کسی ملک کی سیاسی توانائی معلوم کرنا ہو تو اس کی صحافتی لغت پر نظر رکھیں۔ ہمارے ملک میں جو بندوق بردار کبھی تزویراتی اثاثہ کہلاتے تھے وہ کچھ برس بعد خانہ جنگی کے مرتکب قرار پائے۔ پھر انہیں طالبان کا لقب دے کر ’اپنے بچے‘ کہا گیا۔ پھر ان کے خلاف دہشت گردی مخالف جنگ میں اتحادی ہونے کا اعلان کیا گیا۔ پھر بتایا گیا کہ کچھ طالبان اچھے اور کچھ برے ہوتے ہیں ۔ پھر پرچہ لگا کہ ’بلیک واٹر‘ نامی ایک تنظیم ان دہشت گردوں کی سرپرست ہے۔ پھر افغانستان میں چودہ بھارتی قونصل خانے دریافت کیے گئے۔ مئی 2011ء میں ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن برآمد ہوا تو شکیل آفریدی کی مشکیں کسی گئیں۔ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے رکھی گئی انعامی رقم نامعلوم کس کے حصے میں آئی البتہ اس خفت کو مٹانے کے لیے میمو گیٹ کا ناٹک رچایا گیا۔ 2016ء میں ایک ’بڑے صاحب‘ کی توسیع کے پیش نظر پانامہ پیپرز اور پھر ڈان لیکس کا غلغلہ ہوا ۔ کبھی ’ضرب عضب‘تو کبھی ’ردالفساد‘ کا چرچا ہوا ۔ چند ہفتے قبل فتنہ الخوارج کا سکہ چل رہا تھا ۔وسط مئی سے ’بھارت سپانسرڈ‘ کی اصطلاح بالالتزام استعمال ہو رہی ہے۔ نامعلوم اگست 2021ء میں طالبان نے کس کی غلامی کی زنجیریں توڑی تھیں۔ شاید اصطلاحات کے ہجوم میں کہیں آپ کو ’ریاستی رٹ‘ نامی مخلوق بھی یاد آئی ہو جسکی گمشدگی کا بہت دن ماتم کیا گیا۔ آپ کو ریاستی رٹ کی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو چار کروڑ آبادی کا ملک برطانیہ ہر برس دو کروڑ ٹن خوراک امریکا سے درآمد کرتا تھا۔ 70فیصد پنیر ، 80فیصد پھل اور 70فیصد دالیں درآمد کی جاتی تھیں۔ گوشت کی نصف سے زیادہ ضروریات اسی ذریعے سے پوری ہوتی تھیں۔ چنانچہ جرمنی نے بحیرہ اوقیانوس میں ناکہ بندی کر کے برطانوی معیشت مفلوج کرنے کی کوشش کی۔
8جنوری 1940ء کو برطانوی حکومت نے گوشت، چائے ، جام ، بسکٹ ، دلیہ ، پنیر ، انڈے ، دودھ اور تیل سمیت تمام اشیائے ضرورت کی راشن بندی کر کے کوپن جاری کر دیے۔ 8مئی 1945ء کو جنگ ختم ہو گئی لیکن مقروض برطانوی حکومت نے راشن بندی جاری رکھی جو4جولائی 1954ء تک جاری رہی۔ زمانہ امن میں 9بر س تک ریاستی عمل داری میں ایسا استحکام شفاف حکومت کے بغیر ممکن نہیں ۔ اب اس مثال کی روشنی میں پاکستان کے حالیہ بجٹ پر ایک نظر ڈال لیں۔ حکومتی محصولات کا کل حجم 62ارب ڈالر ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 63 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اخراجات میں 34ارب ڈالر قرضوں اور سود کی واپسی پر خرچ ہوں گے ۔ کل دفاعی بجٹ پر(پنشن سمیت) 11.67 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ حیران کن طور پر مجموعی سرکاری اخراجات میں 7 فیصد کمی کی گئی ہے۔
ان اعداد و شمار کو اس تناظر میں بھی دیکھیے کہ 2008ء میں پیپلز پارٹی حکومت بنی تو ڈالر کی قیمت 62.55روپے تھی ۔ 2013ء میں مسلم لیگ حکومت میں آئی تو ڈالر 96.73روپے کا تھا۔ 2018ء میں ڈالر کی قیمت 110روپے تھی۔ 2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو ڈالر 177.45روپے تک پہنچ چکا تھا۔ 2025ء میں ڈالر 284روپے کا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر فرماتے ہیں کہ گزشتہ مالی سال میں محصولات کی مد میں 2.4 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ دلچسپ امر یہ کہ برادر عزیز محصولات میں اس اضافے کو ’نئے ٹیکس اقدامات اور محصولات کی شرح‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ گویا اس دوران قومی معیشت میں ایسی ترقی نہیں ہوئی جسے محصولات میں حقیقی اضافہ کہا جا سکے۔ ایف بی آر 863ارب روپے کے براہ راست ٹیکسز کے بارے میں اس وضاحت پر تیار نہیں کہ ان محصولات میں تنخواہ دار طبقے نے کتنا حصہ ڈالا۔ اگر پیداواری معیشت اور سرمایہ کاری کی بجائے ’ٹیکسوں کی شرح اور دیگر اقدامات‘ کی مدد سے قومی خزانہ بھرا گیا ہے تو یہ جاننا مشکل نہیں رہتا کہ گزشتہ پندرہ برس میں قومی معیشت کا حجم ایک ہی دائرے کا اسیر کیوں ہے ۔ 2008 ء میں پاکستان کا جی ڈی پی 202ارب ڈالر تھا۔ 2013ء میں معیشت کا حجم 258.7 ارب ڈالر تھا۔ 2017ء میں معیشت 339ارب ڈالر کو جا پہنچی۔ آج ٹھیک آٹھ برس بعد قومی معیشت 373 ارب ڈالر پر محیط ہے۔ اس دوران دنیا کی دوسری معیشتوں سے قطع نظر یہ طے ہے کہ 2008ء سے 2025 ء تک کے اٹھارہ برس ’پراجیکٹ عمران‘ کے محیر العقول تجربے کی نذر ہوئے ۔
اس پر وزیر دفاع خواجہ آصف عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملک میں ہائبرڈ نظام حکومت قائم ہے اور نہایت خوش اسلوبی سے کام کر رہا ہے۔ صاحب اگر ’شراکت حکومت‘ کا یہ نسخہ ایسا ہی مفید تھا تو 1985ء میں ضیاالحق کے فرمان پر تسلیم کر لیا ہوتا۔ عمران خان اپنی حکومت کے لیے ’ون پیج‘ کی ٹرم استعمال کرتے تھے تو آپ کو کیا اعتراض تھا۔ فرحت اللہ بابر کی کتاب کے صفحہ 358پر دیکھئے کہ پاکستان میں سب سے بڑی تعمیراتی ٹھیکیدار کمپنی کون سی ہے۔ پاکستان میں صنعتی اور پیداواری کمپنیوں کا کون سا گروپ ’پربت پر چھائونی ‘کی طرح چھایا ہے۔ خواجہ آصف 1988ء میں سیاست میں ابھرے تھے۔ ان سے توقع کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں پاکستان کا آئین کھول کر اس میں ’ہائبرڈ رجیم‘ کی اصطلاح دکھا دیں۔
ہمیں بتا دیں کہ ووٹ کو ’ہائبرڈ رجیم‘ ہی سے عزت ملنا تھی تو ملک میں موجودہ برسراقتدار جماعتوں کو عشروں تک جمہوری جدوجہدکی کیا ضرورت تھی۔ خواجہ صاحب وضع دار آدمی ہیں۔ 2018ء کے انتخابات ہوں یا 2024ء کی انتخابی مشق ، انہیں اپنے حلقے سے غرض ہے ۔ایسے میں اگر تجارت ، معاشی ترقی، معدنیات، مصنوعی ذہانت ، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے معاملات ہائبرڈ رجیم کے فریق اولیٰ ہی کو دیکھنا ہیں تو فریق ثانی کے تکلف کی کیا ضرورت ہے۔ مور ا رنگ دے بسنتی چولا اور رنگ بھی چوکھا آئے۔