عندلیب زہرا، راول پنڈی
آپ کسی بھی بچّے سے اُس کی پسندیدہ ترین شخصیت سے متعلق پوچھیں، وہ فوراً اپنی ماں کا نام لے گا۔ کسی بھی تکلیف و پریشانی میں ہمیں خدا کے بعد جو ہستی یاد آتی ہے، وہ ماں ہی ہوتی ہے۔ ہمیں اچّھی طرح یاد ہے کہ آخری عُمر میں ہمارے نانا معذور ہوگئے تھے، جب کہ انہوں نےایک فعال اور بھرپور زندگی گزاری تھی، تو وہ وہ نوّے سالہ بزرگ بسترِ مرگ پر اپنی ’’بے جی‘‘ ہی کو یاد کرتے رہتے تھے اور بقول اُن کے، اُن کی والدہ خواب میں آکر اُن کی ہمّت بڑھاتی تھیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماں اور اولاد کا رشتہ بہت مضبوط اور لازوال ہوتا ہے، جوزندگی کےکسی بھی مرحلے پر کم زور نہیں پڑتا۔
یوں تو ایک ماں کی زندگی آزمائشوں سے پُر ہوتی ہے، لیکن اُس کی ممتا کا ایک امتحان تب ہوتا ہے، جب وہ کسی کی بیٹی بیاہ کر اپنے گھر لاتی ہے۔ اُس وقت اُسے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ واقعتاً ماں ہے، نہ کہ ایک ایسی عورت، جو اپنے مدِمقابل کوئی دوسری عورت نہیں دیکھ سکتی۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اپنے بچّے کی ہر فرمائش، ضد پوری کرنے والی فراخ دِل ماں، اولاد کی دِلی تمنّا پوری کرنے کے معاملے میں کسی حد تک تنگ دِل اور کٹھور ہوجاتی ہے، نیز، ہمارے معاشرے میں ایک عمومی تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ’’ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی‘‘ اور وقتاً فوقتاً یہ سوال بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دینے والی ماں، آخر ساس کی صُورت اتنی ظالم کیوں ثابت ہوتی ہے؟
ہماری ایک سہیلی کی شادی اپنے پھوپھی زاد سے ہوئی تھی اور پھر کچھ ہی عرصے بعد وہ والدین کی دہلیز پہ آکر بیٹھ گئی کہ اُس کے شوہر نے یہ کہہ کر اُسے میکے بھیج دیا کہ ’’میری والدہ تم سے خوش نہیں۔‘‘ اِسی طرح کچھ ماہ قبل کی ایک الم ناک خبر تو سب ہی نہیں سُنی ہوگی کہ جواں سال زارا کو اُس کی خالہ نے قتل کروادیا اور وجۂ عناد یہ بتائی کہ اُس کی بہو کی وجہ سے اُس کا بیٹا اُس سے دُور ہوگیا تھا۔
یہ درست ہےکہ بعض بہوئیں بد زبان، نافرمان ہوتی ہیں، لیکن یہاں بات ساس، بہو کے رشتے کی نہیں، ماں کی ممتا کی وسعت کی ہے۔ واضح رہے، عورت کی زندگی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتی۔ وہ ہر رشتے ہی میں قربانی دینا جانتی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر جب وہ ساس بنتی ہے، تو نہ جانے کیوں اُس کے منفی جذبات اس قدر اُبھر آتے ہیں کہ ممتا اُن کے تلے کہیں دَب کےہی رہ جاتی ہے۔ تواس ضمن میں، ہرماں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اولاد بالخصوص بیٹے اُن کی جاگیر نہیں ہوتے کہ بہو کی آمد کو اُس جاگیر پر حملہ گردانا جائے۔
آپ ایک ماں ہیں، جس نے ایک مَرد کو جنم دیا ہے، وہ مرد، جو آنے والی نسل کا محافظ اور کفیل ہے۔ اُس سے ایک نسل پروان چڑھنی ہے۔ اُس مَرد کی تعلیم و تربیت کا انحصار بےشک ’’ماں‘‘ پر ہے، لیکن اُس کی بقا کا دارومدار’’بیوی‘‘ پر ہے۔ اور پھر یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ میاں، بیوی کا یہ مقدّس رشتہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کو گواہ بنا کر قائم کیا جاتا ہےاور اِس نازک رشتے کی آب یاری ہی سے معاشرے کی بقا و فلاح مشروط ہے۔
شادی کے بعدجس طرح ایک بہو یا بیوی کا یہ امتحان ہوتاہےکہ وہ ایک نئے رشتے کو کس حد تک خوش اسلوبی سے نبھاتی ہے، اُسی طرح یہ مرحلہ ساس کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا، تو ابتداً ہی دونوں اطراف اتنی وسعت، گنجائش ہونی چاہیے کہ آگے چل کرساس، بہو کے رشتے میں تلخیاں پیدا نہ ہوں۔
ہر چند کہ ساس کو ماں نہیں سمجھا جاتا، لیکن اُسے ڈائن یا ناگن ہی کیوں سمجھ لیا جاتا ہے، یہ حیرت انگیز بات ہے۔ اس حوالے سے اکثر خواتین شکوہ کرتی ہیں کہ ساس کو اپنے بیٹے، بہو کی محبّت و اتفاق برداشت نہیں ہوتا اور اس تلخ بات میں بہت حد تک صداقت بھی ہے۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اُس عورت پر اس قدر الزامات کی بھرمار کیوں کہ جس نے ایک بیٹے کو جنم دیا، اُسے پالا پوسا، پروان چڑھایا اور پھر بڑے ارمانوں سے ایک چاند سی بہو بیاہ کر لائی۔ دراصل، اِس کا سبب وہ چند ساسیں ہیں، جن کے بد ترین رویوں کے سبب یہ تاثر گہرا ہوا ہے، وگرنہ عمومی صورتِ حال، خصوصاً دورِحاضرمیں اتنی بھی بُری نہیں۔
عورت میں قدرتی طور پرممتا کا جذبہ پایا جاتا ہے، توایک ساس کا دِل اس جذبے سے تہی کیسے ہوسکتا ہے۔ بہرکیف، اگر کوئی عورت ساس کے رُتبے پر فائز ہے یا ہونے جارہی ہے تو اُسے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اُس کےبیٹےکا گھرآباد رہے، نیز اُسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اُس کی بھی بیٹیاں ہیں، تو وہ کسی کی بیٹی کے لیے جو بوئے گی، وہ خدانخواستہ اُس کی بیٹیوں کو بھی کاٹنا پڑسکتا ہے۔
یہ تو طے ہے کہ ہر رشتے کی مضبوطی و استحکام اور خاندان کو ہنستا بستا رکھنے کے لیے وسیع القلبی، ایثار و قربانی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس ضمن میں، ہرعورت کو، خواہ وہ کسی بھی رشتے میں بندھی ہو، خُود سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ممتا کے بےمثل جذبے کو کبھی بھی اپنے منفی جذبات کی بھینٹ نہیں چڑھائے گی اور خصوصاً ہر ساس کو اپنی بہو کے لیے ممتا کا جذبہ بےدار رکھنا چاہیےکہ وہی اُس کی آئندہ نسل کی امین ہے تاکہ بہوئیں کہہ سکیں کہ ’’ساس میری سہیلی ہے یا ساس بھی ماں بن سکتی ہے۔‘‘