• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلثوم پارس، کراچی

ماں اور باپ جیسے بےمثل، اَن مول رشتے گویا اللہ تعالی کے عطا کردہ گراں قدر انعامات،حسین ترین تحائف میں سے ہیں۔ دراصل ہمارا دینِ اسلام اس قدر جامع اور خُوب صُورت دین ہے کہ اُس نے ہر رشتے کےحقوق و فرائض اور مراتب متعین کر دیے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر جنّت ماں کے قدموں تلے رکھی گئی، تو باپ کو بہشت کا دروازہ قرار دیا گیا۔ 

اولاد کے لیے باپ کی محبّت و شفقت کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ باپ کا وجود ایک ایسے سائبان کی مانند ہے کہ جو خود پر زمانے کے سب گرم و سرد جھیل کر اولاد کو ہمیشہ تتّی دھوپ سے بچائے رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسے گھنیرے پیڑ کی مانند ہے کہ جو موسموں کی ساری سختیاں خُود پہ سہہ کے اپنے پھولوں، پھلوں کو گرم ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ ایک باپ بچّےکی پیدائش سے لے کراپنی موت تک ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ رہتا ہے۔ 

اپنی اولاد کی خوشیوں کی خاطر عُمر بھر اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا گلا گھونٹنا تو جیسے اس کی سرشت کا حصّہ بن جاتا ہے۔ روزی روٹی کے لیے صبح سویرے گھر سے نکلنے والا باپ عموماً جب تھکا ہارا گھر پہنچتا ہے، تواُس کی اولاد کوعلم بھی نہیں ہوتا کہ اُس نے اُن کے بہتر مستقبل کی خاطر دن بھر کتنی مشکلات اور تکالیف کا سامنا کیا، کیوں کہ وہ اپنےروزگار کی بھاگ دوڑ میں بھی اپنے بچّوں سے محبت وشفقت کرنا نہیں بھولتا۔ 

وہ زبان سے اظہار نہ بھی کرے، مگر اُس کا طرزِعمل چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے انتہائی مشفق و مہربان ہے ۔ سچ تو یہ ہےکہ دنیا کا ہر باپ ایک نہایت ’’شفیق باپ‘‘ ہے۔ بظاہر زندگی کےمصائب وآلام اُسے کچھ سخت جاں ضرور کردیتے ہیں، لیکن اولاد کےلیےاُس کا دل ہمیشہ نرم و گداز ہی رہتا ہے۔ 

خاص طور پر بیٹیاں تو اپنے باپوں کی کچھ زیادہ ہی چہیتیاں ہوتی ہیں، جب کہ بیٹوں کو باپ، اپنے مضبوط بازو تصوّر کرتے ہیں۔ باپ کی شفقت کی بہترین مثال ہمیں اپنے پیارے نبی حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے علاوہ بھلا اور کہاں مل سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چہیتی دُختر، بی بی فاطمتہ الزہراؓ کو اپنی لختِ جگر کہہ کر پکارتے تھے۔ اُن کی آمد پر ہمیشہ کھڑے ہو کر اُن کا استقبال فرماتے۔

دوسری جانب اگر ایک باپ اپنی اولاد پر کچھ سختی بھی کرتا ہے، تو اُس کامقصد اپنے بچّوں کو زمانے کےنشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ خُود ان حالات سے گزر کر ہی اس مقام تک پہنچا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اولاد کی پرورش کے حوالے سے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ، مگر دیکھو شیر کی آنکھ سے۔‘‘ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’اولاد کی تربیت کے لیے کوڑا ہمیشہ لٹکا کر رکھو۔‘‘ 

الحمدللہ، ہمارے مشرقی معاشرے میں اخلاقی اقدار و روایات تاحال برقرار ہیں۔ آج بھی ہمارے ہاں باپ کی موجودگی کو باعثِ رحمت و برکت سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی بیٹے اپنے باپ سے نظریں جُھکا کر بات کرتے ہیں، مگر مغرب بہت حد تک ایسی اخلاقی اقدار کھوچُکا ہے، تب ہی وہاں بیش تر بوڑھے والدین، اولڈ ہاؤسز میں اپنی زندگیوں کے آخری دن پورے کرتے نظر آتے ہیں۔ گرچہ آج کل سوشل میڈیا کا دوردورہ ہے۔ 

ہر دوسرا فرد موبائل فون ہاتھ میں تھامے آن لائن دُنیا میں گم نظر آتا ہے، پیسا کمانےکی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانا چاہتا ہے، مگر اس پُرفتن دَور میں بھی یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ جس باپ نے اپنے بچّوں کو حلال کا لقمہ کھلایا ہوتا ہے، اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ رشتوں کی بھی پہچان کروائی ہوتی ہے، اُس کے بچّے ضرور فرماں بردار، اطاعت گزار ہوتے ہیں ۔ نیز، اولاد کو بھی یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ’’جو باپ کا آج ہے، وہی بچّوں کا کل ہوگا۔‘‘

قرآنِ مجید میں ارشاد ہے کہ ’’تمہارے ماں باپ دونوں یا اُن میں سے کوئی ایک اگر بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو اُنہیں اُف تک نہ کہو۔‘‘ لہٰذا، ہمیں ہرحال میں اپنے والدین سے حُسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ باپ کی وہ محبّت و شفقت اور قربانیاں، جو اُس نےاپنی جوانی میں ہمارے لیے دی ہوتی ہیں، ہمیں بڑھاپے میں اُنہیں لوٹانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

کل جس طرح ہمارے باپوں نے ہمارے ناز نخرے اُٹھائے تھے، آج بالکل اُسی طرح اُن کے بوڑھا ہوجانے پر اُن کے نازبرداریوں کی ذمّے داری ہماری ہے، اور اِس سب کے باوجود ہم کسی صورت اُن کے بے پناہ احسانات کا بدلہ نہیں چُکا سکتے۔ 

فادرزڈے کے موقعے پر میری دلی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے سَروں پر ہمارے باپوں کا سایہ تادیر سلامت رکھے اور جن کے والد اس دُنیا سے رخصت ہوچُکے ہیں، اُنہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔