• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی کہانی، نیا فسانہ: شاہ محمّد کا تانگا (پہلی قسط)

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(علی اکبر ناطق)

علی اکبر ناطق، ممتاز افسانہ، ناول اور سوانحِ نگار، شاعر اور ناقد، ستّر کی دہائی میں اوکاڑا میں پیدا ہوئے۔ تخلیقی سفر کے آغاز ہی سے قابلِ رشک کام یابیوں نے قدم چُومے، رُوح و بدن کا سمبندھ قائم رکھنے کو ابتداً محنت مزدوری پر انحصار کیا، جس نے زندگی کے مختلف رنگوں اور آزمائشوں سے روشناس کروایا۔ بعد ازاں، مختلف ادبی اور تعلیمی اداروں میں ملازمت اورکچھ ذاتی کام کیے۔ 

پہلے شعری مجموعے’’بے یقین بستیوں میں‘‘ سے تخلیقی سفر کا آغاز ہوا، افسانوں کے پہلے ہی مجموعے ’’قائم دین‘‘ کو یو بی ایل ایوارڈ اور قبولِ عام حاصل ہوئی۔ ناول ’’نولکھی کوٹھی‘‘ سے شہرت کے بامِ عروج پر پہنچے۔ درجن بھر تصانیف، بھارت کے تھیٹرز میں تخلیقات کی پیش کاری، راست بیانیہ، پنجاب کی دیہی ثقافت کا تخلیقی اظہار، دل چسپ بیان، لذیذ حکایات، دورِحاضر کے تخلیق کاروں کی صفِ اوّل میں نمایاں تر، یہ ہے اِن کا ایک مختصر تعارف۔

ایک زمانے، ایک مِٹتی ہوئی تہذیب کی دل چسپ و حُزن آگیں کہانی۔ شاہ محمّد، اُس کے تانگے اور اُس کے بیان کردہ قصّے کہانیوں کی رُوداد، ایک معدوم ہوتی تہذیب کا قصّہ، دورِ حاضر کے نمایندہ ادیب کے قلم سے ’’شاہ محمّد کا تانگا‘‘ فقط ایک افسانہ نہیں، یاد رہ جانے والا ایک فن پارہ ہے۔

مَیں دیرتک بوسیدہ دیوارسے لگا، تانگے کا ڈھانچا دیکھتا رہا، جس کا ایک حصّہ زمین میں دھنس چُکا تھا اور دوسرا سوکھے پیڑ کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا، جس کی ٹُنڈمُنڈ شاخوں پر بیٹھا کوّا کائیں کائیں کررہا تھا۔ کچھ راہ گیر سلام دُعا کے لیے رُکے، لیکن میری توجّہ نہ پا کر آگے بڑھ گئے۔ مجھے اُس لکڑی کے پہیے اور بمبو کے ڈھانچے نے کھینچ کر اچانک تیس سال پیچھے لے جا پھینکا۔

’’لَے بھئی جوان!‘‘ شاہ محمّد نے چھانٹے کی لکڑی تانگے کے پہیے سے ٹکراتے ہوئے بات شروع کی۔ ’’اُن دنوں مَیں ممبئی میں تھا۔ جوانی مجھ پر پُھوٹی پڑتی تھی اور خُون تازہ تھا۔ بس وہ کار جاپان سےبن کر نئی نئی ہندوستان پہنچی کہ مَیں نے خریدلی (اِس بات کے دوران اُس نے چھانٹا پھرگھومتے ہوئے پہیے کے ساتھ لگا دیا، جس کی رِگڑ سے گڑرر رگڑررر کی آواز پیدا ہوئی اور گھوڑا مزید تیز ہوگیا) اور لگا ممبئی کی سڑکوں پر دوڑانے۔ 

میاں جوانی اندھا خُون ہوتاہے، ٹیلےگڑھےنہیں دیکھتا، اور میری کوئی جوانی تھی؟ شہابی رنگ، کٹاری سی مونچھیں، پھرگاڑی کا ہاتھ آجانا قیامت ہوگیا، سوار ہوکر سڑک پر آتا، تو لوگ کناروں سےجالگتے۔ کہتے بھائی! اوٹیں لےلو، شاہ محمّد قضا پر سوار چلا آتا ہے۔ اُن دنوں کار پر سواری بٹھانا شرم کی بات تھی، اِس لیےاکیلاہی گھومتا۔ ممبئی کے ہجوم کا تو آپ کوپتا ہی ہے لیکن مَیں نے کہا۔ شاہ محمّد! بات جب ہے، جب تُو گاڑی بَھری سڑک پر ہَوا کی طرح چلائے۔

پھر تھوڑے ہی دِنوں میں سرکس والوں کو پچھاڑنے لگا۔‘‘ ’’تو کیا آپ سرکس میں کام کرنے لگےتھے؟‘‘مَیں نےحیران ہوکر سوال کیا۔ ’’او میرے بھتیجے!‘‘ شاہ محمّد نے گھوڑے کو چھانٹا مار کر مزید تیز کردیا۔ ’’سرکس والی بات تو مَیں مثال کے لیے کر رہا ہوں۔ میرا اُن مداریوں سے کیا تعلق؟ وہ بےچارے تو پیٹ بھرنے کے لیے یہ دھندا کرتے ہیں، روزی روٹی کی تھوڑاُنھیں موت کے رسّوں پر چلاتی ہے۔ 

اِدھر تجھے تو پتانہیں، پراللہ بخشےتیرا دادا میرے باپ کو جانتا تھا۔ ہم پرُکھوں سے نواب تھے۔ لاکھوں ہی روپے اِن ہاتھوں سے کھیل تماشوں میں جھونک دیے۔ خیر چھوڑ اِن باتوں کو، بات جاپانی کار کی ہورہی تھی۔ ممبئی کی سڑکوں پر دوڑاتے دوڑاتے پورا اسپرٹ ہوگیا اور حد یہ ہوئی کہ چلتے ہوئے بڑے ٹرالوں کے نیچے سے گزارنے لگا۔ یوں ایک چھپا کے سے چلتے ٹرالر کے درمیان سے نکل جاتا، جیسے بھوت اُڑجائے۔ ممبئی میں میری مثالیں بن گئیں۔‘‘اب میرے کان کھڑے ہوئے۔

مَیں نے شدید حیرانی سے پوچھا۔ ’’وہ کیسے چاچا شاہ محمّد؟‘‘ ’’ہاہاہا…‘‘ شاہ محمّد نے مونچھ پر ہاتھ پھیر کر گھوڑے کو برابر تھپکی دی اور بولا۔ ’’جوان یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آسکتی، بس تُو چُپ کر کے سُنتاجا۔ ایک دن عجیب قصّہ ہوا، مَیں کار میں جا رہا تھا، قدرت خدا کی دیکھو، وہ واحد دن تھا، جب میری رفتار ہلکی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں، سڑک کنارے ایک آدمی نڈھال اور بُرے حال میں زخمی بھاگا جارہا ہے۔ محسوس ہوتا تھا، ابھی گِرا۔ اُس کے پیچھے پولیس ہُوٹرمارتی چڑھی آ رہی تھی۔ مَیں نے سوچا، بےچارا مارا جائےگا، کچھ خدا ترسی کردے۔

اُسی لمحے مَیں نے کار اُس کے پاس لے جاکر کھڑی کی اور کہا بھئی،جلد بیٹھ جا۔ لَوجی، اِدھر وہ گاڑی میں بیٹھا، اُدھر مَیں نے ریس دبادی۔ اب پیچھے پولیس اور اُس کی ہوٹریں اورآگے مَیں۔ وہ بندہ بہت گھبرایا کہ ابھی پکڑے جائیں گے۔ اب اُس بدھو کو کون بتائے کہ وہ کس کے ساتھ بیٹھا ہے؟ مَیں تو جانتا تھا، بےچاری ممبئی پولیس کی کیا اوقات ہے، سو سال ٹریننگیں لے، پھربھی میری ہوا کو نہ پہنچے۔ ٹکے ٹکے کے سپاہی روٹی روزی کی مصیبتوں میں پھنسے، چور تھوڑی پکڑتے ہیں؟ بےچاروں نے رزق کا پھندا لگایا ہوتا ہے، ہمارا کیا مقابلہ کریں گے۔ 

اب ممبئی کی سڑکیں تھیں، ہماری کار تھی اور پولیس کی دس گاڑیاں۔ مَیں نے چلتے ہوئے پوچھا، بھائی کیا لفڑا کرکے بھاگے ہوکہ اتنے غنڈے پیچھے لگالیے؟تحمّل سے بولا۔ سیٹھ بھیم داس کھتری کی تجوری لوٹی ہے۔ کھتری کے چاقو بھی لگ گیا ہے، اب برُا پھنسا ہوں، پکڑا گیا تو سیدھا پھانسی گھاٹ فلائی ہوگی۔ میرے تو ہوش کی ایسی تیسی پِھرگئی۔ بھیم داس کھتری کروڑوں کا مالک۔ پورے ممبئی میں اُس کے اُدھار سُود کا سکّہ چلتا تھا۔ اُس کی تجوری لُوٹنے کا مطلب تھا راتوں رات سیٹھ بن جانا۔ مَیں نےپوچھا۔ مگر تم تو خالی ہاتھ ہو؟ بولا۔ ابھی چندراکھیم کے پُل نیچے پھینک آیا ہوں۔ 

بس ایک دفعہ اِن لفنگوں سے جان چھڑوا دو، تمھیں مالامال کر دوں گا۔ مجھے غصّہ تو بہت آیا کہ یہ کون ہوتا ہے، ہم نوابوں کو مالا مال کرنے والا؟ مگر اُس کی ناسمجھی دیکھ کر غصّہ پی گیا، البتہ ریس پر پاؤں کا دباؤ مزید بڑھ گیا، جس کی وجہ سے کار اب چلتی نہ تھی، گویا اُڑتی تھی۔‘‘ اتنے میں ایک بکریوں کا ریوڑ سڑک سے گزرنے لگا اور شاہ محمّد کو گھوڑے کی لگام کھینچنا پڑی۔ اُس کے ساتھ اُس کی داستان بھی رُک گئی۔ 

وہ بدمزگی سے بولا۔ ’’یار! یہ ایالی لوگ بھی ناں! جہاں سے گزرتے ہیں، ہرچیز کا ناس پھیر دیتے ہیں۔ سڑکیں تو اِن کے باپ کی ہوتی ہیں، جو اپنے نام لکھوا لیتے ہیں۔ دیکھ، کس سُکون کا پا کاندھے پر رکھے اکڑتا جارہا ہے، جیسے نادر شاہ کا سالا ہو۔‘‘ ایالی کو آواز دیتے ہوئے بولا۔ ’’او بھائی! جلدی کر، گھوڑا بِدکتا ہے، بھیڑیوں کو جلدی ہانک لے، اُف خداوند! کیسا شیطانی آنت کا ریوڑ ہے؟‘‘ ایالی نے شاہ محمّد کی آواز سنی ہی نہیں، اُسی برُدباری سے سڑک کے درمیان چلتا رہا۔ 

شاہ محمّد پر یہ دورانیہ صدیوں پر محیط ہوگیا، مگر انتظار کے سوا کیا کرسکتا تھا؟ قصّہ سُننے کی بےچینی مجھے بھی تھی، لیکن میری طبیعت میں ذرا اطمینان تھا۔ خدا خدا کر کے تانگے کے گزرنے کا رستا بنا، تو شاہ محمّد نے شکر کا کلمہ پڑھا اور دوبارہ گھوڑے کو چابک دکھایا۔ گھوڑے نے چال پکڑی، تو مَیں نے کہا۔ ’’چاچا! پھر آگے کیا ہوا؟‘‘’’یار!اِس ایالی نے بات کا مزہ ہی ہوا کر دیا۔ خیر، تو بھائی! مَیں کہہ رہا تھا، مجھے اُس دمڑی گیر کی بات پر بہت غصّہ آیا، لیکن یہ سمجھ کر پی گیا کہ ناسمجھ ہے، جانے دو۔ 

گاڑی، پتا نہیں کتنے میل کی اسپیڈ پر تھی، میٹر کی سوئی پر تومَیں نے نظر نہ کی، البتہ پہیے کبھی زمین پر لگتے تھے، کبھی نہیں، عین اُسی لمحے ہمارے سامنے بہتّر انچ کے پہیوں والے دو ٹرک آگئے۔ ایک دائیں سے، ایک بائیں سے۔ اب کیا تھا، پیچھے پولیس، آگے دو ٹرک اور سڑک تنگ۔ 

مَیں نے کہا، لے بھئی، شاہ محمّد یہی وقت ہے عزت بچانے کا، اب پرائی مصیبت سر پرلی ہے تو اِسے بھگت اور کھیل جا جان پر۔ لو جی، مَیں نے فوراً ہی فیصلہ کیا۔ اُسے کہا، کاکا مضبوط ہوجا اور پُھرتی سے کار کو ایک ٹرک کے نیچے سے گزار کر سڑک کے دوسری طرف ہوگیا۔ 

’’ٹرک کے نیچے سے؟ چلتے ٹرک کے نیچے سے؟ اُف میرے اللہ!!‘‘مجھ پر گویا حیرانی کا دورہ پڑ گیا۔ ’’اگر کچلے جاتے تو پھر؟‘‘ ’’ہا ہا ہا ہا ہا… بیٹا! اِسی کا نام تو ہشیاری اور کاری گری ہے۔‘‘ شاہ محمّد نے سینہ فخر سے پُھلاتے ہوئے کہا۔ ’’اِن کاموں میں پلک جھپکنے کا احساس رکھنا پڑتا ہے، لمحے بھر کی غلطی ہوئی نہیں کہ بندہ اللہ ہُوہو جاتا ہے۔ 

بہرحال، آگے سُن، دیکھا تو آگے سڑک ہی نہیں تھی، لمبی اور گہری کھائی تھی۔ ہیلیا! یہاں بھی میری حاضر دماغی کام آئی۔ مَیں نے ایک منٹ کے ہزارویں حصّے میں ہینڈل کو دوسری طرف گھما دیا۔ بس یہ سمجھ لو، اُس وقت میری پُھرتی سلیمانؑ پیغمبر کے وزیر سے بھی زیادہ تھی۔ میری اِس تیزی سے یہ ہوا کہ گاڑی ایک طرف کے دو پہیوں پر ہوگئی۔ اب وہ کھائی سے تو بچ گئی لیکن اسکوٹر کی طرح دو پہیوں ہی پر دوڑتی گئی۔ 

بھائی! وہاں تو اچھا خاصا تماشا بن گیا۔ ممبئی کی خلقت بھاگ کر سڑک کنارے جمع ہوگئی۔ مَیں نے سوچا، ہماری تو جان پر بنی ہے اور اِنھیں دیکھنے کو کھیل مل گیا۔ اب گاڑی کی رفتار اتنی تھی کہ بے چارے میٹر کی سوئی کےبس سے باہر ہوگئی، اگر اُسی وقت چار پہیوں پر کرتا تو الٹ جاتی۔ مَیں نے سوچا، اِسے اِسی طرح جانے دو۔ وہ کم بخت ایک دفعہ بولا، بھائی! اِسے سیدھا کرلو، مرجائیں گے۔ 

مَیں نے فوراً ڈانٹ دیا، نالائق چُپ رہ، جس کام کا پتا نہیں، درمیان میں نہیں ٹوکتے۔ کارکو تین میل تک اِسی طرح دو پہیوں پر رکھا اور بھوت کی طرح نکل گیا۔ جوان! کیا زمانے تھے اور ایک یہ دن ہیں، ایالی رستہ نہیں دیتے۔‘‘ شاہ محمّد کی بات جاری تھی کہ گاؤں آگیا۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر بولا۔ ’’لے بھئی جوان! باقی قصّہ کل پر۔‘‘ مَیں چھلانگ مار کر تانگے سے نیچے اُتر گیا۔

یہ میرا مقامی شہر تھا۔ مَیں اسلامیہ ہائی اسکول میں چُھٹی کی گھنٹی بجتے ہی بھاگتا ہوا گیٹ سے باہر نکل آتا۔ یہاں سے پچاس قدم پر وینس چوک تھا، اُس سے گزر کر تانگوں والے اڈے پر آجاتا اور شاہ محمّد کے تانگے کی اگلی سیٹ پر جم کے بیٹھ جاتا۔ بعض دفعہ سواریاں کم ہونے کی وجہ سے مجھے اڈے پر کافی دیر بیٹھنا پڑتا۔ تانگوں والا اڈا چارکنال رقبے پر محیط اور سارا کا سارا مسقّف تھا۔ چھت لکڑی کے شہتیروں، آنکڑوں پر سرکنڈوں کی پرتلیں بچھا کر تیار کی گئی تھی اور سر سے ذرا ہی اونچی تھی۔ تانگے پر بیٹھا آدمی آسانی سے اُسے چُھولیتا۔ 

گرمیوں میں ستونوں کے ساتھ سُوئی بوریاں لٹکا کر اُن پر پانی چھڑک دیا جاتا کہ ہوا ٹھنڈی ہو کر گھوڑوں کو لگے۔ اِس کیفیت میں یہ ایک نہایت خاموش اور پُرسکون سرا معلوم ہوتی، جس میں کبھی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آجاتی یا چڑیوں کے پھڑپھڑانے کی سرسراہٹ،جب وہ گھونسلے سے نکل کر دوسرے شہتیر پر بیٹھتیں۔ وہاں تین چار ہوٹل بھی تھے۔ ہوٹل مالکان نے وی سی آر رکھے ہوئے تھے، جن پر انڈین اُردو اور پاکستانی پنجابی فلمیں چلتیں۔ کوچوان فرصت کے وقت یہیں پر تیز پتّی کی چائے پیتے اور ایک روپے کے ٹکٹ کے عوض فلمیں دیکھتے۔ 

یوں تو صفائی کا خیال رکھا جاتا، لیکن لید کی ہلکی بُواِس طرح اُن میں بسی تھی کہ عام آدمی کے فوراً ناک کو چڑھ جاتی، مگر کوچوانوں، ہوٹل والوں اور پڑوس کے رہائشیوں کے لیے اِسی لید کی بُو میں ذہنی آسودگی تھی۔ ہوٹل نیم اندھیرے میں ڈوبے، نہایت تنگ، نیچی چھتوں والی تھے۔ فرش، اڈے کی زمینی سطح سے دو دو فٹ نیچے اُتر چکے تھے۔ اُن کی دیواروں، چھتوں پردھویں کا گاڑھا پلستر اِس طرح چڑھا تھا کہ اب وہاں جیسی بھی روشنی کی جاتی، اندھی اندھی محسوس ہوتی۔ 

مٹّی کے تیل سے جلنے والے چولھوں کا دھواں ہرنئے دن اُس اندھیرے اورکالک میں اضافہ کر رہا تھا۔ دیواروں پر ہیما مالنی، نورجہاں، دلیپ کمار اور پتا نہیں کن کن اداکاروں کی تصویریں تھیں، جن کے اُوپر ذرا بلندی پر قرآنی آیات، عبدالقادرجیلانی اور دیگر ولیوں کے پوسٹر بھی آویزاں تھے، جنہیں دھویں نے کسی حد تک سیاہ کردیا تھا۔ ہوٹل کا مالک اُنھیں لگا کر بھول چُکا تھا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ کم ازکم مسلمان پوسٹرز ہی سے دھویں کی تہیں ہٹادے۔

سب کوچوان مضافاتی گاؤں سے سواریاں لا کر شہر میں چھوڑدیتے اورتانگا بھرنے تک وہیں رہتے۔ اڈے میں بیس پچیس تانگے ہروقت کھڑے رہتے اور گھوڑے تھان سے بندھے ہرا لوسرن یا دانہ کھانےمیں مگن۔ کچھ سائیں لوک گھوڑے سرنیچا کیے مراقبے میں رہتے، حتیٰ کہ کوچوان اُنھیں دوبارہ تانگے میں جوت دیتے۔ تھان کے ساتھ بیس فٹ لمبااورتین فٹ چوڑا پانی کا حوض بھی تھا، جس طرح کوچوان آپس میں واقف تھے، اِسی طرح گھوڑے بھی ایک دوسرے سے جان پہچان رکھتے تھے۔ 

جب ایک گھوڑا سواریاں لے کر رخصت ہوتا، توساتھ والا کنوتیاں اُٹھا کر مدھم سا ہنہناتا، جیسے الوداع کہہ رہا ہو۔ شاہ محمّد ہمارے گاؤں کا تھا۔ میرا اُس سے تعارف تب ہوا، جب چھٹی جماعت کے لیے مجھے مقامی شہر کے اسکول میں داخل کروایا گیا اوراُسی کے تانگے پر میرا آنا جانا ٹھہر گیا۔ اسکول جاتے اور وہاں سے شاہ محمّد کے ساتھ واپس آتے کئی مہینے ہو گئے تھے۔ اِس دوران اُس نے اپنی زندگی کےکئی ایسے واقعات سنائے، جو حیران کُن تھے۔

ہر واقعہ کسی بڑے شہر میں اُس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ وہ کب ان شہروں میں پھرتا رہا،اس سے سب ناواقف تھے۔ پچھلے پندرہ سال سے تووہ اِسی اڈے پر تانگا چلا رہا تھا، البتہ واقعات ایسی دل آویزی سے سُناتا کہ بات پر یقین کرتے ہی بنتی۔ شاہ محمّد بمبو کے ساتھ لگی اُس تختی پر بیٹھتا، جو ہر تانگے میں اسی مقصد کے لیے لگائی جاتی ہے۔ 

سیٹ پر اُسے کبھی کبھار ہی بیٹھنا نصیب ہوتا، لیکن مجھے اُس وقت شدید غصّہ آتا، جب سواریاں زیادہ ہوجانے کی وجہ سے وہ مجھے بچّہ سمجھ کر ہودے میں بٹھا دیتا مگر چند ہی لمحوں میں، جب وہ کہانی شروع کرتا، تو مجھے بےعزتی کا احساس نہ رہتا۔ 

یہ میرا شہر میں پہلا سال تھا،جو دوسرے سال کے آخر تک اسی دل فریب یک سانیت سے چلا۔ اِس عرصے میں مَیں نے اسکول سے بہت کم ناغے کیے۔ ایسا نہیں کہ پڑھائی کا بہت شوق تھا، بلکہ شاہ محمّد کی زبان سے قصّہ سننے کا ایسا لپکا پڑا کہ مَیں اگلی صبح کا بےچینی سے انتظار کرتا اور گھر والے سمجھتے مَیں پڑھاکو ہوچُکا ہوں۔

یہ قصّےکتابی نہیں تھے بلکہ ایسی ہڈبیتیاں تھیں، جو مختلف شہروں اور مُلکوں مُلکوں کی سیر کے دوران اُسی پرگزری تھیں۔ موقعے کا نقشہ ایسے کھینچتا کہ میری آنکھیں وہ منظر گویا سامنے دیکھ لیتیں۔ یوں مَیں اپنے بچپن ہی سے شاہ محّمد پر رشک کرتا، جو ایسے ایسے کرتب کرکے آج یہاں تانگا چلا رہا تھا۔ (جاری ہے)