دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے۔ اس خطے میں یہ موسم باقاعدہ وقفوں سے اترتا ہے۔ سرحد کے دونوں طرف ’باخبر‘ صحافیوں، ’قادر الکلام‘ شاعروں، گمنام سیاستدانوں، ریٹائرڈ کھلاڑیوں اور ’کہنہ مشق‘ فنکاروں کو حب الوطنی کے بلند بانگ بیانات داغنے کا اچھا موقع ہاتھ آتا ہے۔ جنہیں اپنے ملک کی عسکری تاریخ کی الف بے معلوم نہیں، وہ عالمی تاریخ کے حوالے نکال کر دشمن کو للکارتے ہیں۔ 22اپریل کو پہلگام میں 26افراد کی ہلاکت پر ریاستی اخفا کے پردے ہیں۔ دنیا بھارت سے اس واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونےکے ثبوت مانگ رہی ہے۔ یہاں پانی مرتا ہے۔ بھارت اس کے جواب میں ماضی کے واقعات دہراتا ہے۔ افواہوں کا بازار گرم ہے۔ اس دفعہ بھارت کچھ زیادہ ہی آمادہ پیکار نظر آتا ہے۔ قابل تصدیق حقائق کی عدم موجودگی اور جنگجوئی کے اس خروش میں غیرمتناسب تعلق پر دنیا حیران ہے اور فریقین سے ضبط و تحمل کا تقاضا کر رہی ہے۔ جنگی ہیجان میں سچ جاننے کا کسے یارا ہوتا ہے۔ شاید اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اپنے گھروں کی عافیت میں میدان جنگ کی افراتفری کا قیاس کرنے سے بڑی خود فریبی ممکن نہیں۔ حب الوطنی کی سند درکار نہیں تاہم معلوم یہی ہوتا ہے کہ پاکستان نے اس مرتبہ ریاستی سطح پر فراست کا بہتر مظاہرہ کیا ہے۔ اسی سے اشارہ پا کر تاریخ کی کچھ بازآفرینی ہو جائے ۔
28 جون 1914 ء کو بوسنیا کے ایک نوجوان قوم پرست نے آسٹرو ہنگیرین سلطنت کے ولی عہد فرانز فرڈی نینڈ کو قتل کیا تو کسے معلوم تھا کہ ٹھیک ایک ماہ میں یہ واقعہ روس، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور ترکی میں انسانی تاریخ کی پہلی عالمی جنگ میں بدل جائے گا۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کا یورپ قوم پرستی کے بخار میں پھنک رہا تھا۔ نومبر 1918ء کو ٹھیک چار برس بعد جنگ ختم ہوئی تو آسٹرو ہنگیرین ، روس ، ترکی اور جرمنی کی چار ریاستیں ختم ہو چکی تھیں۔ 1914ء میں بہرصورت کسی کو دو کروڑ اموات کا اندازہ نہیں تھا۔ ایسے میں کہیں کہیں سے جنگ مخالف آوازیں بھی اٹھ رہی تھیں لیکن جنگ کے ہنگام میں یہ آوازیں بزدلی پر محمول کی جاتی ہیں۔ برطانیہ میں ایک آواز تو برٹرینڈ رسل کی تھی۔ تب رسل ایک فلسفی سے زیادہ ریاضی دان کے طور پر جانا جاتا تھا۔ 1890ء میں پیدا ہونے والے برطانوی شاعر Barry Wilfred Chappelowنے بھی ضمیر کی روشنی میں بھرتی ہونے سے انکار کیا تھا جس پر اسے گرفتار کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رسل، برناڈ شا، ڈبلیو بی ژیٹس اور گلبرٹ مرے جیسے نامور دانشوروں نے ولفریڈ کی حمایت کی۔ تاہم وطن سے محبت، امن پسندی اور قید میں بدسلوکی نے ولفریڈ کے اعصاب توڑ کر رکھ دیے۔ اس دوران رسل کو بھی جنگ کی مخالفت کرنے پر چھ ماہ قید بھگتنا پڑی۔ جنگ انسانی ضمیر کا کڑا ترین امتحان ہوتا ہے۔
1886 ء میں پیدا ہونے والا شاعر Siegfried Sassoon جدید انگریزی شاعری کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ جنگ شروع ہوتے ہی مغربی محاذ پر بھیج دیا گیا لیکن بہت جلد اس پر جنگ کی حقیقت کھل گئی۔ اس نے جنگ کے گیت لکھنے کی بجائے گلی سڑی لاشوں، بے رحمی، بزدلی اور خودکشی کو اپنا موضوع بنا لیا۔ ساسون بزدل نہیں تھا۔ ایک خندق میں ساٹھ جرمن سپاہیوں کو دیکھ کر ساسون دونوں ہاتھوں میں گرنیڈ اٹھائے خندق میں کود گیا۔ جرمن سپاہی بھاگ اٹھے۔ اب اسے اپنے عقب میں برطانوی کمانڈر کو اس کامیابی کی اطلاع دینا تھی لیکن ساسون نظموں کی ایک کتاب لے کر خالی خندق میں بیٹھ گیا اور گھنٹوں شاعری پڑھتا رہا۔ اس کے افسر نے اطلاع ملنے پر غصے سے کہاکہ ’اگر تم ایک بیوقوف شاعر نہ ہوتے تو میں نے تمہارے لیے بہادری کے تمغے کی سفارش کی ہوتی‘۔ بالآخر اسے جولائی 1916ء میں ملٹری کراس ملا کیونکہ اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے درجنوں زخمی سپاہیوںکی جان بچائی تھی۔ 1895ء میں پیدا ہونے والا برطانوی شاعر رابرٹ گریوز مستقبل میں برطانیہ کا عظیم شاعر قرار پایا لیکن 1916 ء میں فرانس کے دریا سومے کے کنارے اس بری طرح زخمی ہوا تھا کہ اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ رابرٹ گریوز نے بھی جنگ کی تباہ کاریوں سے متنفر ہو کر امن کی شاعری شروع کر دی۔
اب اپنے وطن کی طرف لوٹتے ہیں۔ 1965ء کی سترہ روزہ جنگ ہمسایہ ملک کے ساتھ پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے ابلاغ کے محاذ پر بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ اس کے باوجود اس جنگ کا حاصل صوفی تبسم کا ایک ترانہ ہے۔ ’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘۔ صوفی تبسم ایک انسان دوست شاعر تھے۔ ان کا یہ ترانہ ہتھیار بند بیٹوں کی مائوں سے موانست کا استعارہ ہے۔ سبط حسن نے ’سخن در سخن‘ میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوران فیض صاحب خاموش رہے ۔ جنگ بندی کے بعد انہوں نے اکتوبر 1965ء میں ’سپاہی کا مرثیہ ‘لکھا۔ اس نظم کی لغت، موضوع اور لحن تینوں میں شاعر نے رزمیہ شاعری کی بجائے جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے جوانوں کا نوحہ لکھا ہے۔ ہمارے صف اول کے مصور شاکر علی نے انتظار حسین کے پوچھنے پر جنگ کے دوران بتایا تھا کہ میں ’چاند‘ پینٹ کر رہا ہوں۔ ’چاند سرحد کے دونوں طرف چمکتا ہے‘۔
بیسویں صدی کی بڑی جنگوں میں ایک اہم ابدی حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے خلاف مؤثر ترین تحریریں ان ادیبوں نے لکھیں جو جنگ کے آغاز میں جنگی جنون میں مبتلا تھے۔ جرمن مصنفہ Erich Maria Remarqueکا ناول All Quiet on the Western Front کس نے نہیں پڑھا۔ اس ناول پر بننے والی فلم آج بھی دنیا کی بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ جرمنی کے شاعر اور ناول نگار گنٹر گراس نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ہی Tin Drumسے کیا تھا۔ وہ زندگی بھر جنگ کی بدصورتی اور امن کی خوبصورتی بیان کرتا رہا۔ جاپان کی مصنفہ ساکائے سوبوئی کے ناول Twenty-four Eyesمیں جنگ کو بچوں کی آنکھ سے دکھایا گیا ہے۔ یہ دنیا نوجوانوں اور بچوں کی امانت ہے۔ اس میں جنگ ٹلتی رہے تو اچھا ہے۔