بلاشبہ تعلیم، انسانی ترقی کا بنیادی عُنصر اور سماجی مساوات کی ضامن ہے، مگر جدید دنیا میں اس تک رسائی معاشی، سماجی اور جغرافیائی عوامل سے مشروط ہوچکی ہے۔ اگرچہ21ویں صدی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے تعلیمی امکانات کو وسعت دی ہے، مگر کیا یہ واقعی ہر فرد کے لیے یک ساں سودمند بھی ہے؟ نیز، ڈیجیٹل تعلیم نے سماجی تفاوت کو کم کیا ہے، یا اس نے طبقاتی اور جغرافیائی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے؟
ان سوالات کے جوابات اور تعلیمی مساوات (Educational Equity) اور ڈیجیٹل تقسیم (Digital Divide) کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے مختلف سماجی و تعلیمی نظریات کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔ فرانسیسی ماہرِ سماجیات اور عوامی دانش وَر پیئر بوردیو (Pierre Bourdieu) کے تعلیمی سرمائے (Cultural Capital) کے نظریے کے مطابق’’تعلیم تک رسائی کا دارومدار فرد کے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی سرمائے پر ہوتا ہے۔‘‘ ڈیجیٹل تعلیم میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔
یعنی وہ طلبہ، جو جدید تیکنیکی وسائل، تیز رفتار انٹرنیٹ اور تربیت یافتہ اساتذہ تک رسائی رکھتے ہیں، وہ اس سے بہتر طور پر مستفید ہوتے ہیں، جب کہ غریب اور دیہی طلبہ ان مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، برازیل کے معروف ماہرِ تعلیم، پال فریرے (Paulo Freire) کا تنقیدی تعلیمی نظریہ (Critical Pedagogy) اس بات پر زور دیتا ہے کہ ’’تعلیم کو ایک ایسا ذریعہ ہونا چاہیے، جو سماجی ناہم واریاں ختم کرے۔‘‘
تاہم، ڈیجیٹل تعلیم میں اس اصول پر پوری طرح عمل نہیں ہورہا، کیوں کہ اس کے بنیادی وسائل ہی طبقاتی تفریق کا شکار ہیں۔ عالمی بینک کی 2023ءکی رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 2.9 بلین افراد اب بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں، جن میں بڑی تعداد اسکول جانے والے بچّوں کی ہے۔ جب کہ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق، افریقا کے 89 فی صد، جنوبی ایشیا کے 67 فی صد اور لاطینی امریکا کے 54فی صد دیہی طلبہ کے پاس آن لائن تعلیم تک رسائی نہیں۔
او ای سی ڈی (OECD) کے2022ءکے ڈیٹا کے مطابق، ترقی یافتہ ممالک میں 80فی صد طلبہ کے پاس آن لائن تعلیمی وسائل موجود ہیں، جب کہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح صرف 18فی صد ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ ڈیجیٹل تعلیم اب بھی ایک مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہے۔
دراصل، ڈیجیٹل تعلیم میں عدم مساوات کی بڑی وجوہ میں معاشی اور جغرافیائی تفاوت شامل ہیں۔ امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، امیر گھرانوں کے 70فی صد طلبہ ذاتی کمپیوٹرز اور اعلیٰ معیار کے آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز تک رسائی رکھتے ہیں، جب کہ کم آمدنی والے خاندانوں میں یہ شرح صرف 35 فی صدہے۔
ترقی پذیر ممالک میں یہ فرق زیادہ نمایاں ہے، جہاں لاکھوں طلبہ کے پاس ڈیجیٹل تعلیم کے لیے بنیادی وسائل تک موجود نہیں۔علاوہ ازیں، شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان بھی واضح فرق پایا جاتا ہے۔ چین میں شہری طلبہ میں سے 80فیصد کو ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی سہولت دست یاب ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف30فی صد ہے۔ اسی طرح جنوب ایشیائی ممالک، بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلادیش میں، دیہی اور شہری طلبہ کے تعلیمی معیار میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل خواندگی اور تیکنیکی مہارتیں: ڈیجیٹل تعلیم کا مؤثرنفاذ صرف انٹرنیٹ اور جدید آلات کی دست یابی پر منحصر نہیں، بلکہ اس کے لیے ڈیجیٹل خواندگی (Digital Literacy) بھی ضروری ہے۔ ڈیجیٹل خواندگی کا مفہوم صرف کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کے استعمال تک محدود نہیں، بلکہ اس میں آن لائن سیکھنے کی مہارتیں، تعلیمی مواد تک رسائی اور خودکار تدریسی نظام سے استفادہ کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔
یونیسکو کی 2022ء کی ایک کے مطابق، ترقی پذیر ممالک کے70 فی صد اساتذہ ڈیجیٹل تدریس میں مہارت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل تعلیمی مواد زیادہ تر انگریزی زبان میں دست یاب ہونے کی وجہ سے انگریزی نہ جاننے والے طلبہ کے لیے ایک اضافی چیلنج ہے۔
صنفی تفاوت اور ڈیجیٹل تعلیم: ڈیجیٹل تعلیم میں صنفی تفاوت بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یونیسیف کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں 1.2 بلین خواتین اور لڑکیوں کے پاس موبائل انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں، جس کی وجہ سے وہ آن لائن تعلیمی مواقع سے محروم رہتی ہیں۔
جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقا میں لڑکیوں کو ڈیجیٹل تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات ضروری ہیں، کیوں کہ ان خطّوں میں صنفی امتیاز پہلے ہی تعلیم تک رسائی میں ایک رکاوٹ ہے، بدقسمتی سے ڈیجیٹل تعلیم میں بھی یہی عدم مساوات برقرار نظر آتی ہے۔
ڈیجیٹل تعلیمی تفاوت کو کم کرنے کے لیے مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ دیہی اور کم آمدنی والے علاقوں میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کریں۔ خاص طور پر، کم لاگت انٹرنیٹ سروسز اور تعلیمی ٹیکنالوجیز متعارف کروائی جائیں، تاکہ کم آمدنی والے گھرانوں کے طلبہ بھی آن لائن تعلیم حاصل کرسکیں۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے خصوصی ڈیجیٹل ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے، تاکہ وہ جدید تدریسی ٹیکنالوجیز سے واقف ہوسکیں اور آن لائن تدریسی مواد کو زیادہ مؤثر انداز میں استعمال کرسکیں۔
نجی اور سرکاری اداروں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دیا جائے تاکہ ایسے منصوبے بنائے جاسکیں جو کم آمدنی والے طلبہ کے لیے کم لاگت یا مفت تعلیمی وسائل فراہم کریں۔ اوپن سورس تعلیمی پلیٹ فارمز متعارف کروائے جائیں تاکہ ہر طالب علم کو یک ساں تعلیمی مواقع میسّر آسکیں۔
اس کے علاوہ، ڈیجیٹل مواد کو زیادہ سے زیادہ مقامی زبانوں میں فراہم کرنے پر بھی کام کیا جائے، تاکہ جو انگریزی زبان نہیں جانتے، وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے ڈیجیٹل سبسڈی پروگرامز متعارف کروائے جائیں، جن کے ذریعے انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ اور دیگر تعلیمی وسائل کم قیمت پر فراہم کیے جا سکیں۔
اگرچہ ڈیجیٹل تعلیم نے علم کی ترسیل کے نئے دروازے ضرور کھولے ہیں، مگر یہ سب کے لیے یک ساں دست یاب نہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی تعلیمی مواقع میں اضافے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس کے مساوی فروغ کے بغیر یہ طبقاتی اور معاشی تفاوت کو بھی مزید گہرا کر سکتی ہے۔
لہٰذا، حکومتوں، تعلیمی اداروں، اور نجی کمپنیوں کو مل کر ایسا تعلیمی نظام وضع کرنا ہوگا جو ڈیجیٹل تعلیم کو تمام افراد کے لیے یک ساں طور پر قابلِ رسائی بنائے، تاکہ یہ حقیقی معنوں میں تعلیمی مساوات کا ضامن بن سکے۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، لہٰذا اس امر کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہےکہ ڈیجیٹل دَور میں کوئی طالبِ علم تعلیمی مواقع سے محروم نہ رہے۔