انشاء رضوی
چند دن قبل’’ورلڈ ہیموفیلیا ڈے‘‘منایا گیا، جس کا مقصد دنیا بَھر میں ہیموفیلیا اور خون کی دیگر جینیاتی بیماریوں کے شکار افراد سے متعلق آگاہی پھیلانا، اُن کی مشکلات اجاگر کرنا اور علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کی ترغیب دینا تھا۔
یہ دن ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا (ڈبلیو ایف ایچ) کے بانی، فرینک شنیبل کی سال گرہ کے موقعے پر منایا جاتا ہے، جنہوں نے ہیموفیلیا کے مریضوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔
فرینک شنبیل ایک امریکی کینیڈین تھے۔ 1926ء میں پیدا ہوئے اور 1987ء میں وفات پائی۔ وہ خود ہیموفیلیا کا شکار تھے اور اِس بیماری کی مشکلات بہت قریب سے محسوس کیں۔ اُنہوں نے دیکھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہیموفیلیا کے مریضوں کو نہ صرف علاج بلکہ انسانی ہم دردی، آگاہی اور تحفّظ بھی حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا، اُنھوں نے 1963ء میں ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا (ڈبلیو ایف ایچ) کی بنیاد رکھی۔
ہیموفیلیا کیا ہے؟
یہ ایک جینیاتی بیماری ہے، جس میں مریض کے خون میں، خون جمانے والے پروٹینز( کلاٹنگ فیکٹرز) کی کمی ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً، معمولی چوٹ یا زخم کی صُورت میں بھی زیادہ خون بہنے لگتا ہے اور بعض اوقات جسم کے اندر خون بہنے سے شدید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
یہ بیماری عام طور پر مَردوں میں پائی جاتی ہے، جب کہ خواتین بھی اس میں مبتلا ہو سکتی ہیں، لیکن اُن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ہیموفیلیا کی اے، بی اور سی تین اقسام ہیں، جو مختلف کلاٹنگ فیکٹرز کی کمی کے باعث ہوتی ہیں۔
علامات کیا ہیں؟
اِس مرض کی پہلی علامت معمولی چوٹ پر بھی غیر معمولی طور پر خون کا بہنا ہے۔ اِس کے علاوہ جِلد کا نیلا پڑ جانا، خون بہنے کی وجہ سے جوڑوں میں سُوجن اور درد ہونا، زخموں کا دیر سے بَھرنا بھی اہم علامات ہیں، جب کہ اِس مرض میں ناک اور مسوڑھوں سے بار بار خون بھی آسکتا ہے۔
کیا علاج ممکن ہے؟
فی الحال ہیموفیلیا کا کوئی مستقل علاج موجود نہیں، لیکن مناسب دیکھ بھال اور جدید فیکٹر ری پلیسمنٹ تھراپی کی مدد سے مریض معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک میں اس مرض کے علاج کی سہولتیں میسّر ہیں، جب کہ ترقّی پذیر ممالک میں یہ اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
مریضوں کا تناسب
ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بَھر میں ہر دس ہزار مَردوں میں سے ایک ہیموفیلیا کے مرض میں مبتلا ہے۔گویا، دنیا میں تقریباً بارہ لاکھ، پچاس ہزار افراد اِس مرض سے متاثر ہیں۔ ان میں سے تقریباً چار لاکھ افراد ہیمو فیلیا اے میں مبتلا ہیں اور باقی ہیموفیلیا بی یا خون کی دیگر بیماریوں سے دوچار ہیں۔ تاہم، صرف تیس سے چالیس فی صد مریضوں ہی کی درست تشخیص ممکن ہوپاتی ہے۔
ترقّی یافتہ ممالک میں ستّر سے اسّی فی صد مریض رجسٹرڈ ہیں، جب کہ ترقّی پذیر ممالک میں یہ شرح بیس فی صد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ البتہ، آبادی کے لحاظ سے اندازاً دس سے پندرہ ہزار افراد اِس مرض سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ مختلف این جی اوز اور اسپتالوں کے مطابق صرف دو سے تین ہزار مریض رجسٹرڈ ہیں۔ یعنی تقریباً اَسّی فی صد مریض غیر تشخیص شدہ یا رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
پاکستان میں کیا انتظامات ہیں؟
پاکستان میں ہیموفیلیا کے حوالے سے چند اہم ادارے اور تنظیمیں متحرّک ہیں، اگرچہ وسائل اور سہولتیں ابھی بھی محدود ہیں۔1996ء میں لاہور میں’’پاکستان ہیموفیلیا پیشنٹس ویلفیئر سوسائٹی‘‘ (پی ایچ پی ڈبلیو ایس) قائم کی گئی، جو پورے مُلک میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی مدد کرتی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں فاطمید فاؤنڈیشن بھی خدمات انجام دے رہی ہے۔ کراچی میں حسینی بلڈ بینک اور انڈس اسپتال بھی ہیموفیلیا کے حوالے سے سرگرم ہیں۔ یہ تنظیمیں اور ادارے مفت فیکٹر تھراپی، خون کے اجزاء اور عطیات کی فراہمی، مریضوں کی کاؤنسلنگ اور مفت علاج جیسی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔
حکومت کا کردار
حکومت کی جانب سے کچھ سرکاری اسپتالوں میں ہیموفیلیا کے علاج معالجے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ بڑے شہروں کے سرکاری ٹیچنگ اسپتالوں، جیسے لاہور کے جناح اسپتال، پشاور کے خیبر ٹیچنگ اسپتال، راول پنڈی کے ہولی فیملی اسپتال وغیرہ میں ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے فیکٹر تھراپی اور خون کی سہولت کسی حد تک دست یاب ہے۔ کچھ اسپتالوں میں ہیماٹولوجی یونٹس بھی قائم کیے گئے ہیں۔
نیز، حکومت کی جانب سے ادویہ اور مخصوص ہیموفیلیا فیکٹرز کی درآمد پر ٹیکس میں نرمی برتی گئی ہے۔ مزید یہ کہ عالمی اداروں، جیسے ڈبلیو ایف ایچ کے ساتھ پاکستانی حکومت کی شراکت داری بھی بعض اوقات دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہیموفیلیا کے لیے کوئی مستقل قومی پالیسی یا فنڈ موجود نہیں ہے۔
سرکاری سطح پر اِس مرض میں مبتلا افراد کی درست رجسٹریشن کے انتظامات بھی موجود نہیں ہیں۔ مزید براں، دیہات اور دُور دراز علاقوں میں مریضوں کو تشخیصی سہولت میّسر ہے اور نہ ہی علاج معالجہ۔ صرف بڑے شہروں میں کچھ سہولتیں دست یاب ہیں، جو بیش تر مریضوں کے لیے ناقابلِ رسائی ہیں۔
اقدامات کی ضرورت
حالات میں بہتری کے لیے سب سے اہم امر تو’’نیشنل ہیموفیلیا پالیسی‘‘ کی تشکیل ہے اور اس کے بعد مریضوں کی قومی رجسٹریشن ازحد ضروری ہے۔علاوہ ازیں، حکومت کی جانب سے مفت علاج اور فیکٹر تھراپی، صحت بجٹ میں شامل کرنے کے ساتھ، میڈیا مہمّات کے ذریعے آگاہی اور طبّی عملے کی تربیت بھی ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ این جی اوز اور سرکاری اداروں کی شراکت مضبوط کرکے بھی ہیموفیلیا سے متعلقہ معاملات و مسائل کنٹرول کیے جاسکتے ہیں۔
عالمی دن کی اہمیت اور عوام کا کردار
ہیموفیلیا کے عالمی دن کی غرض و غایت یہ ہے کہ اِس روز مریضوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے اور دنیا بَھر میں اس کے علاج تک رسائی بہتر بنائی جائے۔ مزید یہ کہ علاج معالجے اور مرض کی روک تھام کے ضمن میں تحقیق کو فروغ دیا جائے۔
اِس سلسلے میں ایک عام شخص کیا کردار ادا کر سکتا ہے، یہ ایک اہم بات ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر آگاہی مہم میں حصّہ لیں اور خون کے عطیے کی اہمیت اجاگر کریں۔ نیز، اگر ہم مالی اعتبار سے مضبوط ہیں، تو مقامی اسپتالوں اور اداروں کی مالی معاونت بھی کرسکتے ہیں۔