کسی بھی ملک کا تجارتی خسارہ اس کی درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی سے جنم لیتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان شروع دن سے تجارتی اتار چڑھائو اور گزشتہ کم وبیش تین دہائیوں سے بدنظمی کے باعث مستقل طور پر اس کیفیت کا شکار ہے،2019میںپیدا ہونے والے ڈالر کے بحران سے پاکستان کے تجارتی شعبے کو شدید دھچکا لگا۔عالمی بنک کا کہنا ہے کہ اس کیفیت میںپاکستانی خزانہ ہر سال پانچ سو ارب ڈالر سے محروم ہورہا ہے۔وفاقی ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2024 تا اپریل 2025 کے عرصے میں ملک کا تجارتی خسارہ 8.81فیصد بڑھ کر 21ارب 35کروڑ ڈالر سے متجاوز ہوگیا ہےجبکہ2005میںیہ حجم 4.15ارب ڈالر اور 2010 میں 11.53 ارب ڈالر تھا۔صرف اپریل2025کی بات کی جائے تو اس مہینے میں سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارے میں 35.79 فیصد اضافہ ہوا۔دوسری طرف متذکرہ مہینے میںبرآمدات 2ارب14 کروڑ 10 لاکھ جبکہ درآمدات 5 ارب 52 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی رہیں۔یہ صورتحال انتہائی باعث تشویش اور متعلقہ وزارتوں کیلئے لمحہ فکریہ اور وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں معیشت سنوارنے کی تمام حکومتی کوششوں کے تناظر میں ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ہمارا صنعتی شعبہ زیادہ تر زرعی پیداوار کا مرہون منت ہے ،جو مسلسل فی ایکڑ پیداوار میں کمی سے دوچار ہے۔حالانکہ عہدحاضر میں بہت سے ممالک نے زرعی انقلاب کی بدولت فی ایکڑ پیداوار میں حیرت انگیز طور پر اضافہ کیا۔وطن عزیز میں یہ کام محض غوروفکر تک چل رہا ہے۔اب آگے بڑھنے کیلئے عملی اقدامات میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ۔ملکی صنعتیں چلانے کیلئے خام مال کا دارومدار درآمدات پر بڑھا ہے،تاہم سردست اشیائے تعیش کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے درآمدی مالیاتی بجٹ کو کم سے کم کیا جانا چاہئے۔