• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی دیہی خواتین میں ٹی بی کی بڑھتی ہوئی شرح

شمالی بلوچستان کے ایک پس ماندہ گاؤں میں واقع ایک خستہ حال، کچّے مکان میں رہائش پذیر پانچ بچّوں کی ماں، اکتیس سالہ بختاور کو بخار کے ساتھ مسلسل کھانسی ہورہی تھی، لیکن اسے موسمی بخارو کھانسی سمجھ کر نظرانداز کررہی تھی۔ مگر جب وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل بخار، رات کو پسینہ آنا، شدید تھکن اور وزن میں خطرناک حد تک کمی جیسی علامات واضح ہوتی چلی گئیں، تو پریشانی بڑھ گئی۔ 

دراصل خستہ حال گاؤں میں طبی سہولتوں کی عدم دست یابی اور قبائلی سماجی نظام میں صحت کے مسائل پر عدم توجّہ کے سبب خاتون کی بیماری قابلِ توجّہ نہ سمجھی گئی۔ بہرحال، چند ماہ بعد جب تکلیف ناقابلِ برداشت ہوگئی، تو اُسے ژوب کے ایک نجی کلینک لے جایا گیا، جہاں بلغم کے ٹیسٹ، ایکس رے اور دیگر تشخیصی ٹیسٹس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کی بیماری، تپِ دق (ٹی بی) میں مبتلا ہے۔

خاتون کو جب ٹی بی سے متعلق آگہی دی گئی کہ یہ ایک ایسی جان لیوا خطرناک بیماری ہے، جو اکثر خاموشی سے آتی ہے اور آہستہ آہستہ زندگی ہی چاٹ لیتی ہے، تو اُس نے بیماری سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک کے بعد دوسرے ڈاکٹر اور مختلف اسپتالوں کے چکر لگانے لگی۔ 

گھر میں پہلے ہی غربت کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تھا، اوپر سے جان لیوا بیماری کی وجہ سے بختاور کا شوہر، جو یومیہ اجرت پر مزدوری کرتا ہے، اُس کی ادویہ کے حصول و علاج کے لیے دَردَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگیا۔ اس افتاد سے نہ صرف انھیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ خاندان اور سماج کے غیرہم دردانہ رویّوں کا بھی شکار ہوئے اور تاحال ہورہے ہیں۔

اور یہ ایک بختاور کی کہانی نہیں، اُن ہزاروں دیہی خواتین کی کہانی ہے، جو بلوچستان جیسے پَس ماندہ صوبے میں غربت، ناخواندگی اور طبی سہولتوں کی عدم دست یابی کے باعث خاموشی سے تپِ دق جیسے مُہلک مرض کا شکار ہورہی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق، بلوچستان میں تپِ دق کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ دیہی خواتین ہی ہیں۔ 

صوبے کی افغانستان اور ایران سے متصل طویل سرحد بھی بیماری کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوتی ہے کہ جہاں سے غیر محفوظ نقل و حرکت کے ذریعے یہ مرض آسانی سے سرحد پار کرتا ہے۔ اس حوالے سے ’’بلوچستان ٹی بی کنٹرول پروگرام‘‘ سے منسلک ڈاکٹر، اختر محمد مندوخیل کہتے ہیں کہ ’’زیادہ تر لوگ ٹی بی کوعام کھانسی سمجھ کر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے، حالاں کہ یہ ایک سُست رفتار،لیکن مہلک بیماری ہے۔

تاہم، یہ سو فی صدایک قابل ِعلاج مرض بھی ہے،جب کہ اس کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ عوام میں آگاہی کی کمی، طبی سہولتوں تک محدود رسائی اور بیماری سے متعلق منفی سماجی رویّے ہیں۔‘‘ژوب کے ضلعی ہیڈکوارٹر، سول اسپتال میں قائم ٹی بی لیبارٹری کے ٹیکنیشن، رفیق بھٹی کے مطابق ’’اکثر لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ تپِ دق جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ یاد رہے، یہ محض ایک طبی مسئلہ نہیں، بلکہ سماجی بحران ہے، جو غربت، نظام کی ناکامی اورغفلت کے سبب مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے ٹی بی کے مفت علاج کی سہولت تو فراہم کی جاتی ہے، لیکن اکثر متاثرہ افراد چھے ماہ پر مشتمل کورس مکمل نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے’’ڈرگ ریزیسٹنٹ ٹی بی‘‘ یعنی دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والی ٹی بی جنم لیتی ہے، جس کا علاج نہ صرف بہت منہگا ہے بلکہ یہ بعض اوقات ناقابلِ علاج بھی ہوجاتی ہے۔ تشخیص کے بعد ابتدا میں عام طور پر ایک مریض کے علاج پر چندہزار روپے کا خرچ آتا ہے، لیکن علاج اُدھورا چھوڑ دینے سے خرچ آٹھ سے دس لاکھ روپے تک پہنچ جاتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان تپِ دق کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر، جب کہ ادویہ کے خلاف مزاحم ٹی بی کےاعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے۔ محکمۂ صحت بلوچستان کے مطابق، صوبے میں کم از کم تیس ہزار افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ آج بھی سماجی دباؤ، بدنامی کے خوف اور ثقافتی رکاوٹوں کے سبب اکثر خواتین بروقت علاج کی طرف متوجّہ نہیں ہوتیں۔

واضح رہے، تپ دق ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے، جو بنیادی طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ تاہم، یہ دماغ سمیت جسم کے دیگر حصّوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ تاہم، اچھی بات یہ ہے کہ ٹی بی، قابلِ علاج مرض ہے اور اس کی روک تھام بھی ممکن ہے، لیکن اگربروقت علاج نہ کروایا جائے، تو یہ شدید اور جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ ’’بلوچستان ٹی بی کنٹرول پروگرام‘‘ گلوبل فنڈ کے تعاون سے گرچہ متعدد اضلاع میں علاج و تشخیص کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔تاہم،مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ سہولتیں قطعاً ناکافی ہیں۔

مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر فوری، مربوط اور ہمہ جہت حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں جدید طبی انفرااسٹرکچر، وسیع پیمانے پر آگاہی مہم، اور سماجی رویّوں میں تبدیلی جیسے عوامل شامل ہوں تاکہ خواتین بلا جھجک اپنا علاج کروا سکیں، کیوں کہ جب تک ایسے سنجیدہ ، مربوط اقدامات نہیں کیے جاتے، بختاور جیسی ہزاروں خواتین ایک ایسی بیماری کے ہاتھوں بے بسی سے اذیت سہتی رہیں گی، جو درحقیقت مکمل طور پر قابلِ علاج ہے۔