• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ایس ایل: دُنیا بھر میں پاکستان کے مثبت امیج، تہذیب و ثقافت کے فروغ کا ذریعہ

ان دنوں دُنیائے کرکٹ کی مقبول ترین لیگز میں شامل پاکستان سُپر لیگ کا دسواں ایڈیشن جاری ہے، جس میں 6 ٹیمزحصّہ لے رہی ہیں، جو پاکستان کے مختلف شہروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر 2016ء سے 2024ء تک اس ایونٹ کا تاج اپنے سَر پر سجانے والی فاتح ٹیمز کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ 2016ء میں منعقدہ پہلا ایڈیشن اسلام آباد یونائیٹڈ نے اپنے نام کیا، جب کہ 2017ء میں پشاور زلمی، 2018ء میں اسلام آباد یونائیٹڈ، 2019ء میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، 2020ء میں کراچی کنگز، 2021ء میں ملتان سلطانز، 2022ء اور 2023ء میں لاہور قلندرز اور 2024ء میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم اِس ایونٹ کی فاتح ٹھہری۔

پی ایس ایل کے ذریعےجہاں پاکستانی شائقینِ کرکٹ کو اچھی اور معیاری کرکٹ سے لُطف اندوز ہونے اور نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے کھیل کے جوہر دِکھانے کا موقع مل رہا ہے، وہیں یہ ایونٹ بین الاقوامی طور پر پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہورہا ہے۔ پی ایس ایل کے مسلسل انعقاد سے ’’کلچرل ڈپلومیسی‘‘ کو فروغ حاصل ہوا اور اب دُنیا پاکستان سے متعلق مثبت انداز میں سوچ رہی ہے۔

مذکورہ ایونٹ میں حصّہ لینے والے غیر مُلکی کھلاڑی فی الحقیقت برانڈ ایمبیسیڈر کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں نے پاکستانی شائقینِ کرکٹ کی گرم جوشی اور پاکستانی ثقافت کا ہمیشہ اچھے الفاظ میں ذکر کیا۔ دوسری جانب پی ایس ایل کے نتیجے میں بعض پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی عالمی پہچان ملی، جن میں شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان اور نسیم شاہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

دوسری جانب پاکستان سُپرلیگ پاکستانی ثقافت کی تشہیر اورفروغ کا بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے اور اس ضمن میں غیرمُلکی کھلاڑیوں، آفیشلز اور کمنٹیٹرز کاروایتی شلوارقمیص پہننا، بریانی سمیت دیگر پاکستانی کھانوں سے لُطف اندوز ہونا اور ہمارے تاریخی مقامات کی سیرکرنا، پاکستانی تہذیب وتمدّن کو اُجاگر کرنے میں خاصا معاون ثابت ہورہا ہے۔ مزید برآں، ایونٹ کے میچز کو ملٹی نیشنل کمپنیز کی جانب سے اسپانسر کرنے کے سبب بھی پاکستان میں کاروبار کو فروغ حاصل ہوا، جب کہ بھارت، برطانیہ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقا سے براڈ کاسٹنگ کے معاہدوں سے مُلک کےمعاشی تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بی بی سی، اسکائے اور ای ایس پی این جیسے میڈیا گروپس پی ایس ایل کے میچز کو بھرپور کوریج دیتے ہیں۔ پی ایس ایل میں مختلف شہروں کی نمائندگی کرنے والی ٹیمزکی شمولیت سے پاکستانی معاشرے میں صحت مند مقابلے کا رجحان پیدا ہوا، جو لسانی اور نسلی تفریق ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ کئی مُلکی اور غیر مُلکی ماہرین نے پی ایس ایل کو پاکستان کا بہترین سافٹ ویئر ٹول قراردیا ہے۔ پاکستان سُپر لیگ کی صُورت کھیل اور ثقافت کے امتزاج نے پاکستان سے متعلق ایک خطرناک مُلک کے بین الاقوامی تصوّر کو ایک محفوظ مُلک کے تاثر میں بدل دیا ہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہنوز مُلک میں سیکیوریٹی کے مسائل موجود ہیں، لیکن پی ایس ایل کی وجہ سے پاکستان پر غیرمُلکیوں کے اعتماد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ گرچہ ابتداً پی ایس ایل کو خاصی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن پھر بہت جلد اس نے عالمی سطح پر اپنی اتنی پہچان بنالی کہ اب غیرمُلکی کھلاڑی اِس میں شرکت کو اپنے لیے اعزاز سمجھنے لگے ہیں۔