• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی خوش حالی اور سلامتی، سیاسی استحکام سے نتھی، بدقسمتی سے مملکت سیاسی استحکام سے کوسوں دور ہے۔ جھوم اُٹھا ہے پاکستان! سانحہ پہلگام (22؍اپریل) سے 15مئی تک تین کالم لکھ چکا، جی چاہتا ہے کہ آئندہ سارے کالم وقف رکھوں۔ مجھ پر کیا موقوف، پوری مملکت خوشی سے سرشار، پھولے نہیں سما رہی۔ چار روزہ ٹکراؤ میں بھارتی ناک لہولہان، کٹ چکی ہے۔ بھارت کی اخلاقی، جنگی، سفارتی، میڈیا پر خاطر خواہ پسپائی پورے عالم پر عیاں ہے۔ پچھلے 77سال سے الحمدللہ کئی بار بھارت کو تشفی کرائی اور خون کے بدلے خون کا حق ادا کیا۔ قومی بدنصیبی! امابعد مذاکرات کی میز پر خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔

قوی اُمید! اس بار قائدین فتح کے ثمرات ضائع نہیں ہونے دینگے۔ 1947ء میں قبائلی مجاہدین کی مدد سے سرینگر تک پہنچنے کو کہ بھارتی ایماء پر جنگ بندی ہوئی، تب بھی مذاکرات میں فائدہ نہ اٹھا سکے۔ سندھ طاس معاہدہ ہوا تو بھارت کو حصہ سے زیادہ پانی ملا۔ ’’رَن آف کچھ‘‘ کی جنگ میں بھارتی فوج کا بھرکس نکالا، سرکریک کے مشرقی کنارے سے کوسوں میل دور دھکیلا، رَن کچھ کا وسیع علاقہ مع ( BIAR BET چوکی) چھینی۔ برطانیہ نے بھارتی شکست پر جنگ بندی کرائی تو 1968ء مذاکرات کی میز پر پاکستان کا چھینا ہوا ’’سرکریک‘‘ کا مشرقی کنارہ 90% بھارت کو اور 10% پاکستان کے حصہ میں آیا۔ مذاکرات میں وہ کچھ ہار گئے جو ہماری بہادر فوج نے جیتا تھا۔

1965ءکی جنگ کا حاصل حصول، تاشقند (سوویت یونین) میں گنوایا دیا کہ مقبوضہ کشمیر پر خاطرہ خواہ کامیابی مل سکتی تھی۔ شملہ معاہدہ پر شکایت بنتی نہیں، جو کچھ حاصل کیا وہ بھٹو صاحب کی ذہانت بنا اور غنیمت تھا۔ حالیہ جنگ میں 1971ءکے بعد پہلی بار بھارت سے سامنا، بھارت کو ایسا پچھاڑا کہ آج منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ بقول وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سلامتی امور کے مشیران کے درمیان مذاکرات شروع ہوا چاہتے ہیں۔ جنگ بندی پر حکومت نے قوم کو تاثر دیا تھا کہ کوئی تیسرا غیرجانبدار ملک بھی شریک ہو گا اور کشمیر پر بھی بات ہو گی۔ آخری خبریں آنے تک اس سب سے محروم ہو چکے ہیں۔ ماضی شاہد کہ ہم مذاکرات کی میز پر ہمیشہ بے دم یا دم بخود رہے۔ کیا اس بار بھی ماضی دُہرایا جائیگا۔

یہ قوم کا حکومت پر اعتمادہی ہے کہ جنرل عاصم کی خدمات کے اعتراف میں انہیں فیلڈ مارشل کا درجہ دیا گیا۔ خوشی اور خود اعتمادی سے محروم قوم ہر حکومتی فیصلے کو سر کا تاج بنانے میں وارفتہ ہے۔ بات سچ! جنرل عاصم منیر سے زیادہ اور کس کو جیت کا کریڈٹ جاتا ہے۔ جنرل عاصم کے فیلڈ مارشل بننے پر پوری قوم متفق ہے اور خوش بھی۔ خوش قسمتی کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت تحریک انصاف کے ہر رینک اور ہر سطح کے لیڈر نے نہ صرف اس قدم کی ستائش کی، فیلڈ مارشل عاصم منیر کو مبارک سلامت کے بھرپور پیغامات بھیجے۔ تحریک انصاف کے جینٹلمین صدر بیرسٹر گوہر علی نے تو بغیر الفاظ چبائے نہ صرف مبارکباد دی بلکہ حکومتی قدم کو سراہا بھی، مع اضافی نوٹ کہ ’’جنرل عاصم حقی سچی فیلڈ مارشل بننے کے حق دار ہیں‘‘۔ تحریک انصاف کے اجتماعی بھرپور بیانیہ اور موقف کی موجودگی میں کل ہمشیرہ کا جیل سے باہر آکر عمران خان کا "اصلی" موقف اور پیغام پورے ملک کو ششدر کر گیا۔ اگرچہ کئی نکات اگلے کالموں کا موضوع، آج کا موضوع پیغام کا بنیادی اہم نقطہ، ’’جنرل عاصم کے فیلڈ مارشل بننے پر عمران خان سیخ پاء نظر آئے‘‘۔ اگرچہ کئی اہم نکات، مجھے اس ایک نقطہ سے غرض ہے، ایسے وقت جبکہ تحریک انصاف بھرپور طریقےسے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں سے مذاکرات کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا چکی ہے اور فیلڈ مارشل بننے پر ستائش جاری ہے، بہن کا بیان کہ ن لیگ سے مذاکرات اور فیلڈ مارشل بننے پر عمران خان سیخ پاء ہیں۔ تہہ دل سے یقین کہ جو کچھ بھی PTI قیادت کر رہی ہے عمران خان کی لائن ہی تو فالو کر رہی ہے۔ سمجھنے میں عار نہیں کہ عمران نے ایک مخاصمتی لائن اپنی بہنوں اور مخلص معتقدین کو دے رکھی ہے جو ٹکراؤ اور مشکلات سے گھری ہے۔ دوسری مفاہمتی لائن PTI قیادت کے اکابرین کو دے رکھی ہے، ایسوں کو وزیر اعلیٰ، پارٹی صدر، اپوزیشن لیڈر جیسے عہدے بھی دے رکھے ہیں۔

عمران خان کی دوغلی سیاست پر تکلیف کہ اپنے مخلص رشتہ دار اور چاہنے والوں کو بھارت سے جنگ کو متنازعہ بنانے سے لیکرجنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے تک، تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ مجھے نہ تو ہمشیران کی فیلڈ مارشل عاصم منیر پر تنقید پر افسوس ہے اور نہ ہی مجھے PTI قائدین کی فیلڈ مارشل عاصم منیر کی غیر معمولی مداح سرائی پر اعتراض۔ میری غرض قائد کے دوغلے پن سے کہ قریبی رشتہ دار اور مخلص ساتھیوں کو فوج سے مخاصمت کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے جبکہ جو لوگ جیل سے باہر بڑے عہدوں اور رُتبوں پر فائز انکو اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مفاہمت کی سہولت دے رکھی ہے۔ عمران خان کا جنرل عاصم منیر کےفیلڈ مارشل بننے پر سیخ پاء ہونا بھی ذاتی مخاصمت سے زیادہ کچھ نہیں۔ بدگمانی کا بوجھ اٹھاتا ہوں کہ اگر سانحہ پلوامہ فروری 2019ء( بھارتی آپریشن بندر) سے بات جنگ تک بڑھ جاتی اور بفرض محال جنرل باجوہ ہمیں فتح دلواتے اور بفرض محال بھارت ذلیل و رسواء و پسپاء ہوتا تو صدق دل سےیقین کہ موصوف کی جنرل باجوہ پرفریفتگی کے باعث پلک جھپکتے انہیں فیلڈ مارشل بنا ڈالتے۔ مجھے یاد ہے ذرا ذرا، 2019ءتا دسمبر 2021ء، میں جب کبھی میں جنرل باجوہ کی ذات اقدس میں گستاخی کرتا تو عمران خان کے رشتہ دار اور معتقدین میرا منہ نوچنے کوآتے کہ ’’اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانہ میں‘‘۔

ستمبر 2022ءمیں اسی میر جعفر جنرل باجوہ سے شد و مد تلخی کے ماحول میں منت سماجت سے 3ملاقاتیں کیں اور باجوہ کی توسیع مدت ملازمت کی تمنا کی۔ یادش بخیر، جب 20اکتوبر 2020ءکے گوجرانوالہ کے جلسہ میں نواز شریف نے عمران خان کو کلین چٹ دی کہ میرا عمران خان سے اختلاف نہیں ہے۔ میرے ساتھ زیادتی، آئین پاکستان سے کھلواڑ جنرل باجوہ اور فیض حمید نے کیا ہے۔ عمران خان کو نواز شریف کی باجوہ گستاخی بُری لگی، اگلے دن نواز شریف پر لعن طعن کی بوچھاڑ کی.......آخری بات:میں تو ذاتی طور پر جنرل سید عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر خوش ہوں۔

تازہ ترین