• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے اشفاق گوجر نے اطلاع دی کہ غلام حسین بہت بیمار ہے اور اسے اسپتال میں داخل کروادیا گیا ہے۔ غلام حسین کے ساتھ میری کوئی دوستی نہیں تھی، میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو وہ اسکول کے باہر چنوں کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ مجھے یہ شخص اس وقت سے اچھا لگتا تھا کیونکہ جن بچوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے، وہ انہیں پیار سے اپنے پاس بلاتا اور پلیٹ میں چنے ڈال کر انہیں دیتا۔ جو بچہ انکار کرتا یہ اس سے ناراض ہو جاتا اور پیار سے اس کے کان اینٹھتا۔ میں اسکول سے کالج ، کالج سے یونیورسٹی اور پھر یونیورسٹی سے فارغ ہو کر بطور لیکچرار اپنے پرانے کالج سے وابستہ ہوگیا مگر میرا گزر جب بھی اسکول کے پاس سے ہوتا، میں غلام حسین کے پاس رکتا اور اسکی مزے مزے کی باتیں سنتا، وہ اعلیٰ درجے کا انسان تھا اور بہت خوش طبع تھا، وہ نہ شاعر تھا نہ ادیب، نہ دانشور مگر ان سب سے اچھا تھا کہ اسکے عمل میں وہ خوشبو تھی جو شاعروں ادیبوں کی تحریروں میں ہوتی ہے۔ چنانچہ جب اشفاق نے مجھے بتایا کہ غلام حسین بہت بیمار ہے اور جنرل اسپتال کے ایک وارڈ میں داخل ہے تو مجھے بہت تشویش ہوئی اور میں نے سوچا کہ میں آج ہی اسکی عیادت کیلئے جائوں گا۔

صبح گھر سے روانہ ہوتے وقت میں نے کاموں کی فہرست والا کاغذ کار کی برابر والی نشست پر رکھا تاکہ میری نظر مسلسل اس پر پڑتی رہے۔ کالج سے فارغ ہو کر کالم لکھنا ہے، غلام حسین کی عیادت کو جانا ہے اور اس نوعیت کے دوسرے کام بھی تھے جو میں نے ترتیب وار اس کاغذ پر لکھے ہوئے تھے۔ دوپہر کے تین بجے تک فہرست کے مطابق اپنے کام نمٹاتا رہا اب صرف غلام حسین کی عیادت باقی رہ گئی تھی، اس وقت مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے سوچا پہلے گھر جا کر کھانا کھاتا ہوں اس کے بعد اسپتال کا چکر لگالوں گا۔ سو میں نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا، کھانا کھانے کے بعد غنودگی سی محسوس ہوئی۔ میں آنکھیں بند کر کے بستر پر لیٹ گیا تاکہ چند منٹوں بعد تازہ دم ہو کر گھر سے نکلوں۔ مگر جب آنکھ کھلی اس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے میں جلدی سے نہا دھو کر فارغ ہوا اور گھر سے نکلنے ہی کو تھا کہ کچھ دوست آگئے۔ اس وقت شام گہری ہوگئی تھی۔ میں نے سوچا اب کل غلام حسین کی طرف جائوں گا۔ چنانچہ میں کپڑے تبدیل کر کے اپنی اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور خوبصورت ناول کی ورق گردانی کرنے لگا۔اگلے روز میرا ارادہ آفس سے فارغ ہوتے ہی اسپتال جانے کا تھا مگر اسٹاف میٹنگ کی وجہ سے نہ جاسکا۔ شام کو ایک اور تقریب میں پیپر پڑھنا تھا چنانچہ ایک ریستوران کے گوشے میں بیٹھ کر میں نے پیپر لکھا اور وہاں سے سیدھا تقریب میں چلا گیا۔ ایک دفعہ پھر شام پڑ گئی تھی۔ چنانچہ میں تھکا ماندہ گھر پہنچا اور نہا دھوکر اپنی لکھنے پڑھنے کی میز پر آگیا۔ تیسرے، چوتھے اور پانچویں روز بھی کچھ اسی قسم کے اتفاقات ہوئے کہ میں چاہنے کے باوجود غلام حسین کی عیادت کو نہ جاسکا۔ چھٹے روز میں نے مصمم ارادہ کیا کہ آج بہر صورت اسپتال جائوں گا۔ خواہ میرے کتنے ہی ضروری کام کیوں نہ رہ جائیں۔ چنانچہ میں ابھی گاڑی گیٹ سے نکال ہی رہا تھا کہ اشفاق گوجر اپنی سائیکل پر ہانپتا کانپتا میرے قریب آکر رکا اور اس نے مجھے بتایا کہ غلام حسین کا انتقال ہوگیا ہے ،یہ سن کر مجھے شدید صدمہ ہوا اور میرے ضمیر نے بہت ملامت کی کہ میں نے دنیا کے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے ایک بڑے کام کو نظرانداز کیا۔ اشفاق گوجر کے بارے میں، میں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ وہ پانچویں سے دسویں جماعت تک میرا کلاس فیلو تھا۔ اس کے اسکول اخراجات غلام حسین ادا کیا کرتا تھا۔ غلام حسین نے تو اسے کالج میں داخل ہونے کے لئے بھی کہا تھا مگر اشفاق گوجر کی بیوہ ماں نے انکار کردیاکیونکہ گھر کا خرچ چلانے کیلئے ضروری تھا کہ اب اشفاق اپنے مرحوم باپ کی طرح سائیکل کی دونوں جانب دودھ کی ولٹوئیاں لٹکائے گھر گھر دودھ پہنچانے کا کام کرے، سو اشفاق اب گزشتہ سال ہا سال سے یہ کام کررہا تھا۔ چونکہ اپنے مرحوم باپ کی طرح وہ بھی دودھ میں پانی نہیں ملاتا تھا لہٰذا مجھے یقین ہے کہ اس کی آئندہ نسل بھی یہی کام کرے گی۔بہرحال اشفاق نے مجھے بتایاکہ آج شام کو چھ بجے غلام حسین کا جنازہ ہے، پانچ بجے کے قریب جب میں گھر سے نکلنے کو تھا کہ مجھے فون آیا کہ ایک ممتاز شخصیت چھ بجے فون پر آپ سے بات کرے گی، آپ براہ کرم اس وقت گھر پر رہیں۔ چھ بجے فون آیا کہ اس وقت وہ ایک ایمرجنسی میٹنگ میں ہیں چنانچہ وہ آپ کو سات بجے فون کرینگے اس دوران آپ کہیں نہ جائیں۔ تاہم ان کا فون آٹھ بجے کے قریب آیا اور اب غلام حسین کے جنازے میں شرکت ممکن نہیں تھی کیونکہ اس وقت تک تو لوگ اسے دفنا کر اپنے گھروں کو بھی لوٹ چکے ہوں گے۔ میں اپنی دنیاداری پر دل میں بہت نادم ہوا تاہم میں نے تہیہ کیا کہ پرسوں غلام حسین کے قلوں میں ضرور شرکت کروں گا۔

جس دن غلام حسین کے قل تھے اس دن مجھے ایک دوسرے شہر میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے جانا پڑا۔ کمشنر صاحب نے مجھے خود فون کیا اور معذرت کی کہ اتنے شارٹ نوٹس پر آپ کو بلایا جارہا ہے، میں نے انہیں بتایا کہ میں نے قلوں میں شرکت کرنی ہے بلکہ میں نے انہیں مرحوم کی انسان دوستی کی صفات سے بھی آگاہ کیا اور اس کے لواحقین کی کسمپرسی کے بارے میں بھی بتایا، جس پر کمشنر صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ لاہور کی انتظامیہ سے بات کر کے مرحوم کے لواحقین کی مالی مدد کا انتظام کردیں گے۔ اس پر میں نے سوچا کہ مرحوم کے قل میں شرکت سے بہتر اس کے لواحقین کی مالی امداد ہے چنانچہ میں مشاعرے میں چلا گیا۔ ویسے بھی دل کو یہ اطمینان تھا کہ ابھی مرحوم کا چہلم ہونا ہے، میں اس میں شریک ہو کر ضمیر کی خلش رفع کرلوں گا۔

مگر ہوا یوں کہ اس دوران مجھے امریکہ میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے یو ایس آئی ایس کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا اور یوں مجھے چھ ہفتے کیلئے ملک سے باہر جانا پڑ گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ کانفرنس کی بجائے غلام حسین کے چہلم میں شرکت کروں مگر پھر ملکی وقار کا مسئلہ سامنے آگیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی بہت ضروری تھی۔ چنانچہ بادل نخواستہ امریکہ کیلئے روانہ ہوگیا۔

دو دن پہلے اشفاق گوجر سے میری سرراہے ملاقات ہوگئی، مجھے دیکھ کر اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ وہ مجھ سے بے حد ناراض تھا کہ میں غلام حسین کی عیادت کے لئے نہیں گیا بلکہ اس کے جنازے، قلوں اور چہلم میں بھی شرکت نہیں کی، میں نے اسے بتایا کہ بے حد شرمندہ ہوں مگر ایسا سخت مجبوریوں کی وجہ سے ہوا تاہم اب میں اپنی اس کوتاہی کی تلافی کروں گا۔ اشفاق نے پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا وہ ایسے کہ میں غلام حسین پر ایک کالم لکھوں گا جو اخبار کے سارے ایڈیشنوں میں شائع ہوگا اور یوں مرحوم کی شہرت دور دور تک پھیل جائے گی۔ میرا خیال تھا کہ اشفاق میری اس بات سے خوش ہوگا مگر اس کی موٹی عقل میں کالم کی بات نہیں آئی کہ اسے اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیںہوا ۔چنانچہ اس نے مجھے خشمگیں نظروں سے دیکھا اور پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر سو سو روپے کے کچھ نوٹ نکالے اور انہیں میری جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا تمہیں اس کالم کے جتنے پیسے ملنے ہیں وہ میں تمہیں دے رہا ہوں، میری درخواست ہے کہ غلام حسین پر کالم نہ لکھنا، وہ بہت غیور شخص تھا اور پھر وہ دھوتی کو سنبھالتے ہوئے پیڈل پر پائوں رکھ کر سائیکل کی گدی پر بیٹھا اور میری نظروں سے اوجھل ہوگیا اور میں اس وقت سے مسلسل خود پر لعنت بھیج رہا ہوں۔

تازہ ترین