یہ قریباً چالیس سال قبل کا واقعہ ہے لیکن مجھے بھولتا نہیں ہے۔فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف ایک نوجوان تھا’’سر میرا نام افضال ہے میں بی اے کا طالبعلم ہوں اور اب اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے ہاکر کا کام کرتا ہوں۔ میں اس وقت سخت پریشان ہوں، غم اور غصے کی شدت سے میرے دماغ کی نسیں پھٹنے والی ہیں۔ آپ میری مدد کریں‘‘۔اگرچہ یہ نوجوان میرے لئے اجنبی تھا لیکن انسانی ہمدردی کے ناطے مجھے اس کی حالت سے سخت تشویش لاحق ہوئی۔’’ کیا بات ہے بیٹے میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں‘‘۔ میں نے پوچھا۔’’سر مجھے بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے لیکن آپ کو یہ سب کچھ بتانا بھی ضروری ہے۔ نہیں تو میں پاگل ہوجائوں گا‘‘۔’’میں تمہارا دوست ہوں تم بغیر کسی جھجک کے ساری بات بتائو‘‘۔ میں نے اسے تسلی دی۔’’سربات یہ ہے کہ آج میں نے ٹی وی آن کیا تو سی این این پر ایک انگریزی فلم چل رہی تھی۔ اس وقت میرے پاس میری بہن، میری والدہ اور میرے والد صاحب بیٹھے تھے پھر سریوں ہوا کہ اچانک ایک عریاں سین چلنا شروع ہوگیا۔ اس قدر واہیات کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے‘‘۔اس میں ہیروئن کاندھے پر تولیہ رکھے واش روم میں داخل ہوتی ہے اور پھر اپنے سارے کپڑے اتار کر بالکل عریاں ہو جاتی ہے۔’’سر مجھے اسی بات کا تو صدمہ ہے‘‘ پھر اس نے سین کی جو تفصیل بتائی اس کے مطابق یہ کوئی نارمل فلم نہیں بلیو فلم تھی۔
’’میرے لئے تمہاری بات پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے بیٹے ایسا ہونہیں سکتا‘‘۔’’سر میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا۔ یہ فلم آج رات کو ڈیڑھ بجے پھر دکھائی جائے گی۔ آپ ضرور دیکھیں اور اس کے خلاف لکھیں!سرمیں ٹی وی اسٹیشن کو بم سے اڑا دینا چاہتا ہوں سر، اگر آپ نے اس فلم کے خلاف اپنے کالم میں احتجاج نہ کیا تو میں اپنے اس ارادے کو عملی جامہ ضرور پہنائوں گا‘‘۔
میں اس نوجوان کی باتوں سے پریشان ہوگیا تھا، تاہم میں نے کہا’’میں فلم دیکھنے کے بعد ہی اس فلم کےبارے میں کوئی رائے دے سکتا ہوں‘‘۔
میں رات کو کافی دیر سے سونے کا عادی ہوں مگر اتفاق سے اس روز مجھے بارہ بجے ہی نیندآ گئی اور میں سوگیا۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے اس نوجوان سے فلم دیکھنے کا وعدہ کیا تھا۔
رات کو ٹھیک سوابجے فون کی گھنٹی بجی میں آنکھیں ملتا ہوا فون کے پاس گیا۔ دوسری طرف وہی نوجوان تھا’’سر تھوڑی دیر بعد فلم چلنے والی ہے آپ ضرور دیکھیں اور پھر اس پر لکھیں، اگر آپ نے اس سلسلے میں کچھ نہ کیا تو میں خواہ کچھ بھی ہوجائے ٹی وی اسٹیشن کو بم سے اڑادوں گا سر! میں اس سے پہلے ایک سینما میں دھماکہ کر چکا ہوں، لہٰذا آپ میری بات کو دھمکی نہ سمجھیں۔ اب فحاشی کی وبا ٹی وی تک آپہنچی ہے ہم سب کو یہ سلسلہ یہیں روکنا ہوگا سر‘‘۔
یہ جیمز بانڈ ٹائپ فلم تھی میں جب آدھی کے قریب فلم دیکھ چکا تو میں نے محسوس کیا کہ اس میں تو سرے سے کوئی قابل اعتراض منظر نہیں ہے بلکہ جو مناظر سینما میں دکھائے جاتے ہیں یہاں ٹی وی کی پالیسی کے مطابق وہ منظر بھی حذف کردئیے گئے تھے۔ مجھے اس نوجوان پر سخت غصہ آیا، اس نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا دوسرے ہی لمحے مجھے اس کے لہجے کی سنگینی یاد آئی اور میں سوچ میں پڑگیا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔اتنے میں ایک دفعہ پھر فون کی گھنٹی بجی۔ یہ وہی نوجوان تھا ’’سر! آپ مجھے کوس رہے ہوں گے کہ اس فلم میں تو ایسی ویسی کوئی بات نہیں لیکن وہ سین اب آنے و الا ہے۔ فلم کی ہیروئن ابھی غسل خانے میں داخل ہوگی اور غسل کرے گی آپ پلیز ٹی وی بند نہ کریں صرف یہ سین دیکھ لیں تاکہ آپ کو یقین آجائے کہ میں نے جو کہا تھا سچ کہا تھا‘‘۔
میں نے ایک دفعہ پھر ٹی وی پر اپنی نظریں گاڑدیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سین آگیا۔ فلم کی ہیروئن مکمل لباس میں ملبوس غسل خانے میں داخل ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سین یہاں ختم ہوجاتا ہے اور پھر اس سے اگلا کوئی سین چلنے لگتا ہے۔میں نے سوچا اگر یہ نوجوان مجھے اس وقت مل جائے تو میں اس کی گردن دبا دوں جس نے میری نیند خراب کی ا ور میرے ساتھ اتنا بدمزہ مذاق کیا۔میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی ’سر آپ نے دیکھا کس قدر شرمناک منظر تھا؟کیا ٹی وی حکام کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں؟ کیا نوجوانوں کے اخلاق پر اسی طرح ڈاکہ ڈالا جاتا رہے گا؟ کیا فحاشی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا؟‘‘ اور پھر یہ سب کچھ کہتے کہتے اس نوجوان کی آواز بھراگئی۔’’سر کچھ کریں خدا کے لئے کچھ کریں‘‘۔تھوڑی دیر پہلے مجھے اس نوجوان پر جو غصہ آیا تھا وہ ایک دم ختم ہوگیا اور مجھے ایک بار پھر اس کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوگئی۔میں نے کہا’’بیٹے تم نے جس سین کی بابت مجھے بتایا تھا وہ تو اس میں تھا ہی نہیں تم کس بات پر اتنے پریشان ہورہے ہو‘‘۔’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سر میں نے ابھی ابھی وہ سین خود دیکھا ہے آپ کو نظر نہیں آیا؟‘‘اس کے لہجے میں شایدحیرت تھی۔ ’’نہیں بیٹے مجھے صرف وہی سین نظر آیا جو فلم میں تھا‘‘۔’’تو کیا میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں سر!‘‘وہ سخت پریشان لگ رہا تھا۔میں اس نوجوان کا مسئلہ سمجھ گیا تھا۔
’’تم غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے بیٹے، مجھے وہ سین نظر آیا جو فلم میں تھا اور تمہیں وہ سین نظر آیا جو تم دیکھنا چاہتے تھے یہ سین پہلے تم نے لاشعوری طور پر ذہن میں سوچا اور پھر تمہاری آنکھوں نے اسے دیکھا نفسیات کی زبان میں اسے ہیلوسی نیشن کہتے ہیں‘‘۔’’تو کیا میں نفسیاتی مریض ہوں سر!‘‘۔اس کی آواز کانپ رہی تھی۔’’ہاں مگر تم اکیلے نہیں ہو، ہماری پوری قوم مختلف محرومیوں کی وجہ سے شاید نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوچکی ہے۔ ہمیں ہر تصویر وہی تصویر نظر آتی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے رویوں میں منافقت آ گئی ہےہم اکیلے میں کچھ اور ہوتے ہیں اور ایک دوسرے شخص کی موجودگی میں کچھ اور۔ ہم میں سے ہر شخص نہایت اعلیٰ درجے کی اخلاقی گفتگو کرتا ہے لیکن جتنے ہولناک جنسی رویے ہمارے اس اخلاقی معاشرے میںہوتے ہیں وہ اخلاق باختہ معاشروں میں بھی نہیں ہوتے۔ میں تمہاری ذہنی حالت سے واقف ہوں یہ تشویشناک ضرور ہے لیکن اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تمہاری حالت اس شخص کی سی ہے جو کئی دنوں سے بھوکا ہو اور اس کے چاروں طرف بھوک بڑھانے والے کھانوں کی خوشبو پھیلی ہو۔میں تو آپ کی باتوں سے پریشان ہوگیا ہوں سر کیا اس فلم میں وہ سین واقعی نہیں تھا۔ مجھے مشورہ دیں سر مجھے کیا کرنا چاہئے؟تمہیں یہ نظام تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔جس میں بچیاں جہیز کی وجہ سے اور بچے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے انتظار میں جوانی کی حدیںبغیر جیون ساتھی کے عبور کر جاتے ہیں اور پھر اس دور کی محرومیاں شادی کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور سوچوں میں زہر گھولتی رہتی ہیں۔ جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک میں کیا کروں سر؟‘‘۔نوجوان نے روہانسی آواز میں پوچھا۔’’تزکیہ نفس کے لئے کوئی وظیفہ وغیرہ کیا کرو میرے بیٹے‘‘ اور پھر میں نے فون بند کردیا۔ اس کے بعد دیر تک فون کی گھنٹی بجتی رہی مگر میں اپنے کانوں میں روئی دے کر بستر پر جاکر لیٹ گیااور بے چینی سے کروٹیں لینے لگا۔