زمین ہمارا ٹھکانہ ہے، جہاں ہم اپنے لیے گھر بناتے ہیں، معاشی جدوجہد کرتے ہیں اور سماج میں اپنا مقام بنانے کی کاوشیں کرتے ہیں، مگر یہ زمین ہمارے لیے کبھی نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے، اِس کا ادراک اُن لوگوں کے لیے بہت ضروری ہے، جو ایسے خطّوں کے باسی ہیں، جہاں قدرتی آفات کثرت سے آتی ہیں، جیسے کہ زلزلے۔ دراصل، کسی بھی قدرتی یا غیر قدرتی عمل سے زمین میں پیدا ہونے والا ارتعاش، زلزلہ کہلاتا ہے۔ اِس ضمن میں اہم سوالات یہ ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں اور کِن جگہوں پر آتے ہیں؟
زمین کے اندر بے پناہ توانائی موجود ہے، جب یہ ارتکاز کسی ایک جگہ ہو جائے اور وہ کسی کم زور جگہ سے نکلنے کی کوشش کرے، تو گرمی(heat energy) پیدا ہوتی ہے، جو اوپر زمین میں موجود چٹانیں توڑنے کی کوشش کرتی ہے اور زیادہ توانائی اِس کاوش میں ضائع ہو جاتی ہے، جب کہ بچ جانے والی توانائی میں سے کچھ اُن لہروں کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو زمین کی سطح سے جا ٹکراتی ہیں۔
ایسی لہروں کو’’زلزلیاتی لہریں‘‘ کہتے ہیں۔ دنیا کے بے شمار علاقے ایسے ہیں، جہاں سال بَھر معمولی جھٹکوں سے لے کر زلزلے کے شدید جھٹکے تک محسوس ہوتے رہتے ہیں، خصوصاً اُن علاقوں میں، جہاں دو ٹیکٹونک پلیٹس آپس میں ملتی اور ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں یا آپس میں متوازی رگڑ کھاتی ہیں۔ زمین کی کئی تہیں ہیں۔ ہم جس اوپری تہہ پر چلتے ہیں، اسے ’’کرسٹ‘‘ کہتے ہیں اور اس کی موٹائی20 سے70 کلومیٹر تک ہے۔
یعنی کہیں کم، تو کہیں زیادہ۔ مزید گہرائی میں یہ حالت تبدیل ہو جاتی ہے۔زمین کی دوسری تہہ مینٹل کہلاتی ہے، جو 70 سے 2900 کلومیٹر تک ہوتی ہے۔ مینٹل زمین کا سب سے موٹا حصّہ ہے، جو زیادہ تر ٹھوس، مگر جزوی طور پر پلاسٹک کی طرح لچک دار ہے۔ اس کے بعد زمین کا وہ حصّہ شروع ہوتا ہے، جسےکور(Core )کہتے ہیں، جو دو حصّوں میں تقسیم ہیں۔
ایک حصّہ مائع شکل میں ہے، جب کہ سب سے نچلا حصّہ ٹھوس حالت میں ہے۔ ہماری زمین کا اوپر ی حصّہ، یعنی کرسٹ ، مینٹل پر تیر رہا ہے۔ زمین کا اوپری حصّہ مختلف پلیٹس کی شکل میں ہے۔ یہ ایک مستقل پلیٹ نہیں، بلکہ 15چھوٹی، بڑی پلیٹس پر مشتمل ہے، جو آپس میں ٹکراتی ہیں اور ایک دوسرے سے پیوستہ رہ کے رگڑ کھاتی ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے خطّے زلزلوں سے اچھی طرح آشنا ہیں۔1935 ء کا کوئٹہ کا زلزلہ ہو یا28 نومبر1945 ء کی بحیرۂ عرب میں آتش فشانی، جس کے نتیجے میں زلزلے اور بلند سمندری لہروں نے مکران(بلوچستان)کے ساحل پر خوف ناک تباہی مچائی اور چار ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ کسی حد تک کراچی شہر بھی متاثر ہوا۔ منوڑا اور کیپ مونز کے لائٹ ہاؤس متاثر ہوئے، جب کہ کراچی کی بندرگاہ کو معمولی نقصان پہنچا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ خطرات ٹل گئے ہیں؟ کیا کراچی میں بڑے زلزلے آ سکتے ہیں؟ کیا سونامی، کراچی کے لیے ایک بُری خبر ہے؟ اِن سولات کا مختصر جواب یہ ہے کہ کراچی اِن دونوں خطرات سے محفوظ نہیں۔ حال ہی میں تواتر سے چھوٹے زلزلوں کا مشاہدہ کیا گیا، جن سے کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا۔80 سال پہلے سونامی نے کراچی کو متاثر کیا، اس کے بعد سے خاموشی ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقّی کے باوجود زلزلوں کے آنے کا وقت اور اُن کی شدّت بتانا ممکن نہیں۔ دو سے چار مئی2025کے دَوران کراچی شہر کے اطراف میں10زلزلے ریکارڈ کیے گئے، جن کی ریکٹر اسکیل پر شدّت2.5سے3.2 کے درمیان تھی، جب کہ ان کی گہرائی10 سے40 کلومیٹر تھی۔
اس کے بعد بھی کئی روز تک شہر میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے رہے۔ کم شدّت کے زلزلوں کے جھٹکوں نے کراچی کے مشرقی اور جنوبی حصّوں کے باشندوں کو شدید خوف وہراس میں مبتلا کیا، مگر کہیں سے بھی کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
یہ زلزلے، سونامی اور آتش فشاں جیسے قدرتی عوامل کیوں کر وقوع پزیر ہوتے ہیں اور ان سے ہماری آبادیوں اور معیشت کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جس طرح ہم موسم کا حال بتاتے ہیں کہ درجۂ حرارت کتنا ہوگا اور بارش کے کیا امکانات ہیں، تو کیا ہم زلزلوں کی بھی قبل از وقت اطلاع دے سکتے ہیں؟یہ سوالات ہر ذہن میں گردش کرتے ہیں۔
پاکستان کا مشرقی حصّہ، انڈین پلیٹ پر واقع ہے، جو شمال اور مغرب میں یوریشین پلیٹ سے، جب کہ جنوب مغرب میں عریبین پلیٹ سے ٹکراتی ہے۔ جن خطّوں میں یہ پلیٹس ٹکراتی ہیں، وہ تمام اور اس سے ملحقہ علاقے زلزلوں کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی ٹوٹی ہوئی زمین کی سطحیں ہیں، جنہیں ہم’’فالٹ‘‘ کہتے ہیں۔
یہ فالٹ لائنز یا تو زمین پر پہاڑوں کی شکل میں موجود ہیں یا پھر زیرِ زمین دفن ہیں، جنہیں ہم آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، مگر سائسمک(seismic) ڈیٹا پر انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔زمین میں قوّت کا بڑا خزانہ موجود ہے، جسے انرجی کہا جاتا ہے اور جب یہ قوّت زمین کی گہرائیوں میں پیدا ہوتی ہے، تو ایسے کم زور خطّوں کو چھیڑنا شروع کردیتی ہے، جہاں پہلے سے فالٹ موجود ہو، پلیٹ باؤنڈری ہو یا پھر زمین طبعی اعتبار سے کم زور ہو، جو لہریں اِس قوّت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، اُنہیں’’زلزلیاتی لہریں‘‘ کہتے ہیں اور یہی زلزلوں کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا، وہ تمام خطّے، جو اِس قسم کی پلیٹ باؤنڈریز کے نزدیک یا فالٹ لائن پر موجود ہیں، وہاں زلزلوں کا خطرہ رہتا ہے۔
قلّات، کوئٹہ، مکران، شمالی علاقہ جات، اسلام آباد، ایبٹ آباد، بالاکوٹ، مظفّر آباد، کیر تھر اور کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے یہ سب ایسے ہی فالٹ کے خطّے ہیں، جہاں زلزلیاتی لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔ زلزلہ پیدا ہونے کی گہرائی اور اس جگہ سے زمین کے درمیان چٹانوں کی ساخت بھی زلزلے کی شدّت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یعنی ایسی کوئی جگہ، جہاں چٹانیں زیادہ کثیف ہوں اور اُن کی موٹائی زیادہ ہو، وہ زلزلیاتی لہریں روکنے میں معاون ہوتی ہے، بہ نسبت ان خطّوں کے، جہاں چٹانیں کم کثیف ہوں اور اُن کی موٹائی بھی کم ہو۔
اب ذرا ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کراچی شہر ارضیاتی طور پر کہاں واقع ہے، آس پاس کے خطّے زلزلوں کے آنے میں معاون ہیں یا یہ رکاوٹ پیدا کرتے ہیں؟ کراچی سے تقریباً600 کلومیٹر مغرب میں یوریشین اور انڈین پلیٹ کی باؤنڈری لائن ہے، جسے’’چمن فالٹ‘‘ کہتے ہیں اور اس پر زلزلے آتے رہتے ہیں، کیوں کہ اِس باؤنڈری لائن پر، جو شمالاً جنوباً ہے، اکثر حرکت رہتی ہے۔
اِسی طرح بلوچستان کے ساحل پر واقع پسنی، گوادر سے تقریباً100کلومیٹر جنوب میں، بحیرۂ عرب میں وہ خطّہ ہے، جہاں عریبین پلیٹ، یوریشین پلیٹ کو دھکیل رہی ہے، جسے’’مکران سبڈکشن زون‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زلزلے اور سونامی کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔
کراچی کے مشرق سے پاک،بھارت سرحد کے ساتھ ایسے فالٹ موجود ہیں، جو مشرق سے مغرب کی طرف چلتے ہیں، جس کے کراچی شہر کے نیچے سے گزرنے کے شواہد ملتے ہیں، اسے’’اللہ بند فالٹ‘‘ کہتے ہیں۔ اِس فالٹ پر کسی قسم کی حرکت زلزلوں کا باعث بن سکتی ہے، جب کہ کراچی سے جنوب، مغرب میں 300سے چار سو کلومیٹر مغرب میں وہ مقام ہے، جہاں انڈین پلیٹ، یوریشین پلیٹ اور عریبین پلیٹ آپس میں ملتی ہیں، ایک دوسرے سے متوازی سمت میں رگڑ کھاتی ہیں اور ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں۔
اِس خطّے کو ارضیاتی اصطلاح میں’’ٹرپل جنکشن‘‘ کہتے ہیں۔ زلزلہ پیدا کرنے میں اِس ٹرپل جنکشن کا بھی کردار ہے، جہاں سے زیرِ سمندر زلزلے پیدا ہوسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کے جنوب مغرب، مغرب اور مشرق میں ایسی فالٹ لائنز یا پلیٹ باؤنڈریز موجود ہیں، جن میں جب بھی حرکت ہو، کراچی زلزلوں کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
سائنس اپنی تمام تر ترقّی کے باوجود ابھی تک اِس قابل نہیں ہو سکی کہ زلزلوں کے وقت اور شدّت کا تعیّن کرسکے، مگر اِن خطّوں میں واقع شہروں میں، جہاں یہ خطرہ منڈلا رہا ہے، زلزلوں اور سونامی سے نمٹنے کی تیاری تو کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی ممکنہ قدرتی آفت میں عوام النّاس کو بروقت امداد دی جا سکے اور جس حد تک ممکن ہو، اُن کی جان اور املاک بچائی جا سکیں۔اِس ضمن میں نہ صرف حکومتی سطح ، بلکہ عوامی سطح پر بھی بھرپور آگاہی ہونی چاہیے کہ ایسی کسی آفت کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔
زلزلوں کی پیمائش کے پیمانے ایک سے زیادہ موجود ہیں، مگر عام طور پر میڈیا میں زلزلوں کی شدّت کے لیے ریکٹر اسکیل کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس میں ایک سے 10 تک زلزلے کی شدّت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ یہ اسکیل لاگرتمک ہوتا ہے، جس میں ریکٹر اسکیل چھے کا زلزلہ، پانچ کے مقابلے میں10 گنا زیادہ شدید ہے۔کراچی میں48 گھنٹے کے اندر 10بار زلزلے آنے کے بڑے خطرے کی ممکنہ پیشگی اطلاع ہو سکتی ہے۔
یہی وہ وقت ہے کہ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ25 ملین آبادی کا شہر کسی قدرتی آفت کی زَد میں آجائے، تو ہم اُس سے کس طرح نمٹیں گے؟ کیا ہمارے پاس ایسے مواقع کے لیے ضروری وسائل اور معلومات موجود ہیں؟1995 ء میں جاپان کے علاقے، ہانشنگ میں جو زلزلہ آیا، اُس نے جاپان کے بلڈنگ اور انجینئرنگ قوانین کی کم زوریاں فاش کر دیں۔یہ زلزلہ کوبے شہر میں آیا تھا، جس میں4,571 اموات ہوئیں، جب کہ 14 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
اس زلزلے میں جاپان کے کم زور انفرا اسٹرکچر کی نشان دہی ہوئی اور یہ ثابت ہوا کہ اب تک جو بھی تدابیر کی گئیں، وہ زلزلوں سے بچاؤ کے لیے ناکافی نکلیں۔ مگر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ بے شمار عمارتیں اور سڑکیں محض اِس وجہ سے بچ گئیں کہ جاپان میں قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوتا تھا۔
البتہ زیادہ تر نقصان پرانی عمارتوں اور لکڑی سے بنے گھروں کو پہنچا۔ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گیا اور یہ بھی کُھل کر سامنے آیا کہ حکومت اِس قسم کی کسی بڑی آفت سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھی، لہٰذا مزید غور و خوض، مناسب منصوبہ بندی اور قانون سازی کے بعد جاپان انجینئرنگ قوانین میں تبدیلیاں لایا۔
اِس پس منظر میں ہمارے ماہرینِ ارضیات کی بھی ذمّے داری ہے کہ حالیہ زلزلوں کے سلسلے کے ڈیٹا کی مکمل جانچ اور تجزیے کے بعد، کراچی شہر کے اُن خطّوں کی نشان دہی کریں،جو زلزلے کی ممکنہ زد میں ہیں۔ ان علاقوں کی خطرے کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے، خاص طور پر اُن آبادیوں پر توجّہ دی جائے، جو سب سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔ اِن خطّوں سے متعلق مکمل آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ کُل آبادی کا تخمینہ لگانے کے ساتھ، گھروں کی تعداد، تعمیری معیار اور سڑکوں کی صُورتِ حال کا بھی جائزہ لیا جائے۔
نیز، اگر چھے یا اس سے زیادہ شدّت کا زلزلہ آئے، تو ممکنہ نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے سیمیولیشن اور ماڈلنگ کی جائے، جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کتنی آبادی متاثر ہوگی اور طبّی سہولتوں(اسپتالوں، ایمبولینسز اور ریسکیو وسائل) کی دست یابی کی صُورتِ حال کیا ہے۔ عوامی آگاہی اور اسپتالوں، سِول ڈیفینس، فلاحی اداروں کی تربیت کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
اگر متعلقہ حکومتی و بلدیاتی اداروں کے پاس زلزلے یا سونامی کی صُورت میں امداد کا کوئی نظام موجود ہے، تو اسے مزید بہتر بنایا جائے۔ اگر ایسا کوئی نظام موجود نہیں، تو پھر یہ صُورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ حالیہ زلزلوں کی سیریز کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ممکن ہے، قدرت کسی آنے والی بڑی آفت سے آگاہ کر رہی ہو اور ہمیں جھنجھوڑ کر کہہ رہی ہو کہ’’یہی تیاری کا وقت ہے۔‘‘
دنیا کے ایسے ممالک، جہاں زلزلے تواتر سے آتے ہیں، جیسے چین، تُرکیہ اور جاپان، ماضی میں زلزلوں کی وجہ سے شدید نقصان اُٹھاتے رہے ہیں۔ جو خطّے زلزلوں سے زیادہ متاثر ہیں، وہاں ہم زلزلوں کی پیش گوئی تو نہیں کرسکتے، مگر ہمارے پاس یہ اختیار تو ہے کہ شہروں کی بہترین منصوبہ بندی کرسکیں۔ اِس ضمن میں قانون سازی کی جائے اور پھر اُن قوانین پر سختی سے عمل بھی کروایا جائے۔ ہر عمارت پر لازم ہو کہ وہ متعلقہ اتھارٹی سے’’محفوظ عمارت‘‘ کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔
ایسے علاقوں میں بننے والی عمارتیں زلزلے میں پیدا ہونے والے زمین کے ارتعاش کو زیادہ سے زیادہ سہار سکیں، عمارتوں کی بنیادوں میں ایسا میٹیریل لگایا جائے، جو زمین کی افقی حرکات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ زلزلے کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کی یہ اوّلین اور مناسب تدبیر ہے۔ سِول انفرا اسٹرکچر سے متعلق قانون بنا لینا اور اس کے بعد عمل درآمد سے گریز، دراصل ایک بڑے انسانی المیے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ (مضمون نگار، ممتاز ماہرِ ارضیات ہیں، گزشتہ36 برسوں سے مُلکی و غیر مُلکی اداروں سے وابستہ چلے آ رہے ہیں اور اپنے شعبے میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔)