• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تاریخی، سماجی اور اقتصادی روابط کی ایک طویل تاریخ ہے۔ نوآبادیاتی دور کے اثرات سے لے کر برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی تک دونوں ممالک کے درمیان وسیع تعلقات پائے جاتے ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد پر تجارت اور سرمایہ کاری میں وسعت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ برطانیہ پاکستان سے سالانہ تقریباً تین ارب ڈالر سے زائد مالیت کی ٹیکسٹائل، گارمنٹس، کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات، آم، چاول اور چمڑا درآمد کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان بھی برطانیہ سے مشینری، کیمیکلز، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور تعلیمی و پیشہ ورانہ خدمات درآمد کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں مقیم تقریباً 16 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ اربوں ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھی پاکستان بھیجتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ابھی تک برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک سے تجارت کے مکمل امکانات سے فائدہ نہیں اٹھا پایا ہے۔

یوکے پاکستان جوائنٹ بزنس کونسل کا چیئرمین ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جدت کے فروغ، برآمدات میں اضافے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی میں برطانیہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں پاک برٹش فرینڈشپ کونسل نارتھ ویسٹ چیپٹر یوکے کے صدر محمد ارباب خان کی قیادت میں غیر ملکی سرمایہ کاروںکے وفد نے پاکستان کا دورہ بھی کیا ہے۔ میں نے اس وفد کے ساتھ ملاقات میں بھی بزنس ٹو بزنس روابط، مشترکہ منصوبوں اور باہمی تعاون میں تیزی لانے پر زور دیا تاکہ دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنا کر پاکستان کو سماجی و اقتصادی خوشحالی کی جانب گامزن کیا جا سکے۔ اس حوالے سے ٹیکسٹائل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں تعاون، تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی کافی گنجائش موجود ہے۔ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے میں اوور سیز پاکستانیوں اور چیمبرز آف کامرس کی کوششیں اہم ہیں تاہم دونوں ممالک کی حکومتوں کو مل کر تجارتی رکاوٹیں کم کرنے، ریگولیٹری فریم ورک کو ہموار کرنے اور اقتصادی تعاون کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ’’ڈیولپنگ کنٹریز ٹریڈنگ اسکیم‘‘متعارف کروائی ہے جسکے تحت پاکستان کو برآمدات پر خصوصی ترجیح دی گئی ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان اپنی ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں سرجیکل آلات، کھیلوں کے سامان اور دستکاری کی اشیاء کی بہت زیادہ مانگ ہے جو سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کی معیاری مصنوعات سے پوری کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی آم، کینو، چاول اور دیگر زرعی اجناس بھی برطانیہ میں بے حد مقبول ہیں۔ اسلئے اگر قرنطینہ اور معیار سے متعلقہ مسائل کو حل کر لیا جائے تو زرعی اجناس، پھلوں اورسبزیوں کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی ابھرتی ہوئی آئی ٹی انڈسٹری برطانوی کمپنیوں کے ساتھ آؤٹ سورسنگ معاہدے، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اور بی پی او سروسز کی فراہمی سے اپنی گروتھ میں نمایاں اضافہ کر سکتی ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری تاریخی طور پر برطانیہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس کی ترقی میں برطانیہ کی ٹیکنالوجی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلئے اگر اس شعبے میں برطانوی سرمایہ کاری پر توجہ دی جائے تو نہ صرف برطانوی سرمایہ کار پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر میں سرمایہ کاری کر کے کم لاگت پر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں بلکہ فیصل آباد، لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں پہلے سے موجود انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کر کے نئے اور جدید صنعتی زونز بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔

تاہم پاکستان میں سرمایہ کاروں کو سب سے زیادہ جس مسئلے کا سامنا رہتا ہے وہ بیوروکریسی کی سرخ فیتے کی روایت ہے جسکے غیر ملکی سرمایہ دار عادی نہیں ہوتے اور اس طرح کے تاخیری حربوں سے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسی طرح معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے اور غیر یقینی صورتحال سے بھی سرمایہ کاروں کو طویل مدتی منصوبے بنانے میں دشواری ہوتی ہے۔ تجارتی معاہدوں، درآمد و برآمد کے لائسنس اور ٹیکس قوانین میں ابہام اور پیچیدگی سرمایہ کاروں کے لیے رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ علاوہ ازیں صنعتی زونز میں بجلی، پانی، گیس اور سڑکوں جیسی بنیادی سہولیات کی کمی سرمایہ کاری کے عمل کو سست کر دیتی ہے۔

اس کا آسان حل یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو سہولت قائم کی جائے تاکہ انہیں تمام متعلقہ سہولیات ایک ہی جگہ پر فراہم کی جا سکیں۔ برطانیہ میں پاکستانی مصنوعات کی نمائشوں کے انعقاد اور تجارتی وفود کے تبادلوں سے بھی باہمی اعتماد کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر پیش رفت کر کے کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے اور قونصل خانے کو بھی چاہیے کہ پاکستانی مصنوعات کی مارکیٹنگ اور سرمایہ کاری کیلئے کردار ادا کریں۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے سیاسی عزم، پالیسیوں میں تسلسل اور شفاف عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ برطانوی مارکیٹ میں پاکستان کیلئے بہت سے مواقع موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں بلکہ مقامی سطح پر روزگار اور ترقی کے نئے راستے بھی کھولے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے حکومتی اداروں، نجی شعبے اور بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی کو مربوط حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہو گا۔

تازہ ترین