• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے یاسر سے کہا:’’بیٹے! تمہیں معلوم ہے جب ہم چھوٹے تھے اور وزیر آباد میں رہتے تھے تو ہمارے ہاں بجلی نہیں ہوتی تھی؟ ہم لالٹین جلا کر پڑھا کرتے تھے۔‘‘’’اچھا! آٹھ سالہ یاسر نے حیرت سے کہا‘‘۔ مگر ابو! یہ لالٹین کیا ہوتی ہے؟’’بیٹے! یہ کبھی ہوتی تھی، ان دنوں بڑے شہروں میں نہیں، قصبوں اور دیہات میں ہوتی ہے، تم اس کا ذکر چھوڑو، میں تمہیں ایک اور بات بتائوں اس زمانے میں ٹیلیوژن بھی نہیں ہوتا تھا۔‘‘’’اچھا! تو آپ شام کو کیا کیا کرتے تھے!!‘‘’’بہن بھائی آپس میں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے، کھیلا کرتے تھے، لڑا کرتے تھے اور سنو! اس زمانے میں ہمارےگھر میں ٹیلی فون بھی نہیں تھا اور ہاں ان دنوں یہ ٹھنڈے اور گرم پانی کے نلکے بھی نہیں تھے بلکہ گھروں میں ہینڈ پمپ ہوتا تھا، ہم پمپ ’’گیڑ ‘‘کر بالٹی میں پانی جمع کرتے تھے، اور پھر اس سے نہاتے تھے‘‘۔

’’ابو! یہ ہینڈپمپ کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’یہ بھی ایک چیز ہوتی تھی، آجکل بھی کچھ گھروں میں ہے تمہیں کسی روز دکھائوں گا۔‘‘’’ابو! اس زمانے میں اور کیا کیا نہیں ہوتا تھا؟‘‘’’بیٹے! یہ فلش سسٹم نہیں ہوتا تھا، ائیرکنڈیشنر بھی نہیں تھا، سیلنگ فین، پیڈسٹل فین بھی نہیں ہوتے تھے، ان کی جگہ لوگوں نے چھتوں کے ساتھ کپڑے کے پنکھے لٹکائے ہوتے تھے جنہیں رسی کے ساتھ کھینچا جاتا تھا اور ہاں یہ ریفریجریٹر بھی نہیں ہوتا تھا ہم گھڑے کا پانی پیا کرتے تھے جس پر گرمیوں میں موتیے کے ہار پڑے ہوتے تھے۔‘‘میرا خیال تھا کہ اب وہ پوچھے گا کہ یہ گھڑا کیا ہوتا ہے مگر میںنے محسوس کیا کہ وہ یہ سب کچھ سن کر پریشان سا ہوگیا تاہم تھوڑی دیر بعد اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری اور اس نے اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’شکر ہے اس زمانے میں میںپیدا نہیں ہوا تھا‘‘۔لیکن ائیرکنڈیشنر، بجلی کے قمقمے، ریفریجریٹر، موبائل فون ، ٹیلی فون، ٹیلی وژن اور اس طرح کی دیگر بے شمار سائنسی ایجادات اپنے ساتھ صرف آسائشیں ہی نہیں آہستہ آہستہ ایک نیا اخلاق اور معاشرتی نظام بھی لائی ہیں۔ سو ان لمحوں میں میں نے سوچا کہ کوئی پتہ نہیں آج سے سو پچاس سال بعد اس سرزمین پر کسی ’’یاسر‘‘ کی اپنے کسی ’’ڈیڈ‘‘ کے ساتھ کچھ اس قسم کی گفتگو ہورہی ہو!

’’بیٹے! ہمارے زمانے میں لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر سڑکوں پر نہیں پھرا کرتے تھے اور یوں کھلے بندوں ’’لپ سروس ‘‘lip servic کا مظاہرہ بھی نہیں ہوتا تھا۔‘‘’’تو آپ لوگ کیا کیا کرتے تھے؟‘‘’’بیٹے! ہمارے زمانے میں ملاقاتیں سیڑھیوں میں ہوا کرتی تھیں یا ہوٹلوں کے کیبنوں میں یا یونیورسٹی لائبریری میں۔ ہم جب باہرملتے تھے تو ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں تھے اور پھر ہمارے زمانے میں بوائے فرینڈ یاگرل فرینڈ نہیں صرف ’’کزن‘‘ ہوا کرتے تھے۔اور یہ جو لپ سروس ہے ہمارے زمانے میں سرعام نہیں ہوتی تھی سرعام تو اس کا مفہوم صرف ’’بول بچن‘‘کا تھا اس بول بچن کے ذریعے لوگ بڑے بڑے کام نکالتے تھے۔’’ڈیڈ! آپ کے زمانے میں تو پھر بلیوفلموں والے سینما بھی نہیں ہوتے ہوں گےجہاں صرف بلیو فلمیں دکھائی جاتی تھیں ۔’’نہیں بیٹے! کچھ سینما ایسے تھے مگر یہ درپردہ انتظامیہ سے چھپ کر یہ کام کرتے تھے وہ آٹھ روپے کا ٹکٹ بیس روپوں میں بیچتے تھے۔ پہلا آدھ پون گھنٹہ وہ سنسر بورڈ سے منظور شدہ اصل فلم دکھاتے جس کا اشتہار اخباروں میں شائع ہوا ہوتا، اسکے بعد وہ اندر سے دروازے اور باہر کا گیٹ بند کر کے صرف پانچ منٹ کیلئے ان بلیو فلموں کے ٹوٹے دکھاتے اور پھر قومی پرچم لہرا کر شو کے ختم ہونے کا اعلان کر دیتےتھے مگر ان سینمائوں میں صرف مرد آیا کرتے تھے، اور یا پھر جن لوگوں کے پاس وی سی آر ہوتا وہ کسی گھر میں فلم شو کا اہتمام کرتے اور وہاں سبھی شائقین جمع ہو جاتے تھے!‘‘’’ڈیڈ! یہ فیملی سسٹم کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’بیٹے! یہ کبھی ہوتا تھا، اس میں ایک باپ ہوتا تھا، ایک ماں ہوتی تھی، انکے بچے ہوتے اور یہ سب مل کر ایک گھر میں رہتے تھے اس فیملی سسٹم میں خالہ، پھوپھی، چچا اور دیگر رشتے دار بھی آتے تھے، یہ سب لوگ ایک دوسرے سے جھگڑتے بھی تھے مگر اسکے باوجود ان کی خوشیاں اور دکھ سانجھے ہوتے تھے کنبے کا سربراہ اس خاندان کا بزرگ ہوتا تھا اور سب اسکا احترام کرتے تھے۔‘‘’’ڈیڈ! آپ کے زمانے میں اولڈ پیپلز ہوم ہوتے تھے؟‘‘’’نہیں بیٹے!‘‘ ’’تو پھر آپ لوگ بوڑھوں کو کہاں جمع کراتے تھے؟‘‘’’ہم میں سے جو بوڑھے ہو جاتے تھے ہم انہیں اپنے گھروں میں ہی رکھتے تھے، انکی بہت دیکھ بھال کرتے تھے اور انکی دعائیں لیتے تھے۔‘‘ ’’ڈیڈ! یہ دعائیں کیا ہوتی ہیں؟‘‘’’بیٹے! یہ بھی کبھی ہوا کرتی تھیں، خیر چھوڑو! میں تمہیں ایک اور بات بتائوں ہمارے زمانے میں طلاقیں بہت کم ہوا کرتی تھیں، بچے اپنے گھروں میں پلتے تھے اور انکے ابو اور امی انہیں بہت پیار کرتے تھے، جن بچوں کو ہوٹلوں، سائیکلوں کی دکانوں، قالینوں کے کارخانوں اور ورکشاپوں وغیرہ میں کام کرنا پڑتا تھا انکے والدین اندر ہی اندر خون کے آنسو روتے تھے!‘‘

’’اس کا مطلب یہ ہوا ڈیڈ کہ آپ کے زمانے میں لڑکیاں اور لڑکے اپنے دوستوں کے ساتھ علیحدہ فلیٹس میں نہیں رہتے تھے۔‘‘’’بیٹے! میں نے تمہیں بتایاناکہ ہمارے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا، لڑکیاں شام کے بعد بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں اور لڑکے بھی اگر ذرا لیٹ ہو جاتے تو والدین پریشان ہو جاتے تھے۔‘‘’’تو ڈیڈ! گویا آپ لوگوں کے ہاں فرد کی آزادی کا کوئی تصور نہیں تھا، آپ کو بڈھوں کے چونچلے برداشت کرنا پڑتے تھے، شادی کے بعد مرد کو ساری عمر ایک عورت اور ایک عورت کو ساری عمر ایک مرد کے ساتھ گزارنا پڑتی تھی، کنبے کا سربراہ گاڈ فادر ہوتا تھا جو ہر ایک پر حکم چلاتا تھا۔‘‘’’نہیں بیٹے! ایسا نہیں تھا، تم اس سوسائٹی کو ......‘‘مگر وہ ’’یاسر‘‘ اپنے ’’ڈیڈ‘‘ کو ٹوک دیتا ہے اور سینےپر کراس کا نشان بناتے ہوئے کہتا ہے او جیزز! شکر ہے میں اس زمانے میں پیدا نہیں ہوا تھا!‘‘

تازہ ترین