(گزشتہ سے پیوستہ)
جنوری 1970ء میں کابل (اور یورپ) کی یخ بستہ سردی کا تصور کرکے جب میں لاہور سے کابل اور پھر آگے یورپ جانے کے لئے پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہونے لگا تو خود مجھے اپنی ہیئت کذائی پر ہنسی آگئی۔ اونی بنیان، بنیان کے اوپر سویٹر، سویٹر کے اوپر قمیض، قمیض کے اوپر پھر سویٹر، سویٹر پرکوٹ اور کوٹ پر اوور کوٹ۔ پائوں میں ایک کے بجائے جرابوں کے دو جوڑے، نیچے لیگنگ اور پھر گرم پتلون۔ اگر ان دنوں بھی ایئر پورٹ پر مسافروں کی تلاشی کا موجودہ ’’فحش‘‘ طریقہ کار ہی رائج ہوتا تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ممکن تھی کہ یا تو اس روز یہ پرواز کابل کے لئے روانہ ہوتی اور یا پھر میری جامہ تلاشی کا مرحلہ مکمل ہوتا۔
بہرحال طیارے میں ہیٹنگ سسٹم کی موجودگی کے باعث کچھ ہی دیر بعد مجھے اپنے جسم میں آگ سی بھڑکتی محسوس ہوئی لیکن میرا رفیقِ نشست آتش شوق میں جل رہا تھا۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ایئرہوسٹس اپنی مسکراہٹ تیز کرکے ہمارے پاس پہنچی اور پوچھا۔آپ کیا پئیں گے؟’’جوس‘‘۔ دریں حالات جوس ہی میرے جسم کی آگ کو سرد کرسکتا تھا۔ اور آپ؟۔ اس نے میرے رفیق نشست سے پوچھا جو پورے خضوع و خشوع سے والہانہ انداز میں ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھے جا رہا تھا۔’’میں؟‘‘ میرے رفیق نے عینک اتاری ’’ہا۔ہا۔ہا‘‘۔یہ ’’ہا ہا ہا‘‘ غالباً جہاز میں دستیاب نہیں تھا چنانچہ ایئر ہوسٹس نے اپنی کند ہوتی مسکراہٹ کو دوبارہ سان پر لگایا اور اپنا سوال دہراتے ہوئے پوچھا کہ وہ کیا پئیں گے؟۔
آپ ضرور کچھ پلاناچاہتی ہیں؟ اس عاشق زار نے رومال سے اپنی عینک کے شیشے صاف کئے اور پھر رومان میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا ’’جو چاہیں پلا دیں، میں پی لوں گا‘‘۔میں اپنے جوس سے بھی محروم ہوگیا تھا کیونکہ وہ ایئر ہوسٹس پھر لوٹ کر نہیں آئی۔ کابل برف سے اٹا ہوا تھا۔کابل کے گلی کوچوں میں جمی برف پر میں احتیاط سے قدم جماتا ہوا شیر محمد حسین کا گھر ڈھونڈ رہا تھا۔ جس کا پتہ مجھے لاہور میں ایک دوست نے دیا تھا جو اس افغانی کا قریبی عزیز تھا۔ اوپر شٹل کاک برقعہ اور نیچے اسکرٹ پہنے ہوئے ایک افغانی خاتون میرے برابر سے گزری مگر میں نے دیار غیر میں اس سے ایڈریس پوچھنے کا رسک نہ لیا ۔نا گاہ میری نظر اس سنسان گلی میں ایک مردِ سروقد پر پڑی جس نے ترکستانیوں جیسی ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور ڈھلان سے نیچے اتر رہا تھا۔اس نے میرے استفسار پر انگلی سے ایک مکان کی طرف اشارہ کیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا برفیلی ڈھلان پر اترگیا۔
میری دستک پر مکان کی دوسری منزل میں سے قندھاری انار ایسی ایک خاتون نے کھڑکی میں سے اپنا سر باہر نکالا اور میرے استفسار پر اس کا چہرہ مزید سرخ ہوگیا۔ اس نے غصہ سے کہا۔
’’وہ حرامزادہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ اب ایک اور مکان میں رہتا ہے اور اسکے ساتھ ہی اس نے زور سے کھڑکی بند کردی۔میں پریشان ہو کر چلنے ہی کو تھا کہ کھڑکی ایک بار پھر کھلی اور اس سرخ و سفید خاتون نے سر باہر نکال کرکہا۔’’تم مہمان لگتے ہو، میں اپنا ملازم تمہارے ساتھ بھیجتی ہوں وہ تمہیں اس خنزیر کے گھر چھوڑ آئیگا ‘‘۔میں نے اپنے میزبان کو (جس کا ابتدائی تعارف اس کی سابق بیوی نے کرایا تھا) اس کے عزیز کا رقعہ دیا تو اس نے پرجوش طریقے سے میرا خیر مقدم کیا اور اپنے گھر کے دروازے میرے لئے وا کر دیئے۔ یہ ہنس مکھ شخص مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خود خور و نوش کا انتظام کرنے کیلئے اندر چلا گیا۔ ڈرائنگ روم کی آرائش سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ نفیس ذوق رکھنے کے علاوہ خاصا متمول بھی ہے۔ یہ کمرہ بھاپ والے پائپوں سے گرم کیا گیا تھا جسکے نتیجے میں کچھ دیر بعد جسم پر استوار کئی ’’منزلہ کپڑوں کی عمارت‘‘ مجھے بار لگنے لگی چنانچہ میں نے تمام زائد کپڑے اتار دیئے اور صرف پتلون اور قمیض پہن کر نرم نرم صوفے پر دراز ہوگیا۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور میزبان کی نظر قالین پر پڑے کپڑوں کے ڈھیر پر گئی تو اس نے بھرپور قہقہہ لگایا اور افغانی لہجے کی اردو میں کہا، یہ سب کپڑے تم نے اتارے ہیں۔ میں نہیں مانتا، یہ سارے کپڑے ایک دفعہ پھر مجھے پہن کر دکھائو۔ کابل میں اردو بولنے والے افغانی مجھے وافر تعداد میں ملے۔ ایک عمارت کے باہر ’’پختونستان ہوٹل‘‘ کا بورڈ دیکھ کر میرا جذبہ تجسس بیدار ہوا اور میں اس میلے کچیلے ہوٹل میں داخل ہوگیا۔ یہاں لتا اور رفیع کے گانوں کے ریکارڈ بج رہے تھے اور اس پر شور فضا میں چوڑی چکلی چھاتیوں والے افغانی کرسیوں پر اکڑوں بیٹھے ہوئے چیخ چیخ کر باتیں کر رہے تھے۔
میرے برابر میں بیٹھے ہوئے ایک گاہک نے مجھ سے اردو میں پوچھا۔تم پاکستان سے آئے ہو؟ہاں، میں نے مختصر سا جواب دیا اور قہوے کی چسکیاں لینے لگا۔ برادر ملک، برادر ملک، اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے افغانی نے اظہار مسرت کرتے ہوئے ’’السلام علیکم‘‘ کے ساتھ ساتھ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیئے۔میں تھوڑی ہی دیر میں ہوٹل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ میں قہوہ پی کر بل کی ادائیگی کیلئے کائونٹر کی طرف جانے لگا تو ان میں سے ایک نے مجھے روک دیا۔ ’’تم پیسے نہیں دوگے، تم پاکستان سے آئے ہو‘‘۔
میں نے ہوٹل سے نکل کر ایک نظر باہر آویزاں ’’پختونستان ہوٹل‘‘ پر ڈالی ، ایک نظر اندر بیٹھے ہوئے پرخلوص عوام کو دیکھا اور پھر پوچھتا پچھاتا واپس اپنی رہائش گاہ پر پہنچ گیا جہاں میرا میزبان کھانے پر میرا منتظر تھا۔ اس نے مجھے ایک بار پھر کپڑوں کے ڈھیر تلے دبا دیکھ کر بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا ۔میں دوسرے کمرے میں جاتاہوں، تم اتنی دیر میں اپنی ’’پیکنگ‘‘ کھول کر ذراآرام کرلو۔ (جاری ہے)