ملک پر 2018ء تا 2023ء مسلط رہنے والے بدترین معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے شہباز شریف حکومت کو جو سخت فیصلے کرنا پڑے،ان میں سر فہرست مالی سال2024-25ء کے بجٹ میں محاصل کی شرح میں اضافہ تھا،جسے تنخواہ دار طبقے سے پوراکرتے ہوئے ،اس پر عائدانکم ٹیکس کی شرح میں 5فیصد اضافہ کیا گیا۔یہ اقدام کم آمدنی والوں کیلئے ایک نیا امتحان بن کر سامنے آیا۔حکومت نےاس کا ادراک کرتے ہوئے اگلے مالی سال کے بجٹ میں یہ شرح 2.5فیصد پر لانے کا اعلان کیا،جس میں مزید کمی کرتے ہوئے اب اضافے کی شرح ایک فیصد کردی گئی ہے۔ہفتے کے روزسینیٹ کے اجلاس سے خطاب میں وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب نے سالانہ6لاکھ سے12لاکھ روپے کمانے والے ملازمین کیلئے اس کمی کا اعلان کیا۔انہوں نےدرآمدی سولر پینل پرمجوزہ18فیصد جی ایس ٹی کی شرح 10فیصدپر لانے کا بھی اعلان کیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت بجٹ میں عوامی فلاح وبہبود کیلئے اقدامات اٹھانے کو ترجیح دے رہی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ درآمدی سولر پینل پر 18فیصد ٹیکس کا فیصلہ مقامی صنعت کو فروغ دینے کیلئے تھا، درآمدی سولر پینل کی ذخیرہ اندوزی کی اطلاعات ملی ہیں،جس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔وزیرخزانہ کے بقول حکومت تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبانا نہیں چاہتی ،اسی لیے سرکاری ملازم کی تنخواہ میں10اور پنشن میں 7فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ان دنوں وفاقی بجٹ نظرثانی کے مرحلے سے گزررہا ہے،جسے یکم جولائی کو نافذالعمل ہونا ہے۔تنخواہوں میں اضافہ کے ضمن میں نجی شعبہ اس مرتبہ بھی نظرانداز ہوا ہے ،جس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔ٹیکس ادا نہ کرنے والے افراد کو اس کے نیٹ میں لائے جانےکے ٹھوس پروگرام کے بغیرمعاشی اصلاحات کا پروگرام حکومت کیلئے بہرحال ایک بڑا چیلنج ہے۔