• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلگام کے واقعے پر دس روز گزر گئے۔ حسب توقع پاکستان اور بھارت میں کسی بڑی محاذ آرائی کا خطرہ کم ہو رہا ہے۔ اسی تناسب سے اخبار اور ٹیلی ویژن اسکرین پر ممکنہ جنگ کے پیش نظر شعلہ بیانی کی ذخیرہ اندوزی میں بھی مندی کے آثار ہیں۔ جنگ کے آڑھتی تصوراتی جنگ میں دھواں دھار گولہ باری، بستیوں کی بربادی اور شکست و فتح کی منظر کشی میں جذبات کی سرمایہ کاری کر چکے تھے۔ سرحد پار کے پترکاروں کی تند بیانی تو خیر اب ایک روایت بن چکی۔ ان کے ہاں ماضی میں کسی متوازن رائے کی روایت اب ہندوتوا کے ریلے کی نذر ہو چکی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے کیلئے تو قوم پرستی کا جنون ہی کافی ہوتا ہے۔ اگر اس نسخے میں دھارمک تعصب بھی شامل ہو جائے تو گویا مہابھارت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندو آبادی 80 فیصد ہے۔ 1.42ارب کی کل آبادی میں 28 کروڑ اقلیتوں کا مذہبی تشخص نظر انداز کر کے جمہوری معاشرہ کیسے تعمیر ہو سکتا ہے؟ پاکستان میں ہندو شہریوں کی تعداد50 لاکھ سے متجاوز ہے۔ اب ایک پرجوش نوجوان جو1977 ءمیں پرائمری اسکول کا طالب علم تھا، مجھے ہندو مت اور اسلام میں فرق سمجھانا چاہتا ہے۔ میں اسے کیسے بتاؤں کہ قومی ریاست میں شہریت مذہبی شناخت سے ماورا ہوتی ہے۔ ہمارے دستور میںلکھا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری میرا مساوی ہم وطن ہے۔ حالیہ کشیدگی میں ہماری صحافت نے قدرے احتیاط برتی ہے تاہم یہ حقیقت بہرصورت نظر انداز ہوئی ہے کہ نیوکلیائی صلاحیت کی موجودگی میں جنگ انفرادی بہادری یا حیران کن چالوں سے مرتب نہیں ہوتی۔ جنگ ایک انسانی المیہ ہے جسے صرف اپنے ملک کے دفاع کی ناگزیر ضرورت میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔

صحافیوں پر تنقید کرنا مجھے مرغوب نہیں۔ وجہ یہ کہ پورے ملک میں کوئی درجن بھر صحافی مجھے پسند ہیں۔ باقی کا غول بیابانی میرے لیے اجنبی ہے۔ میں کان پر قلم رکھ کے گلی کوچوں میں ’ارزاں کلامی‘ کی جنس بیچنے والوں کو صحافت کی بنیادی اخلاقیات سے بیگانہ پاتا ہوں۔ کوئی چھ دہائیاں گزریں، ایک صحافی کو اعزازی کرنل قرار دے کر فوج کا ترجمان بنا دیا گیا۔ ’کرنل ‘موصوف نے صحافیوں سے پہلی ملاقات ہی میں اس مضحکہ خیز جملے سے اپنی بھد اڑوائی کہ ’آپ سویلین لوگ ہم فوجیوں کی حساسیت نہیں سمجھتے‘۔ درویش جن دنوں صحافت پڑھاتا تھا تو طلبا کو صدیق سالک کی کتاب ’Witness to Surrender‘ اور بریگیڈیئر اے آر صدیقی کی کتاب ’Endgame: An Onlooker's Journal‘ تجویز کیا کرتا تھا تاکہ وہ جنگی حقائق اور پراپیگنڈے میں تناسب کی اہمیت سمجھ سکیں۔ آئیے آپ کو گزشتہ صدی کے چار بہترین جنگی وقائع نگاروں سے متعارف کراتے ہیں۔

یکم جنوری 1867ء کو لندن میں پیدا ہونیوالا Charles Montagueجنگ مخالف خیالات رکھتا تھا۔ 1914ء میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو Montague فوجی بھرتی کی عمر سے متجاوز تھا۔ تاہم اس نے سوچا کہ جنگ سر پر آن پڑی ہے تو اس میں حصہ لیکر اسے مختصر کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے سفید بالوں کو خضاب لگا کر بھرتی ہوا، بہادری سے لڑا اور جنگ کے بعد پھر سے امن پسند ہو گیا۔ اس کی کتاب Disenchantment کا یہ جملہ جنگجو صحافیوں کی ذہنیت پر دال ہے۔ "War hath no fury like a non-combatant."۔ اخبار کے دفتر میں بیٹھ کر پرجوش مضامین لکھنے والوں کو کیا معلوم کہ سنسناتی ہوئی گولی ایک نوجوان اور اس کے گھرانے پر کیا قیامت ڈھاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں روس کے صحافی Vasily Grossman نے براہ راست ماسکو ، اسٹالن گراڈ ،کرسک اور برلن کی لڑائیوں میں فوجیوں کے شانہ بشانہ صحافت کی تھی۔ جنگ کے بعد اس نے اپنے مشاہدات کو ناولوں کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کی لیکن اسے سرکاری اعزاز دینے والی سوویت حکومت نے 1964 ء میں اس کی موت تک اس کی کوئی تصنیف شائع نہیں ہونے دی۔ Grossman Vasily کی کتابیں 1988 ء میں روسی زبان میں شائع ہوسکیں۔ وجہ یہ تھی کہ روسی بہادری کی داستانیں لکھنے والے گراس مین نے جنگ کی ہیبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اس پر زمانہ امن اور جنگ کی تباہ کاری کا فرق کھل گیا۔ امریکا کے جنگی وقائع نگار Ernie Pyleنے جنگی فتوحات کی بجائے عام سپاہیوں کے احساسات اور تکلیفوں کو آسان زبان میں بیان کیا۔ Ernie Pyleکی تحریروں کو1944 ء میں پلٹزرپرائز سے نوازا گیا۔ ہیری ٹرومین اس کی تحریروں کا مداح تھا۔ وہ واحد سویلین صحافی تھا جسے 6 جون 1944 ء کو نارمنڈی حملے میں براہ راست شرکت کی اجازت ملی تھی۔ Ernie Pyleنے ایک فوجی کپتان کی موت پر لکھا تھا ۔ ’You feel small in the presence of dead men and ashamed at being alive.‘۔ اپریل1945ء میں برلن کی فتح سامنے نظر آرہی تھی لیکن Ernie Pyleجاپان کے خلاف جنگ کی خبریں بھیجنے کے لئے نکل گیا جہاں 18 اپریل 1945 ء کو 44 برس کی عمر میں اوکی ناوا کے مقام پر گولی کا نشانہ بن گیا جہاں وہ چند لمحے پہلے تک عام سپاہیوں کے ساتھ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ بہادر لیکن امن پسند صحافیوں کی فہرست میں ایک نام Robert Capaکا بھی ہے۔ ہنگری میں پیدا ہونے والے رابرٹ کاپانے ہٹلر کو اقتدار میں آتے دیکھا۔ اپنے ملک پر قبضہ ہونے کے بعد وہ پیرس چلا آیا۔ رابرٹ کاپا نے چالیس برس کی عمر میں پانچ مختلف جنگوں میں صحافتی فرائض انجام دیے۔ وہ ہسپانوی خانہ جنگی ، چین اور جاپان کی لڑائی ،یورپ میں جنگ، 1948 ء کی عرب اسرائیل لڑائی اور ویت نام کی لڑائی میں صحافت کرتا رہا۔ رابرٹ کاپا تحریروں کے علاوہ جنگی فوٹوگرافی بھی کرتا تھا۔ اس کی کھینچی ہوئی درجنوں تصاویر کو اساطیری شہرت حاصل ہوئی۔ رابرٹ کاپا 1954 ء میں ویت نام کی لڑائی میں ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے ہلاک ہوا۔ صحافی کا فرض جنگ کے شعلوں کو ہوا دینا نہیں بلکہ اپنی تحریروں او ر دیگر صحافتی سرگرمیوں کے ذریعے جنگ کے المیے کو عام انسانوں تک پہنچانا ہے۔ چارلس مورٹیگ نے ٹھیک کہا تھا کہ امن کو سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں سے ہوتا ہے جنہوں نے کبھی جنگ نہیں دیکھی۔

تازہ ترین