قُرآنِ مجید، فُرقانِ حمید میں کئی ایک مقامات پر اللہ نے جہاں اپنی وحدانیت کا تذکرہ کیا ہے، وہیں والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کا بھی درس دیا ہے۔ اسی طرح سرورِ کائنات رحمۃ اللعالمینﷺ کی بےشُمار احادیث والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کے باب میں درج ہیں۔ جن میں ماں کی فضیلت کے ساتھ ساتھ بہت سی احادیث میں باپ کے فضائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’باپ جنّت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ چناں چہ تُمہیں اختیار ہے، خواہ (اُس کی نافرمانی کرکے اور دل دُکھاکے) اس دروازے کو ضائع کردو یا (اُس کی فرماں برداری اور اُسے راضی رکھ کر) اس دروازے کی حفاظت کرو۔‘‘ (ترمذی شریف) باپ گھر کا سربراہ ہوتا ہے۔ وہ پورے گھرانے کو سنبھالتا ہے۔ بے لوث،بے غرض ہوکر اپنے بیوی، بچّوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اہلِ خانہ کے لیے سارا دن محنت مشقّت کرنے کے ساتھ اُن کی تعلیم و تربیت کا سامان بھی کرتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس باپ نے اپنے بیٹے کی اعلیٰ تربیت کی، وہ پوری انسانیت کے لیے خیر کا سبب بنا۔ یوں تو تمام ہی والدین اپنے بچّوں کو مختلف انداز میں نصیحتیں کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ماضی کے اوراق سے عظیم ماؤں کی داستانیں ملتی ہیں، تو شخصیت سازی کے ضمن میں عظیم والد کے احسانات بھی فراموش نہیں کیےجاسکتے۔ ذیل میں اولاد کی تربیت کے حوالے سے کچھ باپوں کی اپنی اولاد کو کی گئی تاریخی نصیحتیں پیشِ خدمت ہیں۔
حضرت لُقمانؑ: حضرت لُقمانؑ کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتیں، اللہ پاک کو اتنی پسند آئیں کہ اپنے کلامِ مجید کی سورئہ لُقمان میں اُن نصیحتوں کا ذکر فرما دیا۔ حضرت لُقمانؑ نے اپنےفرزندِ نیک ارجُمند کو کیا خُوب نصیحتیں کیں کہ ’’اے میرے بچّے! اللہ کے ساتھ شِرک نہ کرو، چاہے رائی کے برابر ہی نیکی ہو یا بدی، اُسے کتنا ہی چُھپ کر کیا جائے، وہ اللہ سے مخفی نہیں۔
نماز قائم کرو۔ نیکی کا حُکم دو اور بُرائی سے روکو اور جو بیتے، اُس پر صبر کرو۔ تکبّر سے اکڑ کر مت چلو کہ اللہ کو مغرور لوگ پسند نہیں۔ اپنی چال میں اعتدال لاؤ۔اپنی آواز پست رکھو، کیوں کہ سب سے مکروہ آواز گدھے کی ہوتی ہے۔‘‘
امامِ اعظم ابو حنیفہؓ: امامِ اعظم ابو حنیفہؓ نے اپنے صاحب زادےحماد کو نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’بیٹا! مُجھے پانچ لاکھ احادیث یاد ہیں، لیکن مَیں تمہارےاُن پانچ لاکھ احادیث کا نچوڑ صرف پانچ احادیث کی صُورت بیان کر رہا ہوں۔ ان احادیث کو آئینے کی طرح رکھنا اوراپنےاعمال کا ان کی روشنی میں محاسبہ کرتے رہنا۔ وہ پانچ احادیث یہ ہیں۔
ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔(1)’’اعمال کا دارومدار نیتّوں پر ہے۔(2) اسلام کی خوبی یہ ہے کہ انسان فضول چیزوں کو ترک کردے۔(3) تُم میں سے کوئی اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے مومن بھائی کے لیے بھی وہی شے پسند نہ کرلے، جو اپنے لیے کرتا ہے۔(4) حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی، اور ان کے بیچ میں ہے”مُشتبہ“ شے۔ جو شخص مُشتبہ سے بچا، اُس نے اپنے دین کو محفوظ کرلیا اورجو مُشتبہ میں پڑگیا، وہ بالآخر حرام میں پڑجائے گا۔(5) کامل مسلمان وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مُسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
امام احمد بن حنبلؒ: امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے بیٹے کو اُس کی شادی کے موقعے پریہ نصیحتیں فرمائیں- میرے بیٹے! عورت توجّہ چاہتی ہے، اس لیے تُم وقتاً فوقتاً اپنی بیوی کو اپنی محبّت کا احساس دلاتے رہنا۔ عورت کے ساتھ سخت مزاجی کا رویّہ نہ رکھو کہ وہ تُم سے نفرت کرنے لگے اور نہ ہی اتنے نرم مزاج بن جاؤ کہ وہ بےجا فائدہ اُٹھائے۔یاد رکھو، گھر کی چاردیواری عورت کی سلطنت ہے۔ اس کی سلطنت میں مداخلت مت کرنا۔
گھر کے معاملات اُس کے سپرد کرنا اور اُس میں اُسے تصرف کی مُکمل آزادی دینا۔ہربیوی اپنے شوہر سے محبت کرتی ہے، لیکن یاد رکھو، اُس کے ماں باپ، بہن بھائی اور دیگر گھر والے بھی ہیں، جن سے وہ لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ تُمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے۔عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور اِسی میں اُس کا حُسن ہے۔ یہ کوئی عیب یا نقص نہیں، بلکہ اُس کی خوبی ہے۔ سو، اُسے سختی اور تلخی سے سیدھا کرنے کی کوشش مت کرنا۔
حضرت امام غزالیؒ: حضرت امام غزالیؒ نے اپنے صاحب زادے کو بہت سی نصیحتیں کیں اور اس سلسلے میں ایک کتاب بھی تحریر فرمائی۔ اس کتاب میں موجود بے شُمار نصیحتوں میں سے چند یہ ہیں۔ ’’مناظرے سے اجتناب برتو۔ حاسد اور بے وقوف شخص سے دُور رہو۔ نصیحت کے طلب گار ہی کو نصیحت کرو۔ خواہشِ نفسانی کی غرض سے واعظ و ناصح بننے سے اجتناب کرو۔
وعظ و نصیحت کو دل چسپ بنانے کے لیے مَن گھڑت واقعات اور بناوٹ سے کام نہ لو۔ وعظ وبیان کے وقت ہرگز تُمھارے اندر یہ خواہش نہ ہو کہ لوگ واہ واہ کے نعرے بُلند کریں یا اُن پر وجد کی کیفیت طاری ہوجائے۔امراء و سلاطین سے میل جول مت رکھو۔امیروں کے نذرانے قبول نہ کرو۔‘‘
والد، حضرت شیخ سعدی شیرازی: ایران کے عظیم شاعر اور بُزرگ حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ ایک مرتبہ بچپن میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک خانقاہ میں عبادت کررہے تھے۔ اس دوران کچھ درویشوں کو دیکھا کہ سورہے ہیں، یہاں تک کہ تہجّد کا وقت ہوگیا۔ تہجّد کی نماز ادا کرنے کے بعد اُنہوں نے دیکھا، تو درویش تب بھی سو رہے تھے۔
سعدیؒ کہنے لگے۔ ’’ارے یہ کیا! یہ درویش ابھی تک سورہے ہیں، کم از کم تہجّد کی نماز ہی اُٹھ کر پڑھ لیتے۔“ آپؒ کے والدِ گرامی نے یہ سُنا تو فوراً اصلاح فرماتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹے! کاش تُو بھی اِن درویشوں کے ساتھ سوتا رہتا، تاکہ اس غیبت سے بچ جاتا۔‘‘اور اس ایک نصیحت نے حضرت شیخ سعدیؒ کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔
شاعرِ مشرق علّامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ: علّامہ اقبالؒ نے اپنے والد سے منسوب بچپن کے ایک واقعے ذکر کیا ہے کہ ’’ایک مرتبہ ایک فقیر ہمارے دروازے پر آیا۔ وہ کسی صُورت جانے کا نام نہیں لیتا تھا۔ مَیں نے بارہا کہا کہ ’’بابا چلا جا۔‘‘ لیکن وہ نہ ٹلا۔ آخر مَیں نے غصّے میں آکر اُس کے کشکول پر اس زور سے اپنی چھڑی ماری کہ وہ ٹوٹ کر گرگیا اور فقیر کی سارے دن کی ریزگاری زمین پر بکھر گئی۔
وہ اُسے اُٹھانے لگا، تو میرے والد جو اندر سے یہ سارا منظردیکھ رہے تھے، باہر آئے، اس کی ساری ریزگاری اکٹھی کی اوراپنی طرف سے بھی کچھ پیسے دےکر اور معافی مانگ کر رُخصت کیا۔ پھر مُجھے اندر لےگئے اور اپنے پاس بٹھاکر سمجھاتے ہوئے بلک بلک کر رونے لگے۔ انھوں نے مُجھ سے کہا۔ ’’اقبال! روزِمحشر اگر رسول اکرم ﷺ نے مُجھ سے یہ پوچھ لیا کہ ’’تیرا بیٹا فقیروں کے کشکول توڑتا تھا، تو بتا مَیں حضور ﷺ کوکیا جواب دوں گا؟‘‘ اقبالؒ کہتے ہیں کہ بس، ان کی وہ بات میرے دل میں گڑگئی۔
تو مَیں نے حضور اکرم ﷺ سے محبت اپنے والد سے سیکھی۔‘‘ بعدازاں،یہی بات کہ مَیں’’ حضوراکرمﷺ کا سامنا کیسے کروں گا؟ اقبال کی کل حیات پر غالب نظر آتی ہے۔زندگی کے آخری ایّام میں لکھی گئی ایک مشہور رباعی سے بھی اُن کے والد کی یہی تربیت جھلکتی ہے ؎ تُو غنی ازہر دو عالم مَن فقیر.....روزِ محشر عُذر ہائے مَن پذیر.....ور حسابم را تو بینی ناگزیر.....از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر۔
ترجمہ:’’اے اللہ! تُو دوجہانوں کو عطا کرنے والا ہے، جب کہ میں تیرا منگتا و فقیرہوں، روزِ محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانااور مجھے بخش دینا،اگر میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہو،تو پھر اے میرے مولیٰ! اسے میرے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
اسی طرح علّامہ اقبالؒ نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کو بھی کئی مقامات پر نصیحتیں کیں۔ یہاں تک کہ ایک پوری کتاب ”جاوید نامہ“ اپنے بیٹے ہی کے نام موسوم کردی۔ اس کتاب میں علّامہ اقبالؒ جاوید اقبالؒ کو کچھ نصیحتیں کرتے ہیں۔مثلاً ’’یہ کہنے کا مطلب کہ کوئی خُدا نہیں سوائے اللہ کے، یہ ہے کہ تُم اس دُنیا کے کسی شخص یا کسی شے کے سامنے خود کو ہرگز نہ جھکاؤ۔
دین کی ابتدا ادب ہے اور انتہا عشق۔جواللہ سے عشق کرتا ہے، اُسے ہر ایک سے نرمی سے پیش آنا چاہیے، جیسے اللہ کافرو مومن سب پر شفقت فرماتا ہے۔ اپنی روح کے بدلے اپنے جسم کی غُلامی مت کرو۔ اگر دولت مند بھی ہوجاؤ تو اپنا فقر ہاتھ سے نہ جانے دو۔کوئی سچّا راہ بَر تلاش کرو اور نہ ملے تو رومی ؒ کی پیروی کرو۔ تُم اللہ کے سوا ہر کسی کاخوف دل سے نکال دو۔ اُس کے سوا کسی سے امُید نہ لگاؤ۔ غم سے دور رہو، کیوں کہ غم ایمان کی کم زوری کی علامت ہے اور جوانوں کو بوڑھا کردیتا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اکابرین کے نقشِ قدم پر چلیں۔ خاص طورپر اپنے والد کو اہمیت دیں اور اُن کی نصیحتوں پر عمل پیرا ہو کردُنیا و آخرت کی کام یابیاں سمیٹیں۔