• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران اسرائیل جنگ کے عالمی سطح پر ممکنہ انتہائی ہولناک اور تباہ کن نتائج کا اِدراک پوری دنیا سمیت امریکہ اور برطانیہ جیسے اُن ملکوں کو بھی ہوجانا جو چند روز پہلے تک خود میدان جنگ میں کودنے کیلئے تیار تھے، یقینا عالمی امن کے حوالے سے امید افزا پیش رفت ہے۔ اس امر کے واضح مظاہر گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ اظہار خیال اور جنیوا میں تین یورپی ممالک اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی چاہتے ہیں اور اس بارے میں ایران سے بات کریں گے ۔ تاہم انہوں نے ایران کی اس شرط کی تکمیل کو مشکل قرار دیا کہ مذاکرات کے آغاز سے پہلے اسرائیل کو ایران پر حملے بند کرنے پر تیار کیا جائے ۔ دوسری جانب گزشتہ روز ہی جنیوا میں ایران اور یورپی ممالک کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا، یہ ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد تہران اور مغربی ممالک کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ تھا جس میں برطانیہ، جرمنی، فرانس اور ایران کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی،یورپی ممالک اور ایران نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ۔یہ واقعاتی حقیقت بہت اہم ہے کہ صدر ٹرمپ نے، جو ایران پر امریکہ کی جانب سے فوری حملے کی وارننگ دے رہے تھے، پاکستان کے آرمی چیف سے اپنی دعوت پر ہونے والی ملاقات اور تفصیلی تبادلہ خیال کے فوراً بعد ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے ارادے کو دو ہفتوں تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں یورپی ملکوں کے لیے بھی بات چیت کا راستہ کھلااور جنگ روکنے کے امکانات واضح طور پر بڑھے۔اس کے ساتھ ساتھ جمعے کی شام امریکی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم پاکستان سے فون پر رابطہ کرکے ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں تفصیلی بات چیت کی اور علاقائی تنازعات کے حل میں پاکستان کی جانب سے کردار ادا کیے جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے صراحت کی کہ امریکہ عالمی امن و استحکام کی خاطر پاکستان سے مل کر کام کرنے کیلئے پرُعزم ہے۔اس پروزیر اعظم پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان امن کیلئے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ عالمی امور میں پاکستان کی یہ اہمیت اور امریکہ کی جانب سے پاکستان کی پذیرائی اور تعمیری کردار ادا کرنے کی خواہش کا یہ کھلا اظہار یقینی طورپاکستان کی جانب سے حالیہ بھارتی جارحیت کا وہ منہ توڑ جواب ہے جس نے پوری دنیا کو حیران کردیا ، پاکستان اس مثبت صورت حال کو درست طور پر استعمال کرکے عالمی سطح پر یقینا اہم کردار ادا کرسکتا اور اقوام عالم میں مستقل بنیادوں پر ممتاز مقام پاسکتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان حوالوں سے اچھی طرح غوروفکر کرکے مربوط حکمت عملی اپنائی جائے۔ بھارت کے خلاف کامیاب کارروائی ہی کا نتیجہ تھا کہ جوامریکی حکام عدم مداخلت کے اعلانات کررہے تھے دس مئی کی پاکستانی کارروائی کے فوراً بعد جنگ بندی کیلئے کمربستہ ہوگئے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے اس کارنامے پر نوبل انعام پانے کی خواہش ظاہر کی ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے ان کیلئے اس کی سفارش کا اعلان بھی کردیا ہے۔ تاہم پاک بھارت جنگ بندی صدر ٹرمپ کا ایک مستحسن اقدام ضرور ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ غزہ میں جاری طویل اسرائیلی قتل عام روکنے میں قطعی ناکام رہے ہیں جبکہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت بند کرانے میں بھی وہ اب تک کوئی مؤثر اقدام نہیں کرسکے ہیں۔کشمیر کے مسئلے کے حل کی یقین دہانیاں بھی اب تک زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہیں۔لہٰذا حکومت پاکستان کو واضح کرنا چاہیے کہ صدر ٹرمپ ان حوالوں سے بھی نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کا سلسلہ شروع کریں توپاکستان ہی نہیں پوری عالمی برادری انہیں نوبل امن انعام کا حق دار تسلیم کرلے گی۔

تازہ ترین