ان دنوں ایک عجیب خبر گردش میں ہے۔ سنا ہے کہ کوئی رائٹ سائزنگ کمیٹی ہے جس نے تجویز پیش کی ہے کہ وفاقی حکومت کے اہم ترین علمی و ادبی اداروں کو بند کر دیا جائے اور چند کروڑ سالانہ بچا لیے جائیں۔میرے عزیز اور محترم دوست جناب عرفان صدیقی نے سینیٹ میں اپنی تقریر کے دوران اس تجویز کی بہت صائب لفظوں میں مذمت کی ہے۔ان کا سوال بالکل بجا ہے کہ یہ چند کروڑبچ بھی گئے تو ان کا کیا فائدہ ہوگا اگر قوم کے اندر علم و ادب کی رغبت ہی پیدا نہ ہو سکی ، ان کا شعور بیدار نہ ہو سکا، ان کی ذہنی و فکری تربیت نہ ہو سکی اور انھیںاچھا پاکستانی نہ بنایا جا سکا۔ اس خبر کے نتیجے میں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں شدید اضطراب پا یا جاتا ہے۔ کالم لکھے جا رہے ہیں، بیانات دیے جا رہے ہیں، ہر صوبے کے ادیب اسلام آباد آکر مظاہرہ کرنے کو تیار ہیں مگر ابھی تک ان تمام علمی و ادبی اداروں کو ایک دوسرے میں ضم کر کے،کسی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں دریا برد کرنے کی تجویز واپس نہیں لی گئی۔ یہ تجویز شتر گربگی کا شاہکار ہے۔ دنیا بھرکا قانون ہے کہ دریا اور ندی نالے ، سمندر کی طرف رُخ کرتے ہیں مگر یہاں سمندر کو دریا کی طرف بہنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کاواحد وفاقی ادارہ ہے جسکے دفاتر اسلام آباد کے علاوہ تمام صوبوں میںبھی موجود ہیں۔ یہی ایک ادارہ ہے جو وفاق کی سطح پر پاکستان کی تمام زبانوںاور انکے ادب کے فروغ کیلئےکام کرتا ہے۔ صوبائی ادارے تو اپنے اپنے صوبے کے زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں مگر اکادمی تمام زبانوں کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور قومی یک جہتی کا احساس پیدا کرنے والا ادارہ ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جو قومی سطح کے سالانہ ایوارڈ دیتا ہے۔ ان میں ’’کمال فن ادبی ایوارڈ‘‘بھی شامل ہے جو پاکستان کے ادیبوں کیلئے نوبل انعام جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ تو کیا یہ زندگی بھر کی خدمات کے صلے میں دیا جانے والا یہ وقیع ایوارڈ کسی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کی جانب سے دیا جائیگا؟یہی بات مستحق ادیبوں کو دیے جانیوالے وظائف اور ادبی اداروں کی گرانٹ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ کیا کسی یونی ورسٹی میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ ایک ہزار ادیبوں کو ماہانہ وظائف اور پاکستان بھر کے علمی و ادبی اداروں کو سالانہ گرانٹ دے تاکہ ملک کے طول و عرض میںادبی سرگرمیاں ہوتی رہیں۔اکادمی ادبیات پاکستان کوایکٹ آف پارلیمنٹ کی رو سے یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ادبی اداروں سے باہمی مفاہمت کے معاہدے کرے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا روشن چہرہ اجاگر کرے۔ اسی اختیار کے تحت پاکستان نے درجنوں ممالک کے ادیبوں کو اپنی بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا اور ان کے ادب کو اردو میں ترجمہ کروا کے شائع کیا ہے۔ پاکستانی زبانوں کے ادب کا ترجمہ بھی باقاعدگی سے اکادمی کے اردو اور انگریزی مجلات میں شائع ہوتا ہے۔اب تک یہ ادارہ چھ سو کتابیں شائع کر چکا ہے اور متعدد انٹر نیشنل اور نیشنل اہل قلم کانفرنسیں منعقد کرچکا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اکادمی نے ’’نسل نو ادبی میلے‘‘ اور ’’نوجوان اہل قلم کے دس روزہ بین الصوبائی اقامتی منصوبے ‘‘ جیسےمنفرد اور کامیاب پروگراموں کی بنا ڈالی ہے۔ اس ادارے کے فرائض میں حکومت پاکستان کے تمام علمی و ادبی معاملات پر مشاورت فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ ایسے بڑے مینڈیٹ کے حامل ادارے کو یکا یک کسی اور ادارے میں ضم کرنے کی تجویز دینا ظاہر کرتا ہے کہ ان ماہرین کو ان اداروں کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہے۔ ایسے ادارے تو کسی قوم کی سافٹ پاور کا مظاہرہ ہوتے ہیں اور خارجہ پالیسی کیلئے سافٹ پاور اور کلچرل ڈپلومیسی کیا اہمیت رکھتے ہیں،یہ کسی ماہر سے پوچھنا چاہئے۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان اس سافٹ پاور کا بہترین استعمال کر رہاہے جب کہ ہمارا امیج پہلے ہی دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسی اصطلاحات کے ذریعے مسخ ہورہا ہے۔اب ہم ادبی اداروں کو بند کر کے گویا اپنے نوجوانوںکیلئے مثبت سرگرمیوں کا راستہ ہی بند کر دینا چاہتے ہیں۔ اکادمی کے علاوہ دیگر وفاقی ادارے بھی اپنے اپنے مخصوص شعبے میں اہم کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ادارۂ فروغ قومی زبان ، جو پہلے مقتدرہ قومی زبان تھا، اردو کے نفاذکیلئے انتہائی اہم امور سر انجام دیتا ہے لیکن اب اس شعبے کو بھی کسی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو میں ضم کرنے کی تجویز ہے ۔ اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ تاہم سب سے زیادہ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ بانیانِ پاکستان کے نام پر قائم ہونیوالے دو اداروں قائد اعظم اکیڈمی اور اقبال اکیڈمی کو بھی کسی یونی ورسٹی کے سپرد کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے تاکہ اس قوم کو نہ اپنی قومی زبان سے کوئی رغبت رہےاور نہ بانیانِ پاکستان کیلئےمحبت و احترام باقی رہے۔ایسی تجویز دینا علم و ادب دشمنی ہی نہیں، حکومت دشمنی بھی ہے۔ ایسے فیصلے حکومت کی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ دنیا بھر میں علمی و ادبی ادارے کماؤ نہیں ہوتے۔ حکومتیں انھیں زیادہ سے زیادہ فنڈز دیتی ہیںتاکہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے قومی بیانیے کی حفاظت کی جا سکےاور تہذیب و ثقافت کا بہترین اظہار زبان اور ادب کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ ان اداروں سے مالی مفادات کی توقع رکھنا انتہائی غیر دانش مندانہ سوچ ہے۔مجھے امید ہے کہ وفاقی کابینہ کے اراکین اپنے قومی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تجویز کو بیک جنبش قلم رد کرینگے اور نہ صرف ان اداروں کی بقا اور تحفظ کو یقینی بنائینگے بلکہ ان کے بجٹ میں بھی اضافہ کرینگے تاکہ یہ اپنے مقاصد عمدہ طریقے سے حاصل کر سکیں۔