ملک کو درپیش سنگین سیاسی بحران اور خود تحریک انصاف کی داخلی کیفیت کے تناظر میں پی ٹی آئی کے چاراسیر رہنمائوں کا ایک حالیہ خط پارٹی قیادت سمیت تمام ہی حلقوں کے لئے خاص اہمیت، توجہ اور غور و فکر کا متقاضی ہے۔ لاہور کی جیل میں قید سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور سرفراز چیمہ کے دستخط شدہ خط میںملک کو درپیش سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد ذریعہ ’’سیاسی مذاکرات‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ادارہ جاتی اور سیاسی سطح پر مذاکرات کا اہتمام فوری طور پر کیا جانا چاہئے۔ ذرائع کے مطابق جیل میں قید رہنمائوں کا یہ خط پارٹی کے کچھ ایسے سرکردہ رہنمائوں کی مشاورت کے ساتھ جاری کیا گیا جو وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہتے تھے لیکن بانی پی ٹی آئی نے ان کی رائے کو مسترد کر دیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ خط اصل ہے، ہم ان کی رائے پر غور کر رہے ہیں تاہم اس خط کے مندرجات بانی پی ٹی آئی کے موقف سے بہت مختلف ہیں۔ سابق وزیراعظم نے چند روز قبل واضح الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ موجودہ حکومتی اتحاد سے کسی قسم کی بات چیت کے لئے تیار نہیں، صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو ممکن سمجھتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ موجودہ حکمراں مبینہ انتخابی دھاندلی کے ذریعے برسراقتدار آئے ہیں۔ مشہور کہاوت کہ مطابق سیاست ظاہری ناممکنات میں سے ممکنات برآمد کرنے کا فن ہے۔ آج کے دور میں جاری سیاسی نظاموں میں اگر جمہوریت کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر سمجھا جاتا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اس میں بات چیت ، پارلیمانی بحثوں ، قانونی و قراردادی ترامیم کے ذریعے ایسے نتیجے کی طرف پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے جو سب کے لئے زیادہ قابل قبول ہو۔بلاشبہ احتجاج بھی بعض معاملات میں اپنے جذبات کی ترجمانی کا ذریعہ ہوتے ہیں مگر مسائل کے حل کے لئے احتجاج کے بعد بھی مکالمے کی میز پر آنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے وقت ، کہ بیرونی جارحیت کا خطرہ تاحال ختم نہیں ہوا اور خطّے کے حالات بھی مخدوش ہیں،ملک و قوم اور خود پی ٹی آئی کے مفاد میں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار میں موجود حلقوں سے مکالمے کی کوئی صورت برقرار رہے۔ اس باب میں یہ تجاویز توجہ کی متقاضی معلوم ہوتی ہیں کہ مذاکراتی کمیٹی نامزد کی جائے، بانی پی ٹی آئی عمران خان تک رسائی کو آسان بنایا جائے تاکہ قیادت کے ساتھ مشاورت کی نقل و حرکت آسان ہوسکے اور وقتاً فوقتاً مذاکراتی عمل جاری رہ سکے۔ مذاکرات سیاسی عمل کا حصّہ ہیں اور انکے لئے پہلے سے شرط عائد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شرط پوری ہونے تک مذاکرات معرض التوا میں پڑے رہیں۔ مذاکرات جس سطح پر بھی ہوں، وہ نتیجہ خیز ہوں تو بعض مسائل حل کرنے اور ملک و قوم کے مفاد میں آگے بڑھنے کی مزید صورتیں نکلتی ہیں۔قبل ازیں کئی بار مذاکرات کی ابتدا ہوئی بھی ہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔ تاہم مذاکرات کی ناکامی کا حل بھی مزید مذاکرات ہی ہیں۔لاہور کی جیل میں قید پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ ملکی تاریخ کے بدترین بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ بھی یہی ہے کہ مذاکرات کا انعقاد ہو۔ خط میں اسیر پی ٹی آئی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں کسی بھی جانب سے پہل کو نشانہ بنانا دراصل اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا اس میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ پی ٹی آئی کےسینئر رہنمائوں نے اپنے خط میں پارٹی قیادت کو صائب مشورے دیئے ہیں جبکہ اس نوع کے معاملات میں حکومتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ مکالمے کی راہ ہموار کریں۔