• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(علی اکبر ناطق)

تیسرے سال میرے پَر نکل گئے اور مَیں نے گھر میں سیاپا ڈال کے ایک سائیکل خرید لی، پھر میٹرک تک اُسی سائیکل پر رہا، جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ مَیں سارے شہر کی گلیاں ناپتا۔ خاص طور پر بہار کے دنوں میں سائیکل پر سوار ہو کر سڑک کے کنارے، درختوں کے سائے سائے پِھرنا مجھے جنّت کی سیر کے برابر لگتا۔ کمپنی باغ، پہلوانوں کا باغ، اسٹیڈیم اور دو آبہ نہر سے لےکر ہیرامنڈی کی سیر تک، سب کا کریڈٹ میری سائیکل کو جاتا ہے۔ اب میرا رُخ کبھی کبھار ہی تانگوں کے اڈے کی طرف ہوتا۔ 

ایک دفعہ گھر والوں نے کہا، چار پائیوں کا بان لیتےآنا، چناں چہ بان خریدنے لیے مجھے اُسی طرف آنا پڑا۔ ایک بار اپنے دادا کی حقّے کی چلم بھی یہیں سے خریدی۔ اگلے سال یعنی میٹرک پاس کرتے ہی مَیں نے گاؤں کو خیرباد کہہ دیا اور شہر میں دوستوں کے ساتھ رہنے لگا۔ سو، تانگے کے ساتھ وہ تعلق بھی ختم ہوگیا، جو گاؤں سے شہر آتے جاتے سائیکل کی دوڑ تانگے سے باندھ لیتا تھا۔ اگلے دو سال میں ایک دو دفعہ ہی شاہ محمّد سے آمنا سامنا ہوا۔

نئے دوستوں کی محفلوں میں یہ سال اتنی تیزی سے نکل گئے کہ مجھے خبر ہی نہ ہوئی، حتیٰ کہ مَیں نےایف اے کرلیا اور گریجویشن کے لیے لاہور چلا آیا۔ اب دو دو مہینے بعد گھر جاتا۔ اِس سفر میں شاہ محّمد کے تانگے کو کوئی دخل نہیں تھا، کیوں کہ گاؤں رابطہ سڑک سے تین میل ہٹ کے تھا اور اس رابطہ سڑک پر بہت زیادہ بسیں چلنا شروع ہوگئیں، جو پہلے دو تین ہی چلتی تھیں۔ یہاں بھی گاؤں کے کچھ تانگے کھڑے ہوتے، جو بس سے اُترنے والی سواریوں کو گاؤں لے جاتے۔ 

مَیں بھی اِنھی تانگوں کے ذریعے گاؤں جانے لگا۔ شاہ محمّد اس عرصے میرے منظر سے دُور رہا اور دو سال مزید گزر گئے۔ اگلی دفعہ گاؤں گیا تو بہار کے دن تھے۔ درختوں کی شاخوں پر ہری ہری کونپلیں تازگی بھررہی تھیں۔ اِس باردل میں خواہش جاگی، کیوں نہ آج شاہ محمّد کے ساتھ سفر کیا جائے۔ مَیں اپنے مقامی شہر سے گاؤں جانے کے لیے سیدھا تانگوں کے اڈے کی طرف چلا گیا، لیکن اڈے میں داخل ہوتے ہی مجھے ایک دھچکا سا لگا۔ وہاں چارچھے تانگوں کے سوا باقی سب رکشے تھے اور شور اتنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔

پھٹے سائلنسرز اور گڑگڑاتے انجنوں کے سبب اڈے کی چھت اُڑی جاتی تھی۔ اِس بے ہنگم مخلوق کے درمیان گھوڑے سہمے ہوئے تھے۔ ہر چیز تیزی سے بدل رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر دل بیٹھ سا گیا۔ مَیں کچھ دیر بدحواس کھڑا رہا، پھر ہمت کرکے آگے بڑھا، مجھے یقین تھا، شاہ محمّد ابھی یہیں ہوگا۔ مَیں اڈے کا جائزہ لینے لگا اور چند ثانیوں بعد ہی اُس کے تانگے پر نظر جا ٹھہری، جس کی ایک ایک پتری مجھے یاد تھی۔ اُس کی حالت کافی خراب ہوچُکی تھی، پھربھی پہچاننےمیں دِقت نہیں ہوئی، البتہ گھوڑا وہ نہیں تھا۔

تانگے کو دیکھ کر ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ مَیں سیدھا اُس ہوٹل کی طرف بڑھا جہاں میرے خیال میں اُسے ہونا چاہیے تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی شاہ محمّد کی نظر مجھ پر پڑگئی اور وہ اُٹھ کر مجھ سے لپٹ گیا، جیسے مدّتوں کا بچھڑا ہوا ساتھی ہو۔ ’’بھتیجے! دُور ہی نکل گئے ہو، کیا تم نے سمجھ لیا تھا، شاہ محمّد مرگیا؟ مان لیا، شہری بابو بن گئے ہو، پر بندہ حال چال ہی پوچھنے کو آجائے، آدمی کو اپنے زندہ ہونے کا احساس رہتا ہے۔ ہم بھی بڑے بڑے شہروں میں رہے ہیں، پر توُ تو پتّر منہ دکھانے سے بھی گیا۔ کئی بار سُنا کہ توُ گاؤں آیا اور بغیر مِلے چلا گیا۔ 

مَیں سوچتا تھا بھتیجا ایسا تو نہیں، پھر نہ جانے کیا بات ہے؟‘‘ شاہ محمّد بول رہا تھا اور مَیں شرمندگی سے پانی پانی ہورہا تھا۔ مَیں نے جان چُھڑانے کے لیے کہا۔ ’’چاچا! باقی شکوے بعد میں کرلینا، پہلے باہر نکل کے گھوڑے کے سازکس، تاکہ گاؤں چلیں۔ گِلے شکوے تانگے میں کریں گے۔‘‘’’چائے تو پی لے۔‘‘ شاہ محمّد نے چائے والے کو پکارا۔ ’’بھائی! ایک کڑک دودھ پتّی بنا دے، آج بڑی مدّت بعد بھتیجا اڈے پر آیا ہے۔‘‘’’نہیں چاچا! تجھے پتا ہے، مَیں چائے نہیں پیتا‘‘ مَیں نے منع کرتے ہوئے کہا۔ ’’اوبیٹھ جا پُتر۔‘‘

شاہ محمّد نے اس ملگجی روشنی میں مجھے زبردستی لکڑی کے بینچ پر بٹھاتے ہوئے ہوٹل والے کو دوبارہ آواز دی۔ ہوٹل کی حالت دیکھ کر مجھے ڈر ہوا، کہیں اِسے بھی گرا کر برابرنہ کر دیا جائے اور سب چھوٹے ہوٹلز کی جگہ ایک بڑا کنکریٹ کا پلازا نہ کھڑا ہوجائے، جس میں چائے کی جگہ کولڈ ڈرنک اور برگر بکنے لگیں اور اِن کچی پکی دھواں زدہ اساطیری دیواروں پر مذہبی اور فلمی پوسٹروں کی جگہ جدید پینا فلیکس نہ لےلیں۔ یہ خیال آتے ہی سر چکرانےلگا، مگر جلد ہی چائے کی نئی پیالی دیکھ کر اُس میں سے چسکی لی اور سب خیالات کو ایک دم جھٹک دیا۔

اڈے سے باہر نکلتے ہی شاہ محمّد نے دوبارہ شکایتیں شروع کردیں، جنھیں مَیں کچھ دیر سُنتا رہا آخر بولا۔ ’’چاچا! دنیا کے دھندوں میں وقت کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ بہت دفعہ آپ کی طرف آنے کا ارادہ باندھا، مگر وقت نہیں ملا۔ آج سوچا، کچھ بھی ہوجائے، چاچے شاہ محمّد کے ساتھ ہی جاؤں گا۔ بہرحال، تانگے کی بتا، کیسا چل رہا ہے؟ مَیں تو اڈے کی حالت دیکھ کر پریشان سا ہوگیا ہوں۔‘‘’’بیٹے! کیا پوچھتے ہو اڈے کا؟‘‘ شاہ محمّد کا لہجہ اچانک افسردہ ہوگیا، خدا غارت کرے اِن پھٹ پھٹیوں کو۔ اڈا تو ایک طرف، اِنھوں نے پورے شہر کا ناس ماردیا۔ اللہ جانے کس شیطان نے پہلے پہل اسکوٹر کے پیچھے لوہے کا پیپا باندھ کر اِس چڑیل کو بنایا تھا۔ اب جدھر دیکھو، یہی شیطانی ڈبّادڑ دڑاتا پھرتا ہے۔

اس کی وجہ سے قسم لے لو، میرے کان اب بالکل بہرے ہوگئے، کچھ سنائی نہیں دیتا۔ تیل اور دھویں کی بدبو ایک طرف، کلیجے پر بھی کالک کی تہیں چڑھ گئیں، ان کی وجہ سے پورے شہر پر۔ وہ جوکالی دیوی کے بارے میں سنتے تھے، اُس کا سایا پِھر گیا ہے۔ صفائی اور سکون تو غارت ہوا سو ہوا، جان کا خطرہ الگ سے ہے۔‘‘ ’’جان کا اِس میں کیا خطرہ ہے؟‘‘مَیں نے شاہ محمّد کو مزید ہلایا۔ ’’لو بھئی، تم جیسے اَن جان ہو؟‘‘ شاہ محمّد نے اب کے مزے لیتے ہوئے بات شروع کی۔ ’’روز اِن کے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ بندہ اچھا بھلا گھر سے نکلا، لیکن ملا اسپتال سے۔ سبب پوچھو، تو اسکوٹر، رکشے کا نام لے کر چُپ ہوجاتا ہے۔ 

ابھی جاکے دیکھو، بڑے اسپتال میں آدھے اِسی بلا کے مارے پڑے ہیں۔ حکومت کی پٹیاں کم پڑگئیں اور ہڈی جوڑ ڈاکٹروں کی چاندی ہوگئی۔‘‘ ’’اتنے ایکسیڈنٹ کیسے ہوتے ہیں؟‘‘ مَیں نے شاہ محمّد کی بات ہنسی میں اُڑانی چاہی۔ شاہ محمّد فلسفیانہ انداز میں بولا۔ ’’وجہ اِس کی یہ ہے کہ جسے ڈھنگ سے سائیکل نہیں چلانی آتی، اُس نے یہ بیماری خریدی اور لگا سواریوں کی قسمت جلانے۔ کسی کا ٹائر کُھل گیا، کسی کا زنجیر ٹوٹا اور پڑا سڑک کےبیچ بکھرکے۔ اکثر تو ان کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے میرا اپنا گھوڑا بدک گیا۔ اب تو کم بخت اسکول سے بھاگے ہوئے بارہ تیرہ سال کےچھوکروں نےبھی،یہ پھٹ پھٹیے جوت لیے۔

ایک وہ دن تھے، جب ہم لاہور میں ہوتے تھے اور ہمارے پاس ہنڈا اسکوٹر تھا، جسے جہاز سے شرط باندھ کر چلاتے تھے، تو دس دس کاروں کے اُوپر سے نکال لے جاتے تھے۔ یوں جیسے ہوائی میزائل اُڑتا جارہا ہو۔‘‘ شاہ محمّد نے پرُانی عادت کے موافق داستان کا پہلو نکال ہی لیا۔’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے تجسّس ظاہر کیا۔ تانگا اب شہر سے نکل کر کُھلی سڑک پر رواں ہوچُکا تھا۔ شاہ محمّد نے گھوڑے کو ایک چھانٹا دکھایا اور بات شروع کردی۔ ’’ایک دن مَیں اسکوٹر ہی پر تھا۔ 

اسکوٹر بھی نیانکور، زیرو میٹر، بس ہاتھ کے اشارے سے اُڑتا۔ مَیں رواروی میں جارہا تھا کہ سامنے سے دس بارہ لڑکے اسکوٹر دوڑاتے آئے اور اگلے پہیے ہَوا میں اُٹھاتے ہوئے زنازن کرکے پاس سے نکل گئے۔ مجھے لگا، لڑکے مجھے چھیڑ کے نکلے ہیں۔ بس اُسی وقت میرا بھی میٹرگھوم گیا اور مَیں نے کہا، لے بھئی شاہ محمّد توُ بھی دکھادے اِن کو اپنے جلوے۔ میں نے اُسی وقت اسکوٹر واپس پھیرا اور پل کی پل میں لڑکوں کو جا لیا اور للکارا۔ لو بھئی، اگر تم میں سےکسی میں ہمّت ہے، تو آئے میرے برابر۔ بس پھر اُسی وقت دوڑیں لگ گئیں اور اسکوٹر ہوا سے کھیلنے لگے۔ 

وہ بھی پورے کمینے تھے، مجھے اِدھر اُدھر سے کٹیں مارنے لگے۔ کوئی آگے سے، کوئی پیچھےسے۔ وہ تو چاہتے تھے اپنی بےعزتی کا بدلہ لیں۔ اِدھر میں بھی اُن سے بچتا ہوا تیزی سے کٹیں مارتا جاتا تھا۔ بس یہ سمجھو ہم اُس وقت ہوش میں نہیں تھے۔ راہ گیرکی کیا حیثیت، ہمارے آگے بیل آجاتا تو مارا جاتا۔ 

اس شیطانی دوڑ کی وجہ سے ایک ہی دفعہ پورے فیروز پور روڈ کی ٹریفک کناروں سے لگ گئی اور لوگ سُکڑے سہمے فٹ پاتھوں پر چڑھ گئے، کچھ دیواروں سے چپک گئے، مجھے اُن کی حالت پر ہنسی بھی آرہی تھی، مَیں کبھی اگلا پہیا ہوا میں اُٹھا دیتا اور کبھی پچھلا اُٹھا کر دوڑتا، عجیب مداری پن پر اُترآیا تھا۔

اِسی بھاگم بھاگ میں اچانک مسلم ٹاؤن کی نہر آگئی۔ اب خدا کا کرنا ایسا کہ اُس کا پُل بن رہا تھا، جس کی وجہ سے کئی مشینیں اور مزدور سڑک روکے کھڑے تھے۔ مزدور تو ہمیں دیکھ کر بھاگ نکلے، پر مشینیں کدھر جاتیں؟ اُنھیں دیکھ کر سب لڑکوں نے اسکوٹر روک لیے، لیکن مَیں نےدل میں کہا، شاہ محمّد تیرا یہاں رکنا توہین ہے۔ 

بس پھرمَیں نے ایک دم اسکوٹر کو دائیں ہاتھ پھیر کے جو ریس دبائی، اسکوٹر نہر کے اوپر سے اُڑتا ہوا نکل گیا۔ اُڑتے ہوئے مَیں ہاتھ ہلاکر اُنھیں اشارے کرتا گیا کہ بیٹا! اب آؤ، اگر جراَت ہے۔ بس مَیں نکل گیا اور وہ بےچارے اپنا منہ بغلوں میں چُھپا کر وہیں رہ گئے اور اب ایک یہ رکشے والے ہیں،جو گدھی ریڑھی چلانے کے لائق بھی نہیں لیکن میرے گھوڑے کو بدکانے سے باز نہیں آتے۔

بس میاں، قیامت کے دن قریب آگئے۔‘‘ اگر ان کے اتنے ہی ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں تو سواریاں ان کے ساتھ بیٹھتی کیوں ہیں؟‘‘مَیں نے پوچھا۔ ’’میاں نئے زمانے کو عقل ہوتی تو یہ اسکوٹر کے پیچھے ڈبا باندھتی؟‘‘ شاہ محمّد نے کہا۔ ’’بھائی! اگر جاپان والے آکر دیکھیں کہ اِن لفنگوں نے اُن کے اسکوٹروں کا کیا حال کیا ہے، تو خدا کی قسم انھیں ضرورعدالت میں گھسیٹیں اور عمر قید کی سزا دِلوا کے رہیں۔ اب بتاؤ، یہ کوئی انصاف ہے، جو چیز ایک بندے کے لیے بنائی گئی، اُس پربیس لوگ چڑھا دو۔

بس اِس ملک کی ہوا ہی الٹی ہے اور لوگ بس گھاس کھاتے ہیں۔‘‘’’یہ تو چاچا! بڑی خطرناک بات ہے۔ کیا تم سب کوچوانوں نے احتجاج نہیں کیا اِن رکشوں کے خلاف؟‘‘ مَیں نے تشویش ظاہر کی۔’’ایسا نہ ہو، کل کلاں یہ سارے اڈے ہی پر قابض ہوجائیں۔ اِنھیں چاہیے تھا، اپنے پھٹ پھٹیوں کے لیے دوسری جگہ اڈا بناتے۔‘‘ ’’لو، جوان کیسی باتیں کرتے ہو؟ اوّل تو کئی کو چوانوں نے گھوڑے بیچ کریہی خرید لیے۔ اب وہ اپنے ہی خلاف احتجاج کیسے کریں۔ دوم، جو رہی سہاگن اُسی کا پاؤں بھاری۔ سواریاں اب تانگوں کی طرف منہ پھیر کربھی نہیں دیکھتیں۔

جس کی وجہ سے ہمارا زور ٹوٹتا جارہا ہے اور نوبت یہ آگئی کہ ہفتہ پہلے کمیٹی والوں نے اُلٹا کو چوانوں کو دو مہینے کا نوٹس بھیج دیا ہے کہ تانگے اڈے میں زیادہ جگہ گھیرتے ہیں اور لید کی بُو بھی آتی ہے۔ اڈا رکشے والوں کو الاٹ کردیا گیا ہے، اس لیے اپنا ٹھکانا ڈھونڈو۔ گھوڑوں کے پانی کا حوض چھے مہینے ہوئے پاٹ دیا تھا۔ اب یہاں تانگے والے تو چھے آٹھ ہی رہ گئے۔ ہم اِس نوٹس کو لے کر ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس گئے مگر انھوں نے صاف دھوکر جواب دیا۔ کہا، مَیں کمیٹی کے کام میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ اب بندہ پوچھے، تُو دخل نہیں دے گا پھر کون دے گا۔ مَیں نے تو وہیں کہہ دیا۔ 

کمشنر صاحب! اگر تیرا بابا ٹانگا چلاتا ہوتا، پھر مَیں دیکھتا تُو ہمارے خلاف کیسے فیصلہ دیتا ہے۔ ہمیں پکی خبرہے، اُس نے کمیٹی والوں سے حرام کھا لیا ہوگا۔‘‘’’پھر؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’پھر ہم اللہ کو سونپ کرآگئے۔‘‘ ’’تو اب کیا ہوگا؟‘‘ مَیں نے تاسف سے پوچھا۔’’ہونا کیا ہے، مَیں نے توسوچا ہے، دو مہینے بعد تانگا شہر لانے کے بجائے’’بتی موڑ‘‘ہی پر چلاؤں گا۔ وہاں ابھی تانگوں کا راج ہے۔‘‘ ’’لیکن وہاں بھی دو اسکوٹر رکشے آگئے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔’’آ تو گئے ہیں، لیکن دیکھی جائے گی۔‘‘ شاہ محمّد نے گویا ایک حل نکال لیا تھا۔

اس کے بعد مَیں پھر لاہور آگیا اور تین چار مہینوں بعد ہی گاؤں جانے لگا۔ اِس عرصے میں میری ہر دفعہ شاہ محمّد سے ملاقات ہوجاتی۔ وہ اپنا تانگا شہر سے اُٹھا کر بتی موڑ کے اڈے پر لے آیا تھا۔ اِس اڈے پر کمائی کم تھی، لیکن سواریاں بہرحال مل جاتیں اور دو سال تک حالات پرُسکون رہے، لیکن کب تک؟ آہستہ آہستہ یہاں بھی اسکوٹر رکشوں کا چلن عام ہوگیا اور شاہ محمّد کا تانگا بےکار رہنے لگا۔ مَیں جب بھی گاؤں جاتا، اُسی کا تانگا سالم کرالیتا لیکن میرے اکیلے سے اُس کی کیا کمائی ہوتی۔ 

دو سال اس طرح مزید چلے، پھر جو ایک دن مَیں’’بتی موڑ‘‘ پہنچا تو دیکھا، شاہ محمّد بھی ایک رکشے پر بیٹھا سواریوں کا انتظار کررہا تھا۔ مَیں حیران ہوا اور ایک گونا سکون بھی ہوا کہ چلو اچھا ہوا، اِسے سواریاں تو ملیں گی۔ سیدھا اُسی کے رکشے کی طرف بڑھا۔ اُس نے بھی مجھے دیکھ کر اسکوٹر اسٹارٹ کردیا۔ ایک دو رکشے والوں نے مجھے ہلکی سی تنبیہ کی۔ ’’بھائی جان! ہمارے ساتھ آجائیں، اِسے رکشا چلانا نہیں آتا۔‘‘ لیکن مَیں اُنھیں نظر انداز کر کے شاہ محمّد کے رکشے پر بیٹھ گیا اور رکشا چل پڑا۔ 

شاہ محمّد کا دل باتیں کرنے کو بہت کرتا تھا، مگر رکشے کا شور اتنا تھا کہ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی خموشی سے سفر کرنا پڑا۔ اس سفر میں مَیں نے یہ بھی اندازہ لگالیا کہ رکشے والے ٹھیک ہی کہتے تھے۔ شاہ محمّد کے ہاتھوں سے رکشا ایک طرف نکل نکل جاتا اور کئی دفعہ سڑک سے گہرےکھڈمیں گرتے گرتے بچا۔ مَیں پورے رستے دُعائیں پڑھتا رہا اور دل میں آیندہ کے لیے اُس کے ساتھ بیٹھنے سے توبہ کرلی۔

اس کے بعد مَیں نےسُنا کہ اُس کارکشا دو مہینے کے دوران ہی پورا ہوگیا۔ اتنے ایکسیڈنٹ ہوئے کہ پہیے، گراریاں، چین، ہینڈل غرض ہر چیز کا ستیاناس پھرگیا۔ اِس عرصے میں کئی سواریاں بھی پھڑکیں، لوگوں نے اُس کے رکشے پر بیٹھنے سے توبہ کر لی۔ ویسے بھی اُس کا اسکوٹر رکشا کسی کام کا نہیں رہ گیا تھا اور نہ ہی اب اُس کی عُمر اسکوٹر رکشا چلانے کی تھی۔ مَیں اگلی دفعہ گاؤں آیا تو شاہ محمّد گاؤں میں داخل ہوتے ہی جو پہلا ہوٹل پڑتا ہے، وہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ مَیں کچھ دیر کے لیے اُس کے پاس بیٹھ گیا۔ مجھےلگا، وہ بہت بوڑھا ہو گیا ہے۔ 

عُمر تو کچھ ساٹھ سے تھوڑی اوپر تھی لیکن اتنا کم زور پہلے نہیں لگتا تھا۔ رنگ زرد اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یقین نہیں آرہا تھا، یہ وہی شاہ محمّد ہے، جو کچھ عرصہ پہلے ہٹا کٹا، زندگی سے بھرپور تھا۔ ایسی گری ہوئی صحت دیکھ کر مَیں نے پوچھا۔ ’’چاچا! آپ کی صحت کو کیا ہوگیا؟‘‘ شاہ محمّد نے چائے کے کپ سے نظریں ہٹائیں اور بولا۔ ’’مجھے پتا تھا تُو یہی پوچھے گا، پر کچھ باتوں کاجواب نہ بھی دیا جائے تو یاربیلی سمجھ لیتےہیں۔‘‘ ’’پھر بھی کچھ تو پتا چلے۔‘‘ حالات کی ٹوہ لیتے ہوئے دوبارہ پوچھ لیا۔ ’’بھتیجے! چھوڑ اِن باتوں کو۔‘‘ شاہ محمّد ٹھنڈی آہ لے کر بولا۔’’ہمارے روگ تجھے سمجھ نہیں آسکتے۔ یہ صحت تواُسی دن خراب ہوگئی تھی، جس دن گھوڑا بیچ کے لوہے کا جہنمی پھٹ پھٹیا خریدا تھا۔ 

وہ تو خیر ہوئی تانگے کا کوئی خریدنے والا نہیں تھا۔ اگر یہ نشانی بھی بک جاتی تو شاہ محمّد اتنی دیرنہ چلتا۔ خیر تُو اپنی سُنا تیرا نوکری کا دھندا تو ٹھیک چل رہا ہے؟‘‘’’جب رکشا لے ہی لیا تھا تو بیچا کیوں؟ اچھی بھلی روزی روٹی چل رہی تھی۔‘‘ کہنے لگا۔ ’’بیٹے! کیا بولوں، تجھے تو پتا ہے، ساری عُمر ٹھاٹ سے رہے۔

تانگے پر بیٹھتا تھا تواُس کا ساڑھے پانچ فٹ کا پہیا زمین سے اِتنا اونچا ہوتا کہ پیدل لوگ چھوٹے چھوٹے لگتے۔ تانگے کے بمبو پر بیٹھتے ہی قد بڑھ جاتا۔ تانگا نوابوں کی سواری ہے۔ لوگوں کے اصرار پرمَیں نے اسکوٹر رکشا خرید تو لیا لیکن جب اِس کےڈیڑھ فٹ پہیے والی پھٹ پھٹی پربیٹھتا توایسےلگتا، زمین کے ساتھ گھسٹتا جارہا ہوں۔ 

شرم کے مارے ڈوبنےکو جگہ نہ ملتی اور سوچتا، شاہ محمّد ایسے رزق سے تو موت اچھی ہے۔ آخر اونے پونے بیچ کر اس ذلت پر لعنت بھیجی۔‘‘ مجھے شاہ محمّد کی بات پر ہنسی آگئی لیکن دبا گیا۔ سچ تو یہ تھا کہ اب اُس کی عُمر رکشا چلانے کی رہی نہیں تھی اور نہ عُمر بھر اُس نے ان چیزوں کو چھوا تھا، مگر شاہ محمّد کا یہ عذر مجھے اچھا لگا۔ آہستہ سے کچھ پیسے نکال کراُس کی جیب میں ڈال دیے اور گھر چلا آیا۔ یہ میری اُس سےآخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد میں کافی عرصے کے لیے مُلک سے باہر چلا گیا اور جب آیا، وہ دنیا سے جاچُکا تھا۔

گاؤں میں داخل ہونے کے بعد میرے قدم خود بخود اُس کے گھر کی طرف اُٹھ گئے اور جلد ہی وہاں جاکھڑا ہوا۔ آج اُسے فوت ہوئے پندرہ سال ہوچُکے ہیں۔ مَیں اُس کے زمین بوس ہوئے کچے گھر کے سامنے سُوکھے کیکر سے لگے اُس تانگے کو دیکھ رہا ہوں، جس کے بمبو آدھے رہ گئے ہیں، پہیوں کو دیمک کھا چُکی ہے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کرزمین میں دھنس چُکے ہیں۔ 

سیٹیں اور لکڑی کی تختیاں کوئی نکال کے لے گیا ہے۔ وہ تانگا ایک ایسا بدحال ڈھانچا ہے، جس کا نہ کوچوان موجود ہے اور نہ اُسے کھینچنے والا گھوڑا۔ مَیں نے آنکھیں بند کرلیں۔ مَیں نے دیکھا، مَیں اسکول سے نکل کرسیدھا اڈے کی طرف بھاگا اور شاہ محمّد کے تانگے پر چڑھ کے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد شاہ محمّد نے گھوڑے کو چابک لگائی، تانگے کو گاؤں جانے والی سڑک پر چڑھایا اور ایک نئی کہانی شروع کردی۔