یکم مئی کا دن تاریخِ انسانی کا وہ باب ہے، جو خون سے لکھا گیا۔ یہ دن کسی قومی مفاد کا پرچارک ہے اور نہ ہی محدود تناظر کا مظہر، بلکہ یہ پوری انسانیت کے اُس طبقے کے نام ہے، جو صدیوں سے پِس رہا ہے، مگر جُھک نہیں رہا۔ یہ دن دنیا بَھر کے محنت کشوں کی قربانیوں، جدوجہد اور مزاحمت کا اعتراف ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج کا مزدور وہ عزّت، تحفّظ اور حقوق حاصل کر چُکا ہے، جن کا خواب شکاگو کے مقتولین نے دیکھا تھا؟
بدقسمتی سے، آج بھی دنیا کا نظام ایک خاص طبقے کے مفادات کے گرد گھوم رہا ہے۔ سام راجی قوّتیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اپنے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ترقّی پذیر ممالک پر ایسی معاشی پالیسیز مسلّط کرتے ہیں، جو بلاواسطہ مزدور دشمنی کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ نج کاری، لیبر قوانین میں’’لچک‘‘ اور ریاستی اداروں کی کم زوری، یہ سب اِس نظام کی وہ شکلیں ہیں، جو محنت کشوں کو مستقل غیرمحفوظ رکھتی ہیں۔جب عالمی مالیاتی ادارے، حکومتوں کو بجٹ خسارے کم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، تو اس کا پہلا وار مزدور ہی پر پڑتا ہے۔
تعلیم، صحت اور سوشل سیکیوریٹی جیسے شعبوں میں کٹوتی کی جاتی ہے۔ صنعتوں کو’’منافع بخش‘‘ بنانے کے لیے محنت کشوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے۔ نچلے طبقے کی قوّتِ خرید سکڑتی ہے اور دولت کا ارتکاز ایک محدود طبقے تک محدود ہو جاتا ہے۔ یہ صُورتِ حال صرف معیشت کا مسئلہ نہیں، بلکہ سماجی انصاف کا بحران ہے اور پاکستان میں یہ بحران مزید شدید ہے۔ یہاں مزدور دُہری مار سہہ رہا ہے۔ یعنی ریاستی بے اعتنائی اور معاشی عدم مساوات۔ کم از کم اجرت کا تعیّن تو ہو جاتا ہے، مگر عمل درآمد ایک خواب ہے۔
بیش تر فیکٹری مالکان، مزدور کو رجسٹر ہی نہیں کرتے تاکہ سوشل سیکیوریٹی اور دیگر قانونی سہولتیں دینے سے بچا جا سکے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے ہاری، اینٹوں کے بھٹّوں پر جلنے والے مزدور، گھریلو ملازمین، ہوٹلز اور دُکانوں پر کام کرنے والے نوجوان، یہ سب غیر رسمی معیشت کا حصّہ ہیں، جہاں کوئی قانونی تحفّظ میسر نہیں۔
پاکستان کے مزدور صرف جائز اُجرت ہی نہیں، عزّت، تحفّظ اور شناخت سے بھی محروم ہیں۔ وہ معاشی نظام کا ستون ہیں، مگر اُنہیں فرش پر بِٹھایا جاتا ہے۔ ان کے بغیر صنعتیں، زراعت، تعمیرات، خدمات، سب کچھ مفلوج ہو جائے، مگر ان کا تذکرہ صرف یومِ مزدور پر ہوتا ہے۔ کوئی ٹی وی چینل اُن کے مسائل پر پرائم ٹائم شو نہیں کرتا، کوئی تھنک ٹینک اُن کے اعداد و شمار پر رپورٹس شائع نہیں کرتا۔
یہ وہ خاموش اکثریت ہے، جو مُلک اورمعاشرے کا اصل ستون ہے، مگر نظر انداز کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مزدور کو ایک فرد کی بجائے، کسی ہجوم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سیاست میں مزدور کا ذکر انتخابی منشور کی سطر سے آگے نہیں بڑھتا۔ مزدور صرف یکم مئی کو یاد آتا ہے یا تب جب سڑک پر احتجاج کرتا ہے۔ اسے پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہے، نہ عدالتی نظام تک رسائی اور نہ ہی میڈیا میں اُس کی آواز کے لیے کوئی جگہ۔
ایسے حالات میں اگر پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ہے، جس نے مزدور کو شناخت، آواز اور حق دیا، تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹّو وہ لیڈر تھے، جنہوں نے نہ صرف مزدور کی اہمیت تسلیم کی، بلکہ اسے ریاستی پالیسی کا حصّہ بنایا۔ اُنہوں نے سرکاری اداروں میں مزدوروں کا کوٹا مختص کیا، لیبر یونینز کو قانونی حیثیت دی، سوشل سیکیوریٹی اور اولڈ ایج بینیفٹس جیسے انقلابی اقدامات متعارف کروائے۔
مزدور کے حق کو صرف ایک منشور کی سطر نہیں سمجھا بلکہ ایک نظریاتی ذمّے داری کے طور پر نبھایا۔ محنت کش کو ریاست کا ستون قرار دیا۔اُن کے دَور میں نہ صرف مزدور کو ادارہ جاتی تحفّظ دیا گیا، بلکہ لیبر کورٹس کا قیام بھی عمل میں آیا، جن سے مزدور کو ایک قابلِ اعتبار قانونی پلیٹ فارم ملا۔ذوالفقار علی بھٹّو کے بعد پھر بے نظیر بھٹّو نے اِس مشن کو آگے بڑھایا۔ وہ شاید واحد وزیرِ اعظم تھیں، جنہوں نے ورکرز کی بہبود کو بیرونی دباؤ کے باوجود اوّلین ترجیح بنایا۔
1995 ء کی لیبر پالیسی میں خواتین کو بھی لیبر فورس کا باقاعدہ حصّہ مانا گیا۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ کو وسعت دی گئی اور انڈسٹریز کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے محنت کشوں کو طبّی، تعلیمی اور رہائشی سہولتیں مہیّا کریں اور آج بلاول بھٹّو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اِس تاریخی مشن کو نئے تقاضوں کے ساتھ اپنایا ہے۔
بلاول بھٹّو واضح کر چُکے ہیں کہ پاکستان کی ترقّی کا کوئی ماڈل اُس وقت تک کام یاب نہیں ہو سکتا، جب تک مزدور اور کسان کو اس ترقّی میں شامل نہ کیا جائے۔ وہ ایک ایسا نظام چاہتے ہیں، جہاں مزدور کے ہاتھ میں صرف ہتھوڑی نہ ہو، بلکہ فیصلہ سازی کی طاقت بھی ہو اور پیپلز پارٹی کا یہ بیانیہ محض الفاظ کا گل دستہ نہیں، بلکہ عملی اقدامات کی بنیاد ہے۔
سندھ حکومت، پیپلز پارٹی کے فلسفے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مزدوروں کے لیے کئی عملی اقدامات کر رہی ہے۔ سندھ پہلا صوبہ تھا، جس نے کم از کم اجرت37ہزار روپے مقرّر کی۔ جب کہ باقی صوبے ابھی اعلانات کے مراحل میں تھے۔ فیکٹری ورکرز کے لیے رجسٹریشن مہم، ورکرز ویلفیئر بورڈ کی فعالیت اور سوشل سیکیوریٹی اداروں کو ڈیجیٹلائز کرنے جیسے اقدامات کیے گئے۔سندھ حکومت نے’’لیبر کارڈ‘‘ متعارف کروایا، جو نہ صرف مزدور کی شناخت ہے، بلکہ اسے طبّی، تعلیمی اور مالی سہولتوں تک رسائی بھی فراہم کرتا ہے۔
اس کارڈ کے ذریعے لاکھوں مزدوروں کو علاج معالجے اور انشورنس جیسی سہولتیں دی جا رہی ہیں۔ خواتین مزدوروں کے لیے الگ شکایتی نظام، میٹرینٹی بینیفٹس اور صنعتی زونز میں محفوظ ماحول کی فراہمی بھی اِسی حکومت کا کارنامہ ہے۔اِسی طرح، سندھ پہلا صوبہ ہے، جس نے غیر رسمی معیشت میں کام کرنے والے مزدوروں کو رجسٹر کرنے کا آغاز کیا۔
گھریلو ملازمین، رکشہ ڈرائیورز، ریڑھی بان اور دیگر افراد جو کسی فیکٹری یا ادارے سے وابستہ نہیں، اُن کے لیے سوشل پروٹیکشن کا فریم ورک تیار کیا گیا ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں، جو صرف وہی حکومت کر سکتی ہے، جس کا منشور عوامی ہو اور جس کی قیادت میں مزدور دوستی محض نظریاتی وعدہ نہیں، عملی حقیقت ہو۔
’’یومِ مزدور‘‘ صرف تقاریر کرنے، بینرز لگانے یا واک کے اہتمام کا نام نہیں۔ یہ دن مطالبہ کرتا ہے کہ ہم سوچیں:کیا ہم اس نظام کا حصّہ ہیں، جو مزدور کو عزّت دے رہا ہے یا اسے مزید پِیس رہا ہے؟ کیا ہمارے ترقیاتی منصوبے مزدور کی زندگی بہتر بنا رہے ہیں یا اسے بے دخل کر رہے ہیں؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام مزدور کے بچّے کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہا ہے یا محض مراعات یافتہ طبقے کی خدمت کر رہا ہے؟ پاکستان کے ہر مزدور کو آج یہ سوال پوچھنے کا حق ہے کہ کیا اس کا خون، پسینہ اور وقت اس ملک کے فیصلوں میں شمار ہوتا ہے؟ کیا اس کا بچّہ بھی وہی خواب دیکھ سکتا ہے، جو ایک مراعات یافتہ گھرانے کا بچّہ دیکھتا ہے؟ کیا ریاست اسے صرف محنت کی مشین سمجھتی ہے یا کہ ایک مکمل شہری؟ہمارا موٹو ہے کہ مزدور کو صرف یکم مئی پر نہیں، ہر دن وہ مقام دینا ہوگا، جو اس کا حق ہے۔
ہمیں ایسے ادارے، قانون اور پالیسیز درکار ہیں، جو مزدور کے ہاتھ کو طاقت وَر اور اس کے بچّے کے خواب کو حقیقت بنائیں۔ یہی وہ نظریہ ہے، جس پر پاکستان کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ ایک ایسا پاکستان، جو مزدور کے بل بُوتے پر کھڑا ہو اور اس کی عزّت سے سرشار ہو۔ یاد رکھیے، جب تک مزدور کا پسینہ عزّت نہیں پاتا، مُلک میں کوئی تبدیلی پائے دار نہیں ہو سکتی۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)