• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیشہ کی طرح آج بھی بستر جلدی چھوڑنے کے باوجود مَیں’’آخری سیکنڈ‘‘ ہی میں بس پکڑ پائی تھی اور اِس کیفيت سے بھی کوئی کوئی ہی آگاہ ہوتا ہے کہ اپنی جامعہ کی بس آنکھوں کے سامنے سے نکل رہی ہو، گویا جسم سے رُوح جا رہی ہو اور ایسے میں ایک ’’آخری سیکنڈ‘‘ میں ہم اُسے پالیں۔ ٹیکسلا جیسے کھنڈرات میں پرائیویٹ سفر کرنے کے بھیانک احساس سے آزادی پانے والے کی لغت میں سمجھیں ’’خوش قسمتی‘‘ کی تعریف بس یہی ہے اور اِس خوش قسمتی پرمزید رشک تب آتا ہے کہ جب وقت پر نہ پہنچ کر بھی اپنی پسند کی جگہ خالی مل جائے۔

مَیں نے مزید چالیس سے پچاس منٹ نیند کی اُمید میں اپنا وجود منتظر سیٹ پر پھینکا۔ میری سیٹ بھی جیسے اپنے سُست مسافر کی عادی ہوچُکی ہے۔ میرے چہرے پر اِس خیال ہی سے مسکراہٹ دَر آئی تھی کہ انسان جتنا بھی جدید ہوجائے، اپنی مَن پسند ہر چیز کو منتظر ہی کے زمرے میں رکھتا ہے، اور یہ حساب کتاب شاید سانسوں کی مالا ٹوٹنے پر بھی مکمل نہیں ہوپاتا۔

البتہ اباجان کو منتظر رکھنا یقیناً ایک رسک تھا۔ سو، اُنھیں بس مل جانے کی خبر دینا مجھے اپنے حسابوں میں لازماً سب سے اوپر رکھنا پڑتا ہے۔ وگرنہ اگلے دو تین ہفتوں کے لیےگویا طعن و تشنیع، طنز کے نشتروں کے لیے ایک موضوع تیار ہوجانا ہے۔ بابا کو معمول کے مطابق میسیج ٹائپ کرکے بس مل جانے کا پیغام بھیجا۔ اور اب موبائل اپنی گود میں رکھ کے، مَیں اپنے خوابوں کےبےثبات جہاں میں بسنےکوتیار تھی۔

ابھی بس پوری طرح چلی نہیں تھی کہ ایک زوردار جھٹکے نے جہاں کچھ ’’طالبِ نیند مدہوش انجنیئرز‘‘ کو ہلا کررکھ دیا، وہاں کچھ ’’طالبِ توجہ شوخ انجینئرز‘‘ کی زبان کو بھی لگام دے دی۔ ڈرائیور صاحب حسبِ توقع منہ سے آگ برسانےلگے۔ غالباً اب کی باراُن کی بدمزاجی کی زد میں کوئی اسکول ڈرائیور آیا تھا، مگر سامنے سے بھی جوابات تسلسل ہی سے آرہے تھے۔ 

خیر، چند ایک منٹ میں ایک دوسرے کی نسلوں کی ’’پاکیزگی‘‘ بیان کر کے دونوں اپنی اپنی راہ ہولیے۔ مَیں نے کھڑکی سے باہر دیکھا، تو اگلا اسٹاپ آنے والا تھا۔ اندر موجود طلباء وطالبات پر نظر کی، تو آج کچھ طلبہ نے پینٹ کوٹ بھی پہن رکھا تھا، جو عموماً لڑکے پریزنٹیشن کے دن ہی پہن کرآنا پسند کرتے ہیں۔ حالاں کہ میرے خیال میں یہ لباس کسی طالبِ علم پر تو بالکل بھی نہیں جچتا۔ مگر اب طالبِ علم رہ بھی کہاں گئے ہیں۔ 

یونی ورسٹی میں زیادہ تر ’’طالبِ ڈگری‘‘ ہی نظرآتے ہیں۔ کچھ کھیل کود کے شوقین طلبہ جاگرزاورٹی شرٹس میں بھی ملبوس نظر آ رہے تھے، جب کہ کچھ سادہ مزاج، ’’بوڑھی روحیں‘‘ شلوار قمیص میں بھی جچ رہی تھیں۔ رہی طالبات، تو وہ تو ویسے ہی سراپا حُسن ہوتی ہیں۔ کہیں ظاہری حُسن چھلک رہا تھا، تو کہیں یہ حُسن حجاب و نقاب کی اوٹ میں تھا۔ 

البتہ کچھ بہت ہی حسین طالبات کے چہرے پر دھوپ پڑنے کی وجہ سے اُن کے ظاہری حُسن کا لیپ کچھ زیادہ ہی واضح دکھائی دے رہا تھا۔ ہائے! مجھے تو اکثر شدید گرمی میں اِن حسیناؤں کا ’’اِتنا قیمتی‘‘ حُسن بہہ جانے کا خوف ہی کھائے جاتا ہے۔

اسٹاپ پربس رُکی اور کچھ مزید طلباء و طالبات آ براجمان ہوئے۔ انکل نے آنے والی دو تین طالبات کو کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری مشورے دے کر کہ کسی کو اسٹاپ پر صحیح جگہ کھڑے ہونے کا کہا، تو کسی کو جلدی آنے کا، اپنے پوری طرح موجود ہونے کا احساس دلايا۔میری آنکھیں اب بالکل بند ہونے کو تھیں۔ 

نیند کی غلبے میں سر کو بھی ایک عدد سہارے کی ضرورت پڑ رہی تھی۔ اِسی سوتی جاگتی کیفیت میں یوں لگا، جیسے کہیں دو چڑیوں نے اچانک ہی طوفان مچا دیا ہو۔ ایک دانے پر دونوں یوں لڑ بِھڑ پڑی ہوں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی ہو۔ اس شور شرابے، ہنگامے پر میری آنکھیں بھی جیسے پھڑپھڑانے سی لگیں۔ 

مکمل ہوش میں آتے تیس سیکنڈ لگے ہوں گے کہ معلوم ہوا کہ آس پاس کوئی چڑیاں نہیں، بلکہ پچھلی نشست پر بیٹھی دو سینئر طالبات مرد ذات کی بےوفائی اور عورت کی وفاشعاری پر پورے زور و شور سے اظہارِ خیال فرما رہی ہیں۔ مجھے تو عموماًبھی یہ موضوع کچھ خاص دل چسپ نہیں لگتا اور اب جب کہ یہ میری پیاری نیند کا قاتل ٹھہرا تھا، تو سوچیں، کیا عالم ہو گا۔ بہرحال، نشست پر تھوڑا ٹھیک ہو کر بیٹھی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ اچانک ہی ہاسٹل میں رہنے کی خواہش ایک بار پھر دل میں، کسی پرانی کسک کی طرح نمودار ہوئی۔

مگر فوراً ہی سرجھٹک دیا کہ زندگی میں ہر خواہش پوری ہو نے کے لیے ہی نہیں ہوتی۔ ہاسٹل میں رہ کر نیند تو ضرور پوری ہوجاتی، لیکن والدین کی محبت کی آڑ میں کی گئی روک ٹوک، نصحیتیوں، بہن بھائیوں کی نوک جھونک، پیار بھری بدتمیزیوں اور بدتمیزیوں بھرے پیار سے بھی تو محروم ہونا پڑتا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی چڑیوں کی مسلسل چوں چوں اب بھی سماعتوں میں ’’رس‘‘ گھول رہی تھی۔ 

ذرا دیر بعد اندازہ ہوا کہ یہ کسی عام سی محبت کا تذکرہ نہیں، خالصتًا انجینئرز کی محبت کی بات ہورہی ہے اور اس کاپیمانہ گروپ اسائنمینٹ، پراجیکٹ گروپس وغیرہ مقرر کیا گیا ہے۔ واٹس ایپ اسٹیٹس، میسیجز کے تاخیر سے دیکھنے اور دیکھ لینے کے بعد بھی دیر سے جواب دینے کو وفاداری اور بے وفائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ سوچ کر ہنسی آگئی کہ ہم انجنیئرز کی بابت اِس ’’مخصوص محبت‘‘ کے قصّے اگر عاشقِ صادق، حقیقی اہلِ دل سُن لیں تو شاید دیوار ہی سےسر دے ماریں۔

نیند تو کب کی ہوا ہو چُکی تھی۔ یونی ورسٹی بھی کافی قریب تھی۔ رستے میں انکل نے وقتاً فوقتاً تین چار افراد سے مکالمہ، بحث مباحثہ (ویسے یہ میری شائستگی ہے کہ دنگا فساد کو مکالمے، بحث مباحثے کا نام دے رہی ہوں) کیا تھا، مگر اِس پربھی اُن کی بس نہیں ہوئی تھی، اب یونی ورسٹی، ٹرانس پورٹ آفس کے عملے کے ساتھ دوسرے ڈرائیورز پر ’’سلامتی‘‘ بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو چُکا تھا۔ پچھلی نشستوں کے مقابلے میں، اگلی نشستوں پر بیٹھی طالبات کا موضوعِ گفتگو قدرے بہتر تھا۔

وہ کیا ہے کہ ہمارے خیال میں تو محبّت قابلِ بحث موضوع ہی نہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ محبّت پر بحث نہیں ہوتی اور نہ ہی محبّت میں بحث ہوتی ہے۔ محبّت تو ہوتی ہے یا نہیں۔ مگر انجنیئرز کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ innovation کے شوقین ہوتے ہیں، تو انہوں نے محبّت کی بھی ایک نئی صُورت ایجاد کرلی ہے، جس میں سب کچھ ہوتا تو محبّت ہی کی طرح ہے، مگر محبّت نہیں ہوتی یا شاید کچھ بھی محبّت کی طرح نہیں ہوتا، پر محبّت ہوتی ہے۔ 

اگلی نشست والیوں کی ساری گفتگو ’’بنائو سنگھار‘‘ کے اردگرد گھوم رہی تھی۔ وہ کپڑوں، جوتوں کے برانڈز سے اب میک اپ اور بیگز کے برانڈز تک آچُکی تھیں، جب کہ میرے ساتھ بیٹھی پڑھاکو سی طالبہ نے موبائل پر slides کھول رکھی تھیں، غالباً کسی ٹیسٹ کی تیاری ہو رہی تھی۔

ہم یونی ورسٹی کی حدود میں داخل ہو رہے تھے، جب مَیں نے سب کو نظر انداز کر کے کھڑکی سے باہر منہ کیا۔ جیسے باہر سے گزرتا ہر شجر، ہر فرد، ہر دکان، سواری مجھ ہی سے سوال کررہی ہو کہ ’’تم اِن سب میں سے کس کےساتھ کمفرٹ ایبل ہو، حُسن و دل کشی، چاہت و محبّت، تعلیم و تربیت یا…؟؟‘‘ اور یک دَم ہی مجھے یاد آیا کہ آج لیب کا اسائنمینٹ جمع کروانا تھا، جو مجھے گھر سے لانا یاد ہی نہیں رہا۔ 

دل چاہا کہ اپنامنہ، سرپِیٹ لوں۔ ’’مَیں، کسی فہرست میں نہیں آتی بھائی، میری سُستی، کاہلی، لاپروائی، غیر ذمّےداری مجھے جامعہ کی بس پکڑنے اور اپنے اسائنمینٹس بروقت جمع کروانے ہی کے قابل چھوڑ دے، تو غنیمت ہے۔‘‘