیکر اسلام آباد سے باہر اسلئے جارہی تھی کہ اس نے 16 برس کی عمر کے بعد پاکستان میں لاہور اور اسلام آباد میں بھی اندرون شہر آبادی کے حالات نہیں دیکھے تھے البتہ مری اور نتھیا گلی کے بچوں کو اسکول سے واپس آکر کبھی بھٹے بھونتے، کبھی چائے کے کھوکے پر پکوڑے تلتے یا بوڑھے لوگوں کو چھوٹی سی ٹرالی میں مال روڈ تک لاتے دیکھا تھا۔ اب کے میں نے فیصلہ کیا کہ اسے سوات کے علاقے دکھائونگی اور وہاں کے بچوں کو اسکول جاتے یا نہ جاتے دیکھوں گی اور گاڑی کا رخ کالام کی طرف کرلیا۔ ابھی اسلام آباد کی حدود سے نکلے بھی نہ تھے کہ یکے بعد دیگر ہر 15منٹ بعد ٹرک دیکھے جو افغانیوں اور انکے بچوں کیساتھ پشاور کی جانب جارہے تھے۔ پلاسٹک لوٹےاور برتنوں کے علاوہ کچھ چھوٹا موٹا سامان خواتین اور شٹل کاک برقعے اوڑھے ٹھنسی ہوئی تھیں۔ انکی روانگی کی خبریں اس نے امریکہ میں تو سنی تھیں۔ اب دیکھا اور سمجھا کہ انکو واپس کیوں بھجوایا جا رہا مجھے یاد آیا وہ جو اوپر چڑھتے ہوئے بالاکوٹ اور دوسرے شہر کہاں گئے۔ شہر کہیں نہیں گئے۔ موٹروے ان شہروں کو زمین پر چھوڑ گئی۔ اب مینگورہ یا کالام تک سارے شہروں کا حلیہ ہی بدل گیا تھا۔ بہت اچھا رستہ اور سڑک کنارے، چھوٹے بڑے ہوٹلز نشاندہی کررہے تھے کہ ابھی بھی پرانی آبادی، شہر کے اندر ملے اور مین موٹروے پر بحرین سے کالام تک پگھلتے گلیشیرز شور مچا رہے تھے، ابھی تو پہاڑوں پر برف جمی تھی۔ ہر جگہ سے گزرتے ہوئے میں بچوں سے اسکول اور کتابوں پر سوال کرتی، سب بچے پڑھنے جاتے تھے۔ واپس شام کو باپ اور بھائیوں کیساتھ دکان یا کیفے میں کام کرتے تھے۔ ہوٹلز اور ریسٹورنٹوں میں زیادہ تر بچے بی۔ اے یا میٹرک پاس تھے نالاں تھے، پاکستان کے حالات اور مہنگائی سے اور اچھی نوکریوں کی فکر نایابی سے اکتائے ہوئے۔ ہر نوجوان فیصل سے پوچھتا تھا۔ امریکہ میں پیسے خرچ کرکے پہنچ جائوں تو کیا نوکری مل جائیگا۔ ہر شہر میں صوابی سے لیکر بدین، بحرین کالام تک سڑک کے کنارے چھ سے دس سال تک کے بچے، چنے، چپس اور دانتوں کو صاف کرنے کیلئے خصوصی ڈنڈیاں اور بڑی دوکانوں پر لگتا تھا، اسلام آباد کے ڈریس ایمپوریم، شوکیس میں کھڑی پلاسٹک کی لڑکیوں پر ہر فیشن کے ڈریس موجود تھے۔ بازاروں اور گلیوں میں ایک دو شٹل کاک برقعے نظر آرہے تھے۔ ہوٹل تک پہنچنا یعنی بحرین سے کالام تک سڑک اتنی ٹوٹی ہوئی تھی کہ بڑی گاڑی ہونے کے باوجود پتلی سی سڑک پر دو گاڑیاں آمنے سامنے نہیں چل سکتی تھیں۔ خدا خدا کرکے ہوٹل پہنچے جو درمیانے درجے کا، کھانے سے لیکر ناشتے تک، اس طرح گھر کا ماحول دالیں اور مٹن کڑاہی، مزیدار اور کم گھی میں تیار کی ہوئی تھیں۔ مجھے شوق تھا کہ میں گھر اور باہر کام کرتی خواتین کو دیکھوں اسلئے سڑک کے کنارے جب ہیلتھ سینٹرز دیکھے میں گاڑی روک کر اندر آگئی۔ عورتیں بچوں کو انجکشن لگوارہی تھیں۔ اسٹاف بھی خوش مزاج، نرسیںسر پر دوپٹہ لئے مریضوں کا معائنہ کررہی تھیں۔ اسٹاف دو نرسوں اور دو مڈ وائفس پر مشتمل تھا۔ اگلے دن صبح کے پی کی این جی اوز مسعود الملک کی نگرانی میں کام کررہی تھیں۔ ہمارے گائیڈ بھی وہی تھے۔ ہمیں جنگل دیکھنے کا شیڈول دیا گیا۔ کچھ سوچا کہ جنگل کیا دیکھنا سو دفعہ چھانگا مانگا اور نتھیا گلی کے جنگل دیکھے ہیں۔گائیڈ انتظار کررہا تھا۔ جنگل میں گھستے ہی سب کے چہروں پر مسکراہٹ نے جگہ بنالی۔ بیچ میں سڑک اور دونوں طرف گلیشیرز میں اونچے درخت تو تھے۔ مگر کوئی پرندہ نہیں تھا۔ منظر ایسا خوب سے خوب تر ہوتا جارہا تھا۔ جنگل کے درمیان اترائی میں بہت گھر تھے مگر یہاں بھی بکریاں، بھیڑ یں نظر نہیں آرہی تھیں گلیشیر شور مچاتے جب کسی نیچی گھاٹی پر نظر آئے تو تمام لوگوں نے گاڑیوں کے دروازے کھولے اور تیز بہتے پانی کے پاس جاکر تصویر یں بنائیں۔ کہیں کہیں چھوٹی بنچیںمقامی لوگوں نے بناکر رکھی تھیں۔ چائے اور قہوہ چھوٹی پیالیوں میں فروخت کررہے تھے۔ یہ جنگل میلوں تک ہمیں لیکر چلا۔ ہر کونے میں چھوٹی دکانوں پر سلاجیت اور شہد فروخت کرتے نوجوان تھے۔ بوڑھے کہیں کہیں لاٹھی ٹیکتے چلتے ہوئے نظر آئے۔ مائوں نے چنوں پر گڑ لگاکر لڈو بناکر تھیلوں میں دیئے تھے،ہر چھوٹے بچے کے ہاتھ میں ایک تھیلادو سو روپے کا تھا۔ مری والا منظر کہ بچے بڑے غبارے بندوق سے پھاڑتے اور ہنستے ہنستےپیسے وصول کرتے۔ کہیں کہیں چھوٹی لڑکیاں بھی لڈو بیچ رہی تھیں پورے راستے میں ایک آدھ بچھڑا اور بکری نظر آئی۔ کہیں کہیں چھوٹے اخروٹ کے تھیلے فروخت ہورہے تھے۔ البتہ ہر شہر میں تھری بٹوے کشمیری شالیں اور کوٹ بھی اچھی قیمت پر فروخت ہورہے تھے۔ وہاں کوئی پھل پیدا نہیں ہوتا۔ بازار میں کولڈ اسٹوریج کے کینو، تازہ امرود اور کہیں وہ بھی دوسرے شہرں سے لائے لوکاٹ یا چھوٹے تربوز نظر آرہے تھے۔ گلیشیرز کے اتنے تیز پانی کو دیکھ کر میرے دل میں ہوک اٹھتی۔ کاش اس ٹھنڈے چشموں کے پانی کو حکومت پاکستان محفوظ کرنے کا سامان کرتی تو آج خانپور ہوکہ تربیلا ڈیم خشک ہوتے نظر نہ آتے۔