پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین، ذکاء اشرف کے ذہن میں پاکستان سُپرلیگ کا میلہ سجانے خیال ایک ایسے وقت میں آیا تھا کہ جب دُنیائے کرکٹ کی کوئی بھی ٹیم پاکستان میں کھیلنے پر آمادہ نہیں تھی۔ گرچہ وہ اپنے اس تصوّر کو عملی جامہ نہ پہنا سکے، لیکن اُن کے جانشین، نجم سیٹھی نے اپنے پیش روکے آئیڈیے کو عملی شکل دی۔ 2015ء میں پاکستان سُپرلیگ کےتمام تر انتظامات مکمل ہونے کے بعد 2016ء میں متّحدہ عرب امارات میں اِس ایونٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور پھر ہرسال باقاعدگی سے پی ایس ایل کا انعقاد ہونے لگا اور اِن دنوں اِس کا دسواں ایڈیشن جاری ہے۔
پاکستان سُپرلیگ کا بنیادی مقصد پاکستان کی کرکٹ میں بہتری لانا اور شائقینِ کرکٹ کو اچھی کرکٹ دیکھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ ابتدا میں پی ایس ایل کی تشہیر کے لیے سابق کرکٹرز، وسیم اکرم اور رمیز راجا نے پی سی بی سے تین سال کا معاہدہ کیا اور پھر مزید کھلاڑی بھی اس معاہدے کا حصّہ بنے۔ پی ایس ایل کا پہلا ایڈیشن 4فروری 2016ء کو دُبئی میں شروع ہوا۔
اس ایونٹ میں مُلک بَھر سے پانچ ٹیمز نےحصّہ لیا، جب کہ بین الاقوامی کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ پہلے ایونٹ کا فائنل 24فروری 2016ء کو کھیلا گیا، جس میں اسلام آبادیونائیٹڈ نےکوئٹہ گلیڈی ایٹرزکو شکست دی۔ پہلے سیزن کا آفیشل لوگو اور نغمہ، ’’اب کھیل کے دِکھا‘‘ بھی تیار کیا گیا، جسے مُلک کے معروف گلوکار، علی ظفر نے گایا۔
2016ء میں متّحدہ عرب امارات کے میدانوں سے شروع ہونے والی پاکستان سُپرلیگ کا دسواں سیزن اِن دنوں زور وشور سے جاری ہے۔ واضح رہے کہ 3مارچ 2009ء کو لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد غیرمُلکی ٹیمز نے پاکستان آنے سے انکارکر دیا تھا۔
ایسے میں پی ایس ایل نہ صرف پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سبب بنی بلکہ آج یہ انڈین پریمیئر لیگ کے بعد دُنیا کی مقبول ترین کرکٹ لیگ بھی بن چُکی ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران بہت سے ایسے مواقع آئے کہ جب پی ایس ایل مقرّرہ وقت پر شروع نہ ہوسکی۔
پی ایس ایل کا ابتدائی خاکہ 2015ء میں تیار کیا گیا اور اِسے آئی پی ایل کی طرز پر ترتیب دیا گیا۔ تاہم، پی سی بی نے کھلاڑیوں کی نیلامی کی بجائے ڈرافٹنگ کا سسٹم اپنایا، جس کی وجہ سرمائے کی کمی اور محدود ذرائع ہیں۔
ابتدا میں ایونٹ میں پانچ ٹیمز شامل تھیں، جنہیں دس سال کے عرصے کے لیے فروخت کیا گیا۔2018ء میں جب پی ایس ایل کے آخری تین میچز پاکستان میں کروانے کی منصوبہ بندی کی گئی، تو ایک اور ٹیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ گرچہ اس موقعے پر کشمیر، گلگت اور سندھ کے نام سے ٹیمز زیرِ غور رہیں، لیکن پھر’’ملتان سلطانز‘‘ کے نام سےچھٹی ٹیم شامل کی گئی اوراسے ریکارڈ قیمت 50لاکھ ڈالرز میں فروخت کیا گیا، جو اس وقت ایک کام یاب فرینچائز بن چُکی ہے۔
پی ایس ایل کی کام یابی اور مقبولیت دیکھتے ہوئے غیرمُلکی کھلاڑی پاکستان آنے پر آمادہ ہوئے، تو 2020ء میں اس ایونٹ کو مکمل طور پر پاکستان منتقل کردیا گیا اور اِس وقت پاکستان میں، پی ایس ایل کا چھٹا سیزن کام یابی سے جاری ہے۔ ایونٹ کے انتظامات سے قطعِ نظر، پی ایس ایل کی مُلک میں منتقلی سے شائقین کو اچھی اور دِل چسپ کرکٹ دیکھنے کو مل رہی ہے اور یہ ایونٹ پاکستان کے وقار اور ساکھ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
گرچہ اپنے آغاز سے اب تک پی ایس ایل بڑی حد تک تنازعات سے پاک رہا ہے، لیکن چند ایک ایسے واقعات رُونما ہوئے کہ جس سے اس ایونٹ کی ساکھ متاثر ہوئی۔ مثال کے طور پر 2017ء میں شرجیل خان اور خالد لطیف کو آئی سی سی اینٹی کرپشن کمیٹی نے اسپاٹ فکسنگ میں ملوّث قرار دیا اور دونوں پر پانچ سال تک کے لیے پابندی عائد کر دی گئی۔2021ء پی ایس ایل کے لیے بدترین سال ثابت ہوا کہ جب کورونا کی وبا نے اس ایونٹ کو اپنی گرفت میں لے لیا اور تمام کھلاڑی آئسولیشن میں چلے گئے۔
اس دوران پشاور زلمی کے وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی نے آئسولیشن کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بائیوسکیورببل سے باہر نکل کر ٹیم کے مالک سے ملاقات کی، جس کے پوری ٹیم پر نہایت منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ دریں اثنا، کئی کھلاڑی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے اور پھر لاہور قلندرز، کراچی کنگز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑیوں کے کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد لیگ کا چھٹا ایڈیشن ملتوی کردیا گیا۔ بعدازاں، اس سیزن کے بقیہ میچز ستمبر 2021ء میں دُبئی میں کھیلے گئے۔
پاکستان سُپرلیگ کو پی سی بی کے لیے ایک منافع بخش ایونٹ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایونٹ نے اپنے پہلےہی سیزن میں 23لاکھ ڈالرز کمائے، جس میں سے 70 فی صد رقم پی سی بی اور 30 فی صد فرینچائز مالکان کےحصّے میں آئی۔ پی ایس ایل کو ریکارڈ منافع 2021ء میں ہوا کہ جب چیئرمین پی سی بی، رمیز راجا کے دَور میں لیگ نے 30 لاکھ ڈالرز کا خالص منافع کمایا، جو اگلے سال بڑھ کر 35 لاکھ ڈالرز تک پہنچ گیا۔
واضح رہے کہ پی ایس ایل کو اصل آمدنی اسپانسرشپ سے ہوتی ہے اور ایک نجی بینک، جو ایونٹ کا سب سے بڑا اسپانسر ہے، 60 فی صد ریونیو فراہم کرتا ہے، جب کہ 40فی صد آمدنی نشریاتی حقوق کی فروخت اور گیٹ مَنی سے ہوتی ہے۔ مالکان کی شکایت پر 2021ء میں پی سی بی نے فرینچائزز کے حصّے میں بھی اضافہ کیا۔ گرچہ پی ایس ایل اپنی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے ’’دی ہنڈریڈ‘‘ اور ’’بِگ بیش لیگ‘‘ جیسی کرکٹ لیگز کے ہم پلہ دکھائی دیتی ہے، لیکن ناظرین کی تعداد کی مناسبت سے یہ دُنیا کی دوسری بڑی لیگ ہے۔
پاکستان سُپرلیگ کی سب سے خاص بات اِس میں متعدد نئے بین الاقوامی کرکٹرز کی شمولیت ہے۔ پی ایس ایل پاکستان کا سب سے بڑا کرکٹ ٹورنامنٹ ہے، جس میں اب تک کئی دِل چسپ اور یادگار ریکارڈز قائم ہوچُکے ہیں اور ان ریکارڈز نے نہ صرف کھلاڑیوں کی صلاحیتیں اُجاگر کیں، بلکہ شائقینِ کرکٹ کو بھی دِل چسپی کا سامان فراہم کیا، تو آئیے، پی ایس ایل کے ٹاپ 10 ریکارڈز پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پی ایس ایل میں اب تک کا سب سے بڑا مجموعی اسکور ملتان سلطانز کا ہے۔ اُس نے آٹھویں ایڈیشن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف تین وکٹوں کے نقصان پر 262رنز بنائے تھے، جب کہ سب سے کم مجموعی اسکورکا’’ناقابلِ رشک اعزاز‘‘ لاہورقلندرز کے پاس ہے کہ جب وہ 2017ء کے ایڈیشن میں پشاور زلمی کے خلاف صرف 59 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ پاکستان سُپر لیگ میں اب تک کا سب سے زیادہ انفرادی اسکور انگلینڈ کے بیٹر، جیسن روئے نے کیا۔
انہوں نے 2018ء میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے کھیلتے ہوئے پشاور زلمی کے خلاف 145رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی، جب کہ ایک میچ میں سب سے عُمدہ باؤلنگ کا اعزاز بھی انگلینڈ ہی کے باؤلر، روی بوپارا کے پاس ہے، جنہوں نے 2016ء میں کراچی کنگز کی جانب سے کھیلتے ہوئے لاہور قلندرز کے خلاف16رنز کے عوض 6وکٹیں حاصل کیں۔ پی ایس ایل میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا اعزاز پاکستانی باؤلر، حسن علی کے پاس ہے، جو اب تک 116کھلاڑی آؤٹ کرچُکے ہیں۔ پی ایس ایل میں اب تک سب سے تیز رفتار سنچری عثمان خان نے بنائی۔
انہوں نے ملتان سلطانز کی طرف سے کھیلتے ہوئے صرف36گیندوں پر یہ سنگِ میل عبور کیا۔ ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بابراعظم کے پاس ہے۔ وہ اب تک 91اننگز میں 45رنز کی اوسط سے مجموعی طور پر 3504 رنز اسکور کر چُکے ہیں، جب کہ پی ایس ایل کی تاریخ کی سب سے بڑی فتح پشاور زلمی نے حاصل کی۔ پی ایس ایل کے رواں سیزن میں پشاور زلمی نے ملتان سلطانز کو 120 رنز سے شکست دی، جب کہ لاہور قلندرز نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو 2023ء میں 119رنز سے شکست دی تھی۔
پاکستان سُپرلیگ کی اہمیت و مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس ایونٹ سے شُہرت حاصل کرنے والے بعض غیرمُلکی کھلاڑی اپنے قومی ٹیم میں بھی شامل ہوئے، جن میں آسٹریلیا کے ٹِم ڈیوڈ قابلِ ذکر ہیں، جب کہ رواں سیزن میں ڈیوڈ وارنر اور کین ولیمسن سمیت کئی عالمی شُہرت یافتہ کھلاڑی لیگ کا حصّہ ہیں۔ ڈیوڈ وارنر، کراچی کنگز کی قیادت کررہے ہیں۔
اس ٹیم کے دیگر اہم غیر مُلکی کھلاڑیوں میں جیمز ونس، ٹِم سائفرٹ اور محمد نبی، جب کہ مقامی کھلاڑیوں میں شان مسعود، عامرجمال اور عرفان نیازی قابلِ ذکر ہیں۔ کراچی کنگز نے اب تک ایک مرتبہ 2019ء میں پی ایس ایل کا ٹائٹل جیتا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ لیگ کی واحد ٹیم ہے کہ جس نے تین مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کیا اور رواں سال بھی اسے فیوریٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ کپتان شاداب خان کے علاوہ عماد وسیم، سلمان علی آغا، کولن منرو اور میتھیو شارٹ اس کے اہم کھلاڑی ہیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی جارحانہ بلے بازی کو اس کی سب سے بڑی طاقت قرار دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ ابتدا ہی میں میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرلیتی ہے۔ تاہم، اس بار لاہور قلندرز، اسلام آباد کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ یاد رہے کہ لاہور قلندرز دو مرتبہ پی ایس ایل کا ایونٹ اپنے نام کرچُکی ہے اور ایک متوازن ٹیم نظر آتی ہے۔ گزشتہ برس ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود شاہین شاہ آفریدی اس کی قیادت کر رہے ہیں اور لاہور قلندرز کے چاہنے والوں کو ان سے بڑی توقّعات وابستہ ہیں۔ فخرزمان، ڈیرل مِچل، ٹام کرن، زمان خان اور سیم بلنگز کی موجودگی میں یہ ٹیم تیسری مرتبہ اس ایونٹ کا فائنل جیت سکتی ہے۔
پی ایس ایل میں شامل ملتان سلطانز کی ٹیم بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ محمد رضوان اس ٹیم کے اہم ترین کھلاڑی ہیں، جب کہ دیگر نمایاں کھلاڑیوں میں افتخار احمد، شائی ہوپ، مائیکل بریسویل، ڈیوڈ ولی، عثمان خان، عاکف جاوید اور کرس جورڈن شامل ہیں۔ اگر اس مرتبہ بھی ملتان سلطانز کے تمام کھلاڑیوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، تو یہ دوسری مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کرسکتی ہے۔ پشاور زلمی کی قیادت پاکستان کے مایہ ناز بلے باز، بابراعظم کے پاس ہے۔ اس کے اہم بیٹرز میں محمد حارث، کیڈمور اور حسین طلعت، جب کہ باؤلرز میں تین عمدہ اسپنرز، عارف یعقوب، سفیان مقیم اور مہران ممتاز نمایاں ہیں۔
گرچہ پشاور زلمی کا فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ نسبتاً کم زور ہے، لیکن اس کی بیٹنگ خاصی مضبوط ہے۔ رواں سیزن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اپنے نئے اور نوجوان کپتان، سعود شکیل کی زیرِقیادت میدان میں ہے۔ اس سال کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے مائیک چیمپیئن کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے، جب کہ سدا بہار، ریلی روسو بھی ٹیم بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، کوشال مینڈس، شعیب ملک اور فن ایلن نمایاں بلے بازوں میں شامل ہیں، جب کہ محمد عامر، خُرّم شہزاد اور کائل جیمیسن کی فاسٹ باؤلنگ کے ساتھ ابرار احمد کی اسپن باؤلنگ کسی بھی وقت میچ کا نقشہ پلٹ سکتی ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، سرفراز احمد ٹیم کے مینٹور ہیں۔ کوئٹہ نےاگر سوفی صد کارکردگی دکھائی، تو یہ رواں ایڈیشن اپنے نام کرسکتی ہے۔
گرچہ پی ایس ایل کی بدولت شائقینِ کرکٹ کو ہمیشہ شان دار کرکٹ دیکھنے کی ملی، لیکن یہ کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم بَھرنے میں ناکام رہی۔ شاید اہلِ کراچی اب اسٹیڈیم آ کر میچ نہیں دیکھنا چاہتے اور اِسی لیے شہرِ قائد میں ایونٹ کے صرف پانچ میچز رکھے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال کراچی میں فائنل کے باوجود اسٹیڈیم خالی نظر آیا، جس کی وجہ سے پی سی بی نےاس سیزن میں کراچی کو ترجیح نہیں دی۔ پی ایس ایل 10 کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس ایڈیشن میں پہلی مرتبہ انگریزی کے ساتھ اردوکمنٹری بھی متعارف کروائی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان سُپر لیگ کے دس برس مکمل ہونے کے باوجود فرینچائز یا ٹیم مالکان کی بنیادی شکایات برقرار ہیں۔ پی ایس ایل کے موجودہ ماڈل میں لیگ کی ملکیت اور حقوق پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس ہیں اور اس ماڈل کو بہتر بنائے بغیر لیگ کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ فی الحال پی ایس ایل کی آمدنی کم ہے اور آمدنی بڑھانے ہی سے فرینچائز مالکان اور کرکٹ بورڈ کو فائدہ ہوگا۔
واضح رہے کہ پی سی بی کے ایک سابق چیئرمین نے فرینچائز مالکان کے مطالبے پر مالی معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک ریٹائرڈ جج کا تقرّر کیا تھا، جنہوں نے مختلف اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کیں، لیکن فیصلہ سُنانے سے پہلے چیئرمین تبدیل ہوگئے اور نئے چیئرمین نے ریٹائرڈ جج کے فیصلے کو فرینچائز مالکان کے ساتھ شیئر کرنے سے انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ انڈین پریمیئر لیگ کے نشریاتی حقوق ریکارڈ قیمت پر فروخت ہوتے ہیں اور اس کے ایک میچ کی آمدنی پوری پی ایس ایل کی آمدنی کے برابر ہے۔ تاہم، پی ایس ایل کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو، سلمان نصیر نے لیگ کی کام یابی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔
مثال کے طور پر پلیئرز کی ڈرافٹنگ سے پاکستان کا امیج بہتر ہوا اور ٹرافی ٹور سے لیگ میں شائقین کی دل چسپی میں اضافہ ہوا۔ مقامی کرکٹ پنڈتوں کا ماننا ہے کہ لیگ کو اگر وسیع کیا جائے، تو نئی فرینچائز ایک ٹیم کے لیے 4 ارب روپے دینے پر بھی آمادہ ہوگی۔