• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(اخلاق احمد)

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

منظر نے جھنجھلا کرکہا۔’’یار! تُو تقریر کرلے پہلے…‘‘ ماسٹر نے گھبرا کر دونوں ہاتھ جوڑ دیئے۔ ’’اچھا، میرے باپ! اب نہیں بولوں گا۔ چل، آگے بتا۔‘‘ ’’وہ شادی کرنا چاہتی ہے۔ ’’منظر نےکہا۔ ’’ابھی بیس سال کی بھی نہیں ہوئی۔ ایک ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے اُس نے گھر میں۔ تین دن سے کسی سہیلی کے گھر پر ہے۔ مَیں چاہتا تھا کہ وہ گریجویشن کرے۔ پھرسال دوسال کےلیے انگلینڈ چلی جائے اور ماسٹرز کرے۔ مگر اُس کےدماغ پرشادی کا بھوت سوار ہے۔‘‘ماسٹر بالکل ساکت بیٹھا تھا۔ کسی پتھر کے بُت کی طرح۔ 

منظر نے کہا۔ ’’لڑکا اُس کا کلاس فیلو ہے۔ چُوڑی دار پاجامے جیسی پتلونیں پہنتا ہے، ہاتھوں میں رنگ برنگے کڑے، لپ اسٹک بھی لگاتا ہے، ایک دم زنانہ۔ فیملی بہت پیسے والی ہے۔ باپ نے پچیس سال پہلے لائٹ ہاؤس پر دکان کھولی تھی، سمجھ رہا ہےناں؟ لنڈا بازار میں۔ پرانے کپڑے بیچتا تھا۔ اب بھی یہی کام چل رہا ہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر۔ پورے پورے کنٹینر آتے ہیں، پرانے کپڑوں کے۔ اُدھر حاجی کیمپ میں ان کےدو بہت بڑے وئیر ہاؤس ہیں۔ سارے مال کی چھانٹی ہوتی ہے۔ 

خراب مال کراچی کی مارکیٹ میں۔ اور ستھرا مال جاتاہے بنکاک، ہانگ کانگ اور نہ جانےکہاں کہاں…‘‘ ماسٹر بدستور ساکت بیٹھا تھا۔ منظر نے کاؤنٹر کی جانب دیکھا اور اشارہ کیا۔ ذر اسی دیرمیں ایک بچّہ اُن کے سامنے دوکپ چائے پٹخ کر چلا گیا۔ ماسٹر بولا۔ ’’بس…یا ابھی باقی ہے اسٹوری۔‘‘ منظر نے گرم چائے کا گھونٹ بھر کر کہا۔ ’’تُو مجھے اچھی طرح جانتا ہےیار۔ 

مَیں کوئی تنگ دل، تنگ نظر باپ نہیں ہوں۔ مگر لبرل ہونے کی بھی حد ہوتی ہے۔ کوئی باپ اولاد کی… اور پھر بیٹی کی دھمکیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ مَیں نے کہہ دیا ہے کہ…‘‘ ماسٹر نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے روک دیا۔ ’’اسٹوری کو خواہ مخواہ پھیلانے کی کوشش نہ کر۔ 

مَیں سمجھ گیا ہوں تیری بات۔‘‘ منظر کو ماسٹر کا لہجہ کچھ عجیب سالگا۔ اُس کے چہرے پر سنجیدگی تھی، جوکرختگی محسوس ہوتی تھی۔ کچھ دیر خاموشی چھا ئی رہی۔ ماسٹر چھت کو دیکھتا رہا اور اپنی لمبی، سانولی انگلیوں سے میز بجاتا رہا۔ یوں جیسے کہیں دُور بجتی کوئی دُھن سن رہا ہو۔ مگر منظر جانتا تھا کہ وہ کسی سوچ میں غرق تھا۔ یہ اُس کا خاص انداز تھا۔

ہوٹل کے کچن سے ایک چھناکے کی آواز آئی۔ شاید برتن دھونے والے لڑکے نے کوئی کپ توڑ دیا تھا۔ کاؤنٹر پر بیٹھا ایوب کالا چلایا۔ ’’توڑ دے، سارے برتن توڑ دے۔ تیری ماں جہیز میں لائی تھی ناں۔ سب توڑ دے۔‘‘ ماسٹر جیسے کسی گہری نیند سے بےدار ہوگیا۔ اُس نےکہا۔ ’’دیکھ پیارے! کچھ باتیں تو تیری بالکل چریوں والی ہیں۔ لڑکا زنانہ ٹائپ ہے توکیاہوا، آج کل یہی چل رہا ہے۔ بالیاں پہنتے ہیں لڑکے۔ اور چوڑیوں جیسے کڑے اور ایک دم ٹائٹ قمیص۔ 

بیوٹی پارلر جاتے ہیں۔ ٹائم بدل گیا ہے میری جان۔ یاد ہے تجھے، ہم لوگ بیل باٹم پتلونیں پہنا کرتے تھے۔ چوبیس انچ کا پائنچا۔ سالی پتلون غرارہ لگتی تھی، لیکن ہم سارے شہرمیں اکڑکر پھرتے تھے۔ پھر جینز آگئی۔ اپن اُسی لائٹ ہاؤس سے خریدتے تھے۔ ہاتھ پیر پُھولے ہوئے ہوتے تھے کہ کوئی جاننے والا نہ دیکھ لے۔ تیرے ابا نے تو ایک دفعہ تیری جینز اور پرنٹڈ قمیصوں کوآگ بھی لگائی تھی…‘‘’’ہاں، ہاں، آگے بول۔‘‘

منظر نے کہا۔ ’’داستا نیں سُنانے بیٹھ جاتا ہے سالا۔‘‘ماسٹرہنسا۔ ’’بُرا لگ رہا ہے ناں؟ گُڈ بلکہ ویری گُڈ۔ دل خُوش ہوگیا۔ اچھا، دوسری بات یہ کہ اگر لڑکے کا باپ پہلے لنڈے کے کپڑے بیچتا تھا، تو کیا فرق پڑتا ہے، آج کروڑ پتی تو بن گیا ناں۔ تُو خود کیا تھا؟ تیرے گھر اتوار کے اتوار گوشت پکتا تھا۔ کالج میں تیرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ناولٹی سنیما میں سب سےاگلی سیٹوں پر بیٹھ کر فلمیں دیکھتا تھا تُو۔ یاد ہے ناں یا بھول گیا ہے؟‘‘

منظر خاموش بیٹھا اُسے دیکھتا رہا۔ ماسٹر نے اپنے بکھرے بال سنوارنے کی کوشش کی، گردن کھجائی اور بولا۔ ’’تُو نے بتایا نہیں، لیکن مَیں سمجھ گیاہوں کہ تُونے گھرمیں لفڑا کیا ہے۔ لفڑا سمجھتا ہے ناں؟اسٹوری تُو یہ سُنارہا ہے کہ گڑیا نے گھر میں ہنگامہ کر رکھا ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہنگامہ خُود تُو نےکیا ہے۔ ابے! تُو سمجھتا کیوں نہیں؟ وہاں نہیں چلتی یہ ماردھاڑ، چیخ پکار۔ یہاں کوارٹروں میں ٹھیک ہے۔‘‘منظر نے بے زاری سےکہا۔ ’’پھر…؟‘‘ ماسٹر نے ٹھنڈی ہو جانے والی چائے کاایک بڑا گھونٹ لیا اور بولا۔ ’’پھریہ کہ تجھے عقل سے کام لینا ہوگا۔ 

اب یہ مت پوچھنے بیٹھ جائیو کہ عقل کہاں سے آئے گی۔ دیکھ، گڑیا ابھی غصّے میں ہے اور ناسمجھ ہے۔ لیکن وہ جوان بھی ہے اور…اور بیٹی بھی۔ باپ کے لیے سب سےمشکل کام بیٹی کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ جانتا ہے کیوں؟ کیوں کہ بیٹی میں اُس کی جان ہوتی ہے۔ سالا اتنی محبّت کرتا ہے بیٹی سے کہ عقل سے بالکل پیدل ہوجاتا ہے۔ دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے، مگر بیٹی کی بات آجائے بیچ میں تو خچّر کی طرح ہنہنانے لگتا ہے،دولتیاں جھاڑنے لگتا ہے۔ سچّی بات بتاؤں، تیرا یہ جو چہرہ ہے ناں، تھوڑا تھوڑا خچّر جیسا ہوگیا ہے۔‘‘

منظر نے جسم وجاں کی پوری قوّت کے ساتھ پھٹ پڑنے کی خواہش پر قابو پایا اور کرسی سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھا رہا۔ ماسٹر کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے اِس سے اچھی تیکینک کوئی نہیں تھی۔ ماسٹر مُسکرایا۔ یوں، جیسے مقابلہ کرنے والےکسی اچھے کھلاڑی کو داد دے رہا ہو۔ پھربولا۔ ’’دوکام بتاتا ہوں تجھے۔ سمجھ لے، دو وارداتیں کرنی ہیں۔ پہلے ایک واردات، پھر دوسری۔ سمجھ رہاہے ناں؟‘‘ منظر نے سر ہلایا۔ ماسٹر نے کہا۔ ’’پہلی واردات تُو آج ہی کر ڈال۔ 

گھر جاکر بیوی سے کہہ کہ تجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ ایک دم دیوداس والی ایکٹنگ چاہیے، سمجھا؟ پھر بیوی کو ساتھ لے کر گڑیا کے پاس جا۔ آج رات ہونے سے پہلے پہلے گڑیا کو گھر میں ہو نا چاہیے۔ دونوں کو بتا دے، تجھے شادی پرکوئی اعتراض نہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ گڑیا شادی سے پہلے ماسٹرز کرے گی۔ بس، اِس چھوٹی سی شرط پر اَڑجا۔ جانتا ہے، کیافائدہ ہوگا اِس سے؟‘‘ ’’ہنگامہ دو تین سال کے لیے ٹل جائے گا۔‘‘ منظر نے سوچتے ہوئے کہا۔ ماسٹر ہنسا۔’’عقل کے گھوڑے، اِس سے بھی بڑا فائدہ ہوگا۔ دوتین سال میں گڑیا تھوڑی اور سمجھ دار ہوجائے گی۔ 

ظالم باپ کی مخالفت ختم ہوگی، تو وہ اپنی آنکھوں پر لگا ضد کا چشمہ اتاردے گی۔ جوانی میں سب اڑیل گھوڑے ہوتے ہیں میری جان۔ اپن بھی ایسے ہی تھے۔ سب ایسے ہی ہوتے ہیں اور دوتین سال میں تو دنیا بدل جاتی ہے۔ گڑیا پڑھے لکھے گی تو اُس کی آنکھیں کُھلیں گی۔ وہ بےشمار لوگوں سے ملے گی۔ سمجھ رہا ہے ناں؟ ابھی وہ بس اُس لونڈے کو دیکھ رہی ہے۔ تیراکام ہے اُسے دائیں، بائیں، اوپر، نیچے دیکھنے کے قابل بنانا۔ 

بغیر لفڑا کیے یہ سمجھانا کہ دنیا بہت بڑی ہے۔ تُوجانتا ہے ناں کہ ان کوارٹروں کے آگےبھی زندگی ہے۔ صاف ستھرے علاقے، بنگلے اور لشکارے مارتی گاڑیاں۔ اور اُن سے بھی آگے دبئی، امریکا ہے اور نہ جانے کیا کیا … یہ سب کیسے پتا چلا تجھے؟ تُو اِس کنویں سے نکلا تب ہی پتا چلا ناں۔ گڑیا بھی نکل جائے گی، اپنے کنویں سے، تھوڑا ٹائم دے اُسے۔ اور لسّی پینا شروع کر، تاکہ تیرے دماغ کی گرمی کم ہو، سمجھا؟‘‘منظرنےسرکھجا کرکہا۔ ’’ویسے میں خُود بھی یہی سوچ رہا تھا کہ…‘‘ماسٹر نے کہا ۔’’ابے تُو کیا، تیرا پورا خاندان یہ نہیں سوچ سکتا۔ ایک ایک کو جانتا ہوں میں۔‘‘

باہردھوپ ڈھلنی شروع ہوگئی تھی۔ منظر نے کہا۔ ’’ٹھیک کہہ رہا ہے تُو۔ مَیں کبھی بھی اس طرح نہیں سوچ سکتا تھا۔ آدمی اپنی زندگی کو، اپنے فیصلوں کو غیرجانب داری سے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ماسٹرنےایک اَنگڑائی لی، انگلیاں چٹخائیں اور بولا۔ ’’کیوں کہ تو ایک گھامڑ آدمی ہے، لہٰذا تُو کبھی نہیں پوچھے گا کہ پیارے بھائی، وہ دوسری واردات کیا تھی، لہٰذا مَیں خُود ہی بتادیتا ہوں تجھے۔ دوسری واردات یہ ہے کہ اگر دو تین سال بعد بھی گڑیا اپنے مطالبے پر قائم رہے اور وہ لونڈا بھی ڈٹا رہے تو تجھے وہ کرنا ہے جو ہرعقل مند باپ کرتا ہے، یعنی ان دونوں کی شادی!‘‘’’شادی؟‘‘منظر نےکہا۔ ’’مگر…‘‘ ’’ہاں بیٹا، شادی۔‘‘ 

ماسٹر نے کہا۔ ’’تین سال بعد تجھے پورا ڈراما کرنا ہوگا، اتنی خوشی کا اظہار کرنا ہوگا کہ سب حیران رہ جائیں۔ گڑیا بھی اورتیری بیوی بھی اور دونوں خاندان بھی۔ سمجھ رہا ہے ناں؟ کوئی پنگا نہیں کرنا ہے۔ پنگا کرے گا تو تیرا انجام وہی ہوگا، جو پشتو فلموں میں وِلن کا ہوتا ہے۔ باپ کو زندگانی ایسے ہی گزارنی ہوتی ہے شہزادے، ٹوپی ڈراما چلائے رکھنا ہوتا ہے۔ ٹوپی ڈراما سمجھتا ہے؟ اولاد کو خُوش رکھنا پڑتا ہے۔ ہروقت مسکرانا ہوتا ہے۔

اِکّا دُکّا کوششیں کرلیتا ہے آدمی اوربس۔ کوئی گڑیا سمجھ جاتی ہے، کوئی نہیں سمجھتی۔ سالا آدمی کیا کرسکتا ہے؟‘‘ منظر کے دل میں کچھ کہنے کی آرزو بہت شدید تھی، مگر اُس نے کچھ نہ کہا۔ اُسے محسوس ہورہا تھا کہ ماسٹر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ اندر بھڑکتی اشتعال کی آگ بالآخر بجھ جائے گی، تب شاید سب کچھ اُسی طرح ہوگا، جیسا صلاح الدین ایوبی ہوٹل میں گزرنے والی اس نرم، روپہلی دوپہر میں، اُس آشنا، جانے پہچانے ماحول اور پرانی یادوں کے رس میں لتھڑی اُس خوش گوار ملاقات میں اُنہوں نے سوچا تھا۔

……٭٭……

سات آٹھ ماہ بعد منظر نے پھر اُس دروازے پردستک دی۔ میلے، بدوضع پردے کی اوٹ میں چُھپے دروازے پر۔ کچھ دیر بعد اندر سے وہی کرخت آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘ ’’وہ…قیصر صاحب ہیں؟ مَیں منظر ہوں۔‘‘ تھوڑی دیرخاموشی چھائی رہی۔ منظر کسی بد تہذیبی کا انتظار کرتا رہا۔ اندر سے کچھ گھسیٹنے کی آوازیں آئیں۔ جیسے کوئی کرسی یا کوئی پلنگ کھسکایا جارہا ہو یا کچھ اور۔ منظر دل ہی دل میں مُسکرایا۔ ہوسکتا ہے بیوی نے ماسٹر کو باندھ کر ڈال دیا ہو… اور اَب اُسے گھسیٹ کر دروازے تک لارہی ہو۔ 

پھر کنڈی کُھلنے کی آواز آئی۔ اور اُس کے بعد دروازہ کُھل گیا! ماسٹر کی بیوی نے دروازے کی اوٹ سےکہا۔ ’’اندر آجاؤ…‘‘ایک لمحے کے لیے منظر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ’’اندر آجاؤ؟ کیا مطلب، اندر کیوں آجاؤ؟ کیا…کیا ماسٹر بیمار ہے؟‘‘ اَدھ کُھلے دروازے سے اُس نےماسٹر کی بیوی کو چادر سنبھالتے، چپلیں گھسیٹتے، اندر جاتے دیکھا۔ اندروہی بُوتھی۔ 

ہوا اور دھوپ سے محروم گھروں کی بُو۔ اور وہ بےترتیبی بھی، جس کی منظر کو توقع تھی۔ دیواروں اور چھت پرسفیدی کی پپڑیاں، جو رفتہ رفتہ ٹُوٹ کر گرنے کو تیار تھیں۔ منظر کسی مشینی آدمی کی طرح آہستہ آہستہ آگےچلتا گیا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم، ہر طرح کے احساس سے عاری۔ صحن کے بعد برآمدہ تھا، جہاں دو تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اور آگےدو کمرے، جو نیم تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ 

برآمدے کے کونے میں نل کے پاس میلے کپڑوں کا ڈھیر تھا۔ منظر آخری بار اِس گھر کے اندر اُس وقت آیا تھا، جب ماسٹر کی اماں کا جنازہ اُٹھایا جارہا تھا اور محلے کی عورتیں زاروقطار رو رہی تھیں۔ ’’قیصر…کہاں ہے؟‘‘منظر نے پوچھا اور اپنی آوازکی کپکپاہٹ پر حیران ہوا۔ ’’وہ چلا گیا…تمہارا ماسٹر…‘‘ماسٹر کی بیوی نے کہا۔ 

وہی کرخت آواز۔ اُس نے چادر کو یوں لپیٹ رکھاتھا کہ صرف اُس کا سانولا چہرہ نظر آتا تھا۔ ’’اَب تو چھے مہینے ہونے والے ہیں…‘‘’’کہاں چلا گیا؟‘‘ کسی اختیار کے بغیر منظر نے پوچھا۔ ماسٹرکی بیوی نے چِلّا کر کہا۔ ’’کہاں چلے جاتے ہیں لوگ…؟ وہیں چلا گیا ہے وہ…اتنی سیدھی سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟رانی کو مار کے چلا گیا ہے، لالوکھیت کی کسی قبر میں جا کے سوگیا ہے، کم بخت…‘‘وہ دھاڑیں مار مارکررونے لگی۔

منظر کو محسوس ہو رہا تھا کہ زمین شق ہوتی جارہی ہے اور وہ کرسی سمیت اندر دھنستا جارہا ہے۔ کوئی بھنور تھا، جو ایک جنونی رفتار سے اُسے گھمائے جا رہا تھا، گھمائے جارہا تھا۔ نہ جانے ماسٹر کی بیوی نے خُود پرکب قابو پایا تھا۔ نہ جانے وہ خُود سوچنے سمجھنے کے قابل کب ہوا تھا۔ 

منظر کو بس یہ یاد تھا کہ وہ ہلنے جُلنے کی قوّت سے محروم بدن کے ساتھ کرسی پر ترچھا پڑاہوا تھا اور اُس کا سرپھوڑے کی طرح دُکھ رہا تھا۔ ماسٹر کی بیوی چادر لپیٹے سامنے بیٹھی تھی، مگر اُس کی آواز جیسے کہیں بہت دُور سے آرہی تھی ۔’’مَیں نے اُس سے کہا تھا، رشتہ بُرا نہیں ہے۔ لڑکا درزی کے پاس کام کرتا ہے تو کیا ہوا، کل اپنی دکان کھول لے گا، پھر رانی کو بھی پسند تھا وہ لڑکا… مگر ماسٹر کہنے لگا۔ بی اے پاس بیٹی کو میٹرک پاس سے بیاہ دوں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ابھی جلدی کیا ہے… رانی کو ڈانٹا اُس نے …کہنے لگا، جس دن وہ اپنی دکان کھول لے گا، اُس دن بات کرنا، اُس سے پہلے نہیں۔

بات تو خیرٹھیک تھی۔ مَیں نے بھی اُس رات یہی سوچا تھا کہ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا، لیکن رانی نے کچھ اور ہی سوچ لیا تھا۔ مَیں فجر میں اُٹھی تو رانی…رانی کی لاش پنکھے سے لٹک رہی تھی اور …‘‘ وہ چادر میں منہ چُھپا کر پھر رونے لگی۔ منظر نے سرجھٹک کر دماغ پر چھائی دھند صاف کرنے کی کوشش کی۔ اُسے یہ سب کچھ غیرحقیقی لگ رہا تھا۔ جیسے ابھی آنکھ کُھل جائے گی۔ جیسے اَبھی ماسٹر کی بیوی، یہ بوسیدہ گھر اور یہ پورا نظارہ پلک جھپکتے میں غائب ہوجائے گا۔

ماسٹرکی بیوی نے خُود پر قابو پاکرکہا۔’’مَیں پاگلوں کی طرح پچھاڑیں کھارہی تھی، چِلّارہی تھی۔ میرے بیٹے کا بھی بُرا حال تھا، مگر وہ چُپ تھا…تمہارا ماسٹر…مَیں نے اُسے گالیاں دیں… گھرمیں لوگ بَھرے ہوئےتھے…مجھے عورتیں گھسیٹ کر دوسرے کمرے میں لے آئیں۔ پولیس آگئی تھی، محلے والوں نے ہی سب کچھ بُھگتا …‘‘آہستہ آہستہ منظر کے بدن میں دوڑتی سنسناہٹ کم ہوتی جارہی تھی۔ اعصاب قابو میں آرہے تھے،لیکن ایک تھکن تھی، جس نے اُسے بدستور جکڑ رکھا تھا۔ ماسٹر کی بیوی کے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں تھیں اور آنکھوں میں زندگی کی سب سے بڑی ہارکا اعتراف۔ ’’اور… ماسٹر …؟‘‘ منظر نے بے ارادہ پوچھا۔ 

ماسٹر کی بیوی ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’دودن رہ سکاوہ…مَیں بےغیرت تھی،جھیل گئی … مگر اُس کو بیٹی کا دُکھ ساتھ لے گیا۔ سانس کا اٹیک ہوگیا تھا اُسے۔ منہ کھول کھول کرسانس لیتا تھا اور سینے سے ایسی آوازیں آتی تھیں کہ بس… ڈاکٹروں نے ٹیکے بھی لگائے… دَم والا پانی بھی منگوایا مَیں نے… مگر حالت بگڑتی گئی۔ آخر میں تو دماغ پلٹ گیا تھا اُس کا…ہنسنے لگا تھا زور زور سے…چھت دیکھ کر کہنے لگا تھا، مولا! پہلی واردات ہی غلط ہوگئی… باربار کہتا رہا یہی…مَیں سمجھ گئی تھی کہ اَب وہ بچے گا نہیں۔ پھر وہ… پھر وہ…‘‘منظر اُس کی ہچکیاں سُنتا رہا اور خاموش بیٹھا رہا۔ اُس کی آنکھوں میں ماسٹر کا چہرہ تھا، دامن میں ہزاروں، لاکھوں یادیں اورسامنے برباد ہو جانے والا یہ گھر۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ 

پانچ، دس منٹ۔ یا آدھا گھنٹہ… ماسٹر کی بیوی نے چونک کر کہا۔ ’’معاف کرنا… مَیں چائے…‘‘ منظر نے ہاتھ کے اِشارے سے اُسے روک دیا۔ ’’نہیں…‘‘ ماسٹر کی بیوی نے کہا۔ ’’بیٹے نے فون کیا تھا تمہارے ہوٹل کے نمبر پر، سوئم کے بعد…مَیں نےہی ڈھونڈ کرنکالے تھے کچھ نمبر۔ وہ تمہارا بہت ذکر کرتا تھا… شاید تم تک خبر نہیں پہنچی…‘‘منظر اچانک اُٹھ کھڑا ہوا۔ ’’یہ کارڈ بیٹے کو دے دینا۔‘‘ منظر نے اپنا کارڈ بڑھایا۔ ’’کسی بھی دن آجائے، مجھ سے مل لے۔ مجھے آنے میں بہت دیر ہوگئی، مگر خیر… ٹھیک ہو جائے گا… سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

دُور سڑک پر کھڑی کار کے مؤدب ڈرائیور نے اُس کے لیے دروازہ کھولا۔ منظر نے کہا۔ ’’تم گاڑی لے جاؤ۔ مَیں آجاؤں گا۔‘‘ ڈرائیور کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ’’آپ کیسے آجائیں گے سر۔؟‘‘ منظر نے گرج کرکہا۔ ’’دفع ہوجاؤ… اِس گاڑی سمیت میری نظروں سے دُور ہوجاؤ۔‘‘ ڈرائیور ہڑبڑا کر کار میں بیٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے کار نظروں سے اُوجھل ہوگئی۔ منظر کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔ پھر اس نے جہانگیر روڈ کی طرف چلنا شروع کردیا۔ 

تھلّوں پر سیمنٹ کے بلاک بنانے والے مزدوروں اور انکوائری آفس کے درختوں تلے کھیلتے میلے کچیلے بچّوں اور مٹھائی کی دکان پر سیاہ تیل میں سموسے تلتے کاری گروں اور موتی مسجد میں داخل ہوتے متقّی نمازیوں میں سے کسی کو خبر نہ تھی کہ اُن کے درمیان سے ایک شکستہ شخص گزررہا ہے، جس کی آنکھوں سے آنسو آہستہ آہستہ بہتے جاتے ہیں اور جس کا دل دُکھ سے لبالب بھَرا ہوا ہے اور جس کا ماسٹر، اُس کے ساتھ ہاتھ کرگیا ہے۔