• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصباح طیّب، سرگودھا

الفاظ بےحد طاقتوَر اور دیرپا تاثیر کے حامل ہوتے ہیں۔ اچّھے اور مثبت ہوں، تو زخموں کا مرہم بن جاتے ہیں اور اگر منفی یا کاٹ دار ہوں، تو کبھی کبھی کلیجہ بھی چیر کے رکھ دیتے ہیں۔ سو، اپنی زبان سے ہمیشہ میٹھے بول بولیں، نہیں تو خاموش رہیں اور کچھ بھی بولنے سے قبل ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘ جیسی مفید ضرب المثل ہمیشہ یاد رکھیں۔

زبان اور الفاظ کےمثبت استعمال کی اہمیت سے متعلق سیرتِ طیبہؐ سے ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے۔ جب آپؐ نے مکّے میں اسلام کی تبلیغ شروع کی، تو مقامی لوگوں نے آپؐ کو دعوتِ حق سے روکنے کے لیے پُرکشش ترغیبات دیں، لیکن آپؐ اپنے مقصد سے ایک اِنچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ 

اس موقعے پر عبداللہ بِن اُمیہّ نے، جو آپؐ کا پھوپھی زاد بھائی تھا، حضورِ اکرمؐ سے کہا کہ ’’اے محمدؐ! تیری قوم نے تجھے اتنی چیزیں پیش کیں، لیکن تونے ایک نہ مانی۔ اب تُو سیڑھی لے کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ایک پرچہ لکھوا کر لا۔ اگر اُس پر اللہ کی مُہر لگی ہوئی ہو اور تیرے ساتھ چار فرشتے بھی ہوں اور وہ آکر کہیں کہ تو اللہ کا نبی ہے، تو مَیں پھر بھی تیری بات نہ مانوں گا۔‘‘

پھر سن 8 ہجری میں یہی عبداللہ بِن اُمیّہ آپؐ سے ملاقات کرنا چاہتے تھے، لیکن آپؐ نے اُن کے مذکورہ بالا الفاظ کی وجہ سے ملنے سے انکار کردیا، حالاں کہ آپؐ نے طائف اور غزوۂ احد میں شدید صعوبتیں جھیلنے کے باوجود بھی کُفّار کو بددُعا تک نہیں دی تھی۔ لیکن یہاں زبان سے نکلے الفاظ کا معاملہ تھا۔ اس موقعے پر حضرت اُمِّ سلمہ نے سفارش کی، تو آپؐ نے عبداللہ بِن اُمیّہ کو شرفِ باریابی بخشا اور اُنہوں نے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت لی۔

یاد رہے کہ دُنیا کے سب سے خُوب صُورت الفاظ وہ ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کی طرف بُلایا گیا ہو۔ نیز، زبان سے نکلنے والے جملے اِس قدر مثبت و منفی تاثیر رکھتے ہیں کہ یہ انسان کو تخت پر بھی بٹھا سکتے ہیں، تختۂ دار کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں۔

اس ضمن میں سیرتِ نبویؐ سے ایک اور واقعہ پیش کیا جارہا ہے۔ ایک مرتبہ حضورِ اکرمؐ کی محبوب زوجہ اور اُمّ المٔومنین، حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے گفتگو کے دوران اپنی سوکن، حضرت صفیہؓ کی کوتاہ قامتی کا ذکر کیا، تو ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ ’’عائشہ! اگر تیرا یہ بول مَیں سات سمندروں میں ڈال دُوں، تو ساتوں سمندر زہر بن جائیں۔‘‘

یہ واقعہ پڑھنے کے بعد ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنی زبان کا کس قدر فضول اور بےمحابا استعمال کرتے ہیں، اور کسی کی بُرائی، غیبت، اُس سے متعلق کسی ناشائستہ تبصرے یا اُس کے لیے بُرے القابات استعمال کرتے ہوئے یہ سوچتے تک نہیں کہ اس طور مذکورہ شخص کی دل پر کیسے کیسے زخم لگ سکتے ہیں اوریہ کہ پھر اُن کے اندمال کی کوئی صُورت ممکن بھی ہے یا نہیں۔

جیسا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’غور سے سُنو بیٹا! مَیں کبھی بھی خاموش رہنے پر نہیں پچھتایا، جب بھی پچھتایا ہوں، تو اپنے بول پر پچھتایا ہوں۔‘‘ تو منفی، کڑوا، زہریلا بولنے سے کہیں بہتر ہے کہ ناگوار باتوں پر خاموشی اختیار کرلی جائے کہ زبان کی لگائی آگ آسانی سے نہیں بُجھتی۔ یوں ہی تو وہ ضرب المثل معروف نہیں کہ ’’زبانِ شیریں مُلک گِیری‘‘ یعنی شِیریں زبانی سے دُنیا مُسخّر و مُطیع ہوسکتی ہے۔