• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابعہ فاطمہ

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوش حالی کا بنیادی عنصر ہے اور جب کوئی ملک کسی معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات بچّوں کی تعلیم ہی پر مرتّب ہوتے ہیں۔ معاشی بحران کا مطلب صرف مالی خسارہ یا منہگائی نہیں، بلکہ یہ کئی پیچیدہ عوامل کو جنم دیتا ہے، جو تعلیمی نظام کو بُری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ 

ان میں تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، والدین کی طرف سے تعلیمی اخراجات میں کمی، اسکول چھوڑنے کی بڑھتی ہوئی شرح، تعلیمی معیار میں گراوٹ، بچّوں میں ذہنی دباؤ اور ڈیجیٹل سہولتوں تک محدود رسائی جیسے سنگین مسائل شامل ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں اور تحقیقی مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب کسی ملک کی معیشت زوال کا شکار ہوتی ہے، تو اس کے تعلیم پر نہایت گہرے اور دیرپا اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔

بلاشبہ، تعلیم ایک طویل المدتی سرمایہ کاری ہے، لیکن جب کسی مُلک کی معیشت بحران کا شکار ہوتی ہے، تو والدین کی معاشی ترجیحات میں بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش اور صحت پہلے آجاتی ہیں اور تعلیمی اخراجات ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ 

اس کے نتیجے میں بچّوں کی ایک بڑی تعداد اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، معاشی بحران کے دوران اسکول چھوڑنے کی شرح میں 15سے 25فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے، جو زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں نوٹ کیا گیا۔ 

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب گھرانوں کی آمدنی کم ہوجاتی ہے، تو بچّے مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تاکہ وہ اپنی فیملی کی مالی ضروریات میں مدد کر سکیں۔ تعلیم کے فروغ میں سب سے بڑا کردار ریاست کا ہوتا ہے، لیکن جب معیشت زوال پذیر ہوتی ہے، تو تعلیمی بجٹ میں کمی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ 

حکومتیں اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری، نصاب کی جدیدیت اور اساتذہ کی تربیت جیسے اہم تعلیمی امور پر سرمایہ کاری کم کردیتی ہیں، جس کا نتیجہ تعلیمی معیار میں کمی کی صُورت نکلتا ہے، کیوں کہ کم بجٹ کے باعث تعلیمی اداروں کی سہولتیں بھی محدود ہوجاتی ہیں، اساتذہ کی تن خواہوں میں کمی کی جاتی ہے اور تدریسی مواد کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ 

جیسا کہ یونان میں 2010ء سے2018ء تک جاری رہنے والے مالی بحران کے دوران تعلیمی بجٹ میں30 فی صد کمی دیکھی گئی، جس کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں میں تدریسی معیار انحطاط پذیر ہوا اور طلبہ کی تعلیمی کارکردگی میں20فی صد کمی ریکارڈ کی گئی۔

معاشی بدحالی کے بچّوں کی ذہنی و نفسیاتی صحت پر اثرات: معاشی بحران کا اثر صرف تعلیمی اداروں اور تعلیمی بجٹ تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کے نتیجے میں بچّوں کی ذہنی و نفسیاتی صحت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ جب والدین مالی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، تو اس کا اثر براہِ راست بچّوں پر بھی پڑتا ہے۔ غربت، بے روزگاری اور مالی عدم استحکام بچّوں میں ذہنی دباؤ، پریشانی اور تعلیمی کارکردگی میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ 

تحقیقی مطالعے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جن بچّوں کے والدین معاشی بحران کے دوران مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، وہ تعلیمی میدان میں پس ماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے تعلیمی سرگرمیوں پر توجّہ مرکوز رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب ذہنی دباؤ کی وجہ سے بہت سے بچّے تعلیم ترک بھی کردیتے ہیں یا اُن کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ 

اُن میں خود اعتمادی کی کمی اور تعلیمی کام یابی کے حوالے سے مایوسی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ایسے بچّے، جن کے گھرانے معاشی بحران کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، اُن میں ڈیپریشن اور اضطراب کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، جو بالآخر ان کے مستقبل پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

ڈیجیٹل تقسیم اور جدید تعلیمی وسائل تک محدود رسائی: آج کے جدید دَور میں تعلیم کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے، لیکن معاشی بحران کے دوران جب والدین کے لیے بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہو، تو وہ بچّوں کو آن لائن تعلیم کے لیے درکار وسائل فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں، نتیجتاً لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ اور آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز تک محدود رسائی کے باعث مالی مشکلات کے شکار گھرانوں کے بچّے تعلیمی مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 

’’کووِڈ۔19‘‘کے دوران، جب پوری دنیا میں آن لائن تعلیم کا رجحان بڑھا، تو یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق، ترقی پذیر ممالک میں 50 فی صد سے زائد بچے آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے، کیوں کہ اُن کے پاس انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل آلات موجود نہیں تھے اور یہ ڈیجیٹل تقسیم صرف امیر، غریب کے درمیان فرق پیدا نہیں کرتی، بلکہ دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان بھی فرق نمایاں کرتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں معاشی بحران کے باعث اسکولوں میں جدید تعلیمی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے منصوبے تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے تعلیمی ترقی کی رفتار سُست ہو جاتی ہے۔

ممکنہ حل اور پالیسی سےمتعلق تجاویز: معاشی بحران کے منفی اثرات کم کرنے کے لیے ایسے مربوط اقدامات کی ضرورت ہے، جو تعلیمی نظام کو مستحکم بناسکیں۔ سب سے پہلے، حکومتوں کو تعلیمی بجٹ میں کمی کے بجائے، تعلیمی اصلاحات کے لیے سرمایہ کاری کو ترجیح دینی چاہیے۔ معاشی بحران کے باوجود، اسکالرشپ پروگرامز، مفت نصابی کتب اور مالی معاونت جیسے اقدامات کے ذریعے تعلیم تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ 

عالمی سطح پر مختلف ممالک میں حکومتوں نے مالی بحران کے دوران تعلیمی معیار برقرار رکھنے کے لیے مختلف پالیسیز اپنائی ہیں۔ مثال کے طور پر، برازیل نے ’’بولسا فامیلیا‘‘ جیسے سوشل ویلفیئر پروگرامز متعارف کروائے، جن کی بدولت غریب گھرانوں کو مالی امداد فراہم کی گئی، تاکہ وہ اپنے بچّوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ اسی طرح، کئی یورپی ممالک نے کورونا بحران کے دوران اساتذہ کی تربیت اور آن لائن تعلیمی نظام کو مضبوط بنانے پر توجّہ دی۔

ترقی پذیر ممالک میں، جہاں مالی وسائل محدود ہوتے ہیں، وہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے تعلیم میں سرمایہ کاری بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز کو زیادہ سے زیادہ قابلِ رسائی اور سستا بنایا جانا چاہیے تاکہ کم آمدنی والے طبقے کے بچّے بھی جدید تعلیمی ذرائع سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ مختصر یہ کہ معاشی بحران کسی بھی مُلک کے تعلیمی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے، جو بچّوں کے تعلیمی استحکام، ذہنی صحت اور جدید تعلیمی سہولتوں تک رسائی کو متاثر کرتا ہے۔ 

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حکومتیں تعلیمی شعبے کو اپنی اوّلین ترجیح بنائیں اور ایسے اقدامات کریں، جو تعلیمی بحران کے دوران بچّوں کی تعلیم کو متاثر ہونے سے بچاسکیں۔ اسکالرشپ پروگرامز، مفت تعلیمی سہولتیں اور ڈیجیٹل وسائل تک مساوی رسائی جیسے اقدامات ان مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر تعلیمی نظام کو مضبوط نہ کیا جائے، تو معاشی بحران کے اثرات نہ صرف بچّوں کے مستقبل، بلکہ پوری قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوسکتے ہیں۔