• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

70 فیصد لڑکیاں میڈیکل کالجوں میں لیکن فیلڈ میں کہاں؟

گزشتہ دنوں برصغیر میں میڈیکل تعلیم کے قدیم ترین ادارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) میں Institutional Review Board کی ماہانہ میٹنگ کے بعد وائس چانسلر کے ای ایم یو پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود، سابق صوبائی وزیر سابق سینئر ترین بیورو کریٹ چوہدری اختر سعید، پروفیسر ڈاکٹر ثاقب سعید، ڈاکٹر خدیجہ اور ڈاکٹر رافعہ کے درمیان ایک دلچسپ بحث چھڑ گئی کہ ہمارے ملک کے تمام میڈیکل کالجوں میں 70 فیصد لڑکیاں تو زیر تعلیم ہیں اور یہ شرح پچھلے تقریباًدس برس سے ہے۔ مگر فیلڈ میں لیڈی ڈاکٹرز نظر نہیں آتیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ خیر بحث کافی دلچسپ اور طویل رہی۔ خواتین ڈاکٹر اپنے موقف کے حق اورمرد ڈاکٹرز اپنے حق میں دلائل دیتے رہے۔ لیکن ایک بات پر سب متفق ہوئے کہ اس وقت پورے ملک کے تمام میڈیکل کالجوں میں 70 فیصد لڑکیاں اور صرف 30 فیصد لڑکے زیر تعلیم ہیں اوران 30 فیصد لڑکوں میں سے بھی آدھے تعلیم مکمل کر کے دوسرے ممالک میں بھاگ جاتے ہیں۔ پروفیسر فیصل مسعود کا کہنا تھا کہ وہ ان 30 فیصد لڑکوں میں سے بھی بہترین لاٹ تیار کرسکتے ہیں اور وہ ان 30 فیصد لڑکوں کے ساتھ بہت خوش ہیں۔ ہم پچھلے کئی ہفتوں سے اس موضوع پر لکھنے کے لئے کوشش کررہے تھے۔ مگر درمیان میں حامد میر کا مسئلہ، پھر جنگ اور جیو کے مسائل آگئے جو تاحال جاری ہیں۔ اس سارے مسئلے میں سب سے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ باقی تمام میڈیا جیو اور جنگ کے خلاف اس طرح کمربستہ ہوگیا ہے جیسے پاکستان کا یہ قدیم ترین اخبار کا ادارہ ان کا نمبر 1 دشمن ہے بہرحال آئندہ کالم میں اس پر بھی بات ہوگی۔ اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
پاکستان کے تمام میڈیکل کالجوں (سوائے فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور اور جام شورو کا خواتین میڈیکل کالج چھوڑ کر یہ دونوں میڈیکل کالجز صرف لڑکیوں کے ہیں) میں ایک مدت تک لڑکیوں کا 25/20 فیصد کوٹہ مقرر تھا۔ جبکہ لڑکے اوپن میرٹ پر داخل ہوتے تھے۔ کئی برس قبل ایک سابق جسٹس صاحب نے کچھ خاص مصلحتوں کی بنا پر ایک حکم صادر بلکہ فیصلہ دیا کہ تمام میڈیکل کالجوں میں صرف اور صرف اوپن میرٹ پر داخلہ ہوگا۔ اس میں لڑکیوں اور لڑکوں کی تخصیص نہیں ہوگی۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ لڑکیاں ہمیشہ پڑھائی میں لڑکوں سے زیادہ نمبر لیتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سارے لڑکے تو ملازمت کر کے پاٹ ٹائم کر کے اور گھر کے سو کام کر کے تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں رہی بات نمبروں کی تو اس سے ہمیں ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے تمام سابق سٹوڈنٹس جو اس ملک کے نامور پروفیسرز ہیں۔ جن میں سے بے شمار ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ ان کے نمبروں کی شرح چھ سے آٹھ سو کے درمیان تھی اور وہ ملک کے انتہائی قابل اور بہترین ڈاکٹرز ثابت ہوئے اور ثابت ہورہے ہیں۔ مگر افسوس کہ آج جو لڑکے اور لڑکیاں نو سو اور ہزار نمبر لے کر آرہے ہیں ان کا نالج اور شعبہ ڈاکٹری میں مہارت اوسط درجے سے بھی کم ہے۔ آپ یقین کریں کہ اس ملک میں آئندہ چند برسوں کے بعد آپ کو پیٹ درد اور سر درد کے بھی ڈاکٹرز نہیں ملیں گے۔ جو مرض کی صحیح تشخیص کرسکیں، پھر خیر سے روس، چین اور پتہ نہیں کن کن ممالک سے ڈاکٹر بن کر آرہے ہیں جن کو ان ممالک میں بالکل ہائوس جاب کرنے کی اجازت نہیں۔ ارے بھائی جب تک ڈاکٹر کسی مریض کا علاج اور معائنہ نہیں کرے گا اس کو کس طرح اپنے شعبے میں مہارت پیدا ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کا ایک ڈاکٹر کو بنانے پر تیس چالیس لاکھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں جبکہ سرکاری میڈیکل کالجوں کی پانچ برس کی تعلیم کے اخراجات بھی صرف ایک لاکھ کے قریب بنتے ہیں اور یہاں پر 70 فیصد لڑکیاں ہیں۔ یہ 70 فیصد لڑکیاں دکھی انسانیت (جو کہ بڑا گھسا پٹا فقرہ ہوگیا ہے) کی خدمت کے لیے نہیں صرف اور صرف اپنے رشتے حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹری کرتی ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور کے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں ایک چوہدری صاحب دو بوریوں میں نوٹ بھرکر لائے اور اس کالج کے پرنسپل کو کہا کہ کسی طرح اس کی لڑکی کو میڈیکل کالج میں داخل کرلو۔ متعلقہ پرنسپل نے کہا کہ آپ اتنی جائیداد کے مالک ہیں آپ بچی کو کیوں پڑھانا اور نوکری کرانا چاہتے ہیں تو موصوف نے کہا کہ واہ ڈاکٹر صاحب نوکری کس نے کرانی ہے ڈاکٹر بن کر میری کڑی نوں چنگا رشتہ مل جائے گا۔ اس ملک کے 70 فیصد وسائل اب صرف چنگے رشتوں کے لئے ضائع کیے جارہے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پاکستان کے بہت سارے علاقوں میں آج بھی ان کی خاندانی روایات اور پس منظر کی وجہ سے مرد ڈاکٹروں کو وہ اپنی خواتین کو نہیں دکھاتے۔ 2006ء میں ہم کوئٹہ میں آنکھوں کی بیماری کے حوالے سے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام سمینار منعقد کرا رہےتھے تو وہاں کے مقامی ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہاں پر مرد ڈاکٹروں کونہ دکھانے کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میںبھی بعض خواتین اندھی ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ آنکھوں کی بعض بیماریاں اتنی معمولی ہوتی ہیں کہ اگر ان کا بروقت علاج کرلیا جائے تو اندھے پن سے بچ سکتی ہیں مگر چونکہ پورے ملک میں خواتین ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے پورے ملک میں صرف دس سرجن خواتین ڈاکٹرز ہیں۔ پورے لاہور میں صرف ایک خاتون ہارٹ سرجن ہے۔ ایک نیورو سرجن ہے۔ پھر بہت ساری لیڈی ڈاکٹرز شام کو گھریلو مصروفیت کی وجہ سے پریکٹس نہیں کرتیں۔
دوسری طرف پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی سالانہ فیس سات لاکھ روپے ہے اور جو لڑکی صرف اچھے رشتہ کے لئے 35/40 لاکھ روپے خرچ کر کے ڈاکٹر بنے گی اگر وہ پریکٹس میں بھی آئے گی تو یقیناً اس کے ماں باپ یہ رقم ڈبل وصول کرنا چاہیںگے دوسرے اگر صرف اچھےرشتے کے لئے ڈاکٹر بنایا جارہا ہے تو یہ کہاں کا انصاف؟ اگر ان 70 فیصد لڑکیوں کی جگہ لڑکوں کو داخلہ ملے تو کم از کم آدھی تعداد تو ضرور اس ملک میں کام کرے گی اور لوگوں کو علاج و معالجے کی سہولت تو ملے گی۔ ہمارے نزدیک اوپن میرٹ کی بجائے لڑکیوں کے لئے کوٹہ مقرر کیا جائےکیونکہ اس وقت پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے اور پرائیویٹ علاج آج اس ملک کی مڈل کلاس کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ اب پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج صرف اور صرف امیر ترین لوگ ہی کرا سکتے ہیں۔ ان حالات میں اتنی بڑی تعداد میں لڑکیوں کا میڈیکل کالجوں میں پڑھنا اور پھر فیلڈ میں نہ آنا صرف وسائل کا ضیاع ہے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں میڈیکل کالجوں میں یہ شرح 20 اور 80 کی ہوجائے گی۔ یعنی لڑکے میڈیکل کالجوں میں صرف 20 فیصد رہ جائیں گے اس مسئلے کی سنگینی کو سامنے رکھیں اور کوئی مربوط پالیسی بنائی جائے۔ دوسری طرف حکومت ان ڈاکٹروں اور انجینئروں پر بھی پابندی لگائے جو حکومت کا لاکھوں روپے خرچ کرا کے بعد میں سی ایس ایس کر لیتے ہیں۔ اس وقت سرکار میں جتنے بھی ڈاکٹرز اور انجینئرز بیوروکریٹس ہیں ان میں سے 95فیصد سرکاری میڈیکل کالجوں اور سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ ڈاکٹرز اور انجینئرز پولیس اور دیگر شعبہ جات میں جن مقاصد کے لیے آئے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس پر تفصیل سے بات پھر ہوگی۔
تازہ ترین