• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ڈے ٹریڈنگ‘‘ کو ’’انٹرا ڈے ٹریڈنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹاک مارکیٹ/ کموڈیٹی مارکیٹ / فاریکس میں سرمایہ کاری کا ایک طریقہ ہے۔ ’’ڈے ٹریڈنگ‘‘ عموماً انفرادی سطح پرکی جاتی ہے۔ یعنی فردِ واحد گھر بیٹھے بِٹھائے اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون پر خُود شیئرز کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ 

ٹریڈنگ کی اِس قسم میں سرمایہ کار اسٹاک مارکیٹ کُھلتے ہی شیئرز کی ٹریڈنگ شروع کردیتا ہے اور مارکیٹ بند ہوتے ہی اپنی ٹریڈنگ روک دیتا ہے، اگلے دن کے لیے اپنے شیئرز ہولڈ نہیں کرتا۔ ’’ڈے ٹریڈنگ‘‘ دراصل شارٹ ٹرم ٹریڈنگ ہے، جو جس تاریخ کو شروع ہوتی ہے، اُس تاریخ ہی کو بند بھی ہو جاتی ہے۔

مثلاً، پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے پیر تا جمعرات کے اوقاتِ کار صبح 9 تا شام 5 بجے تک ہیں، تو ڈے ٹریڈر اِسی دورانیے میں ٹریڈنگ کرتا ہے۔ واضح رہے کہ ڈے ٹریڈنگ کرنے والے شخص کو ’’ڈے ٹریڈر‘‘ کہا جاتا ہے اور پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں یہ ڈے ٹریڈنگ عام طور پر چھوٹے سرمایہ کار کرتے ہیں، کیوں کہ یہ بڑے سرمایہ کاروں کی طرح بروکرز کو بھاری بھرکم سروس چارجز ادا نہیں کرسکتے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ذیل میں ڈے ٹریڈنگ کے فوائد و نقصانات بیان کیے جا رہے ہیں۔

فوائد

فوری منافع : ڈے ٹریڈرز کے کام کرنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ قیمتوں میں معمولی سا اُتار چڑھاؤ نوٹ کر کے فوراً سودا کرتے ہیں اور یوں فوری نفع کماتے ہیں۔ دراصل منافعے کا فوری حصول ہی چھوٹے سرمایہ کاروں کو ڈے ٹریڈنگ کی جانب راغب کرتا ہے، کیوں کہ بعض اوقات شیئرز کی قیمت میں تھوڑاسا اضافہ بڑی کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ 

ڈے ٹریڈنگ اُن لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے کہ جو لمبے عرصےکے لیے اپناسرمایہ کسی جگہ نہیں لگا سکتے، جیسا کہ بینکس کی ڈپازٹ اسکیمز میں، جہاں ہفتوں، مہینوں یا سالوں منافعے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

مُلکی و بین الاقوامی حالات کے اثرات سے دُور: مُلکی و بین الاقوامی حالات کا اسٹاک مارکیٹ پر گہرا اثر پڑتا ہے، لیکن چوں کہ ڈے ٹریڈرز روزانہ کی بنیاد پر اپنا سرمایہ لگا اور نکال رہے ہوتے ہیں، تو اس صُورت میں مُلکی و بین الاقوامی حالات، ڈے ٹریڈرز کی سرمایہ کاری کو متاثر نہیں کرتے۔

مثلاً ایک ڈے ٹریڈر نے آج ہی شیئرز خریدے اور آج ہی کی تاریخ میں فروخت کر دیے، تو نتیجتاً وہ اگلے دن کے مُلکی و بین الاقوامی حالات کے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ اِس کے برعکس فرض کریں کہ ایک شخص نے آج ’’اے کمپنی‘‘ کے شیئرز خریدے اور ہولڈ کرلیے، تاکہ اگلے دن یا چند روز بعد فروخت کرسکے اور پھر رات کو ’’اے کمپنی‘‘سے متعلق کوئی بُری خبر سامنے آگئی، تو اگلے دِن اُس کمپنی کے شیئرز کی قیمت کم ہوچُکی ہوگی اور یوں اس کمپنی کے شیئر ہولڈر کو یقیناً نقصان اُٹھانا پڑے گا، کیوں کہ اُس شیئر ہولڈر کو مناسب وقت پر حصص فروخت کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔+

مارکیٹ میں فوراً داخل ہونا اور نکلنا: ڈے ٹریڈرز کے پاس اِتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ دِنوں یا ہفتوں تک حالات کا جائزہ لیتے رہیں۔ چُوں کہ ڈے ٹریڈرز روزانہ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرتے ہیں، اس لیے وہ مارکیٹ میں داخل ہونے یا اُس سے نکلنےکا فیصلہ بھی تیزی سے کرتے ہیں۔ 

یوں حالات کےاُتارچڑھاؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔ ڈے ٹریڈرز کے پاس تھوڑا سرمایہ ہوتا ہے اور یہ طویل عرصےتک اپنے سرمائے کو ہولڈ نہیں کرتے، بلکہ اُسے کسی اور جگہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کام کی آزادی: ڈے ٹریڈرز اپنےگھر بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور اُن کو کسی باقاعدہ دفتر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نیز، کام کے دورانیے کا تعیّن بھی وہ اپنی سہولت کے مطابق کرتے ہیں۔ بعض ڈے ٹریڈرز پورا دن کام کرتے ہیں، جب کہ کچھ دن کے ایک مخصوص حصّے میں ٹریڈنگ کرتے ہیں۔

قرضے کی سہولت: سرمایہ کاری جتنی بڑی ہوگی، منافع بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا ۔ڈے ٹریڈرز کا سب سے بڑا مسئلہ محدود سرمایہ ہوتا ہے۔ ایسے میں بہت سے بروکرز چھوٹے سرمایہ کاروں (ڈے ٹریڈرز) کو قرضے کی سہولت دیتے ہیں اور یوں ڈے ٹریڈرز قلیل سرمائے سے بھی بڑی سرمایہ کاری کرکے زیادہ منافع کمالیتے ہیں۔

غلطیوں سے سیکھنا: چُوں کہ ڈے ٹریڈرز کو روزانہ کی بنیاد پر اورجلد ازجلد فیصلہ کرنا ہوتا ہے، تو ابتدا میں اُن سے غلط فیصلے بھی ہوجاتے ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں، ان کی قوّتِ فیصلہ مضبوط ہوجاتی ہے اور جب قوّتِ فیصلہ بہتر ہوتی ہے، تو اُن کی ٹریڈنگ میں بھی نکھار آجاتا ہے اور یوں اُن کے لیے منافعے کا حصول آسان تر ہوجاتا ہے۔

ابتدا میں جب ڈے ٹریڈر اسٹاک مارکیٹ میں داخل ہوتا ہے، تو اُسے مُلکی سیاست اور معیشت سے متعلق کماحقہ معلومات نہیں ہوتیں اور تقریباً تمام ڈے ٹریڈرز کو ابتدا میں یہ غلط فہمی بھی ہوتی ہے کہ مُلکی سیاست، مُلکی معیشت پر اثرانداز نہیں ہوتی، جب کہ سچ یہ ہے کہ سیاست اور معیشت کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے کو لازماً متاثرکرتے ہیں۔

ڈویڈینڈ کی بے فکری: جب کسی کمپنی کو منافع ہوتا ہے، تو وہ اُس میں سے کچھ حصّہ اپنے شیئرہولڈرز کو بھی دیتی ہے اور اس حصّے کو ’’ڈویڈینڈ‘‘ کہتے ہیں۔ تاہم، ڈویڈینڈ دینا کسی کمپنی پر لازم نہیں، جیسا کہ گُوگل اور فیس بُک اپنے شیئرہولڈرز کو ڈویڈینڈ نہیں دیتیں۔

ڈے ٹریڈرز روزانہ کی بنیاد پر کمائی کرنا چاہتے ہیں اور وہ ڈویڈینڈ کے چکر میں نہیں پڑتے، کیوں کہ ڈویڈینڈ کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ ڈے ٹریڈرز کو اِس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کمپنی سالانہ کتنا منافع کما رہی ہے۔

ذہنی سکون: اسٹاک مارکیٹ میں طویل عرصے کی سرمایہ کاری میں ایک مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ حالات کی خرابی شیئرز کی قیمت گرادیتی ہے اور اگر خرابی طویل ہوجائے، تو سمجھیں، سرمایہ کار کا ذہنی سکون بھی برباد ہوجاتا ہے، کیوں کہ لانگ ٹرم انویسٹر کی بڑی رقم اسٹاک مارکیٹ میں پھنسی ہوتی ہے، جب کہ ان حالات میں ڈے ٹریڈرز کو کسی قسم کی پریشانی اور بےسُکونی نہیں ہوتی، کیوں کہ اُن کی سرمایہ کاری مختصر مدّت کے لیے ہوتی ہے، تو ان کی پریشانی کا دورانیہ بھی مختصر ہوتا ہے۔

نقصانات

ذہنی دباؤ: ایک ڈے ٹریڈر کو ساری ٹریڈنگ براہِ راست خُود کرنی پڑتی ہے، کیوں کہ وہ کسی پروفیشنل کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتا کہ جو اُسے کوئی اچّھا مشورہ دے سکے۔ لہٰذا، وقت کی یہ کمی ڈے ٹریڈر کو ذہنی دباؤ کا شکار کر دیتی ہے۔ 

ایسے میں اگر ڈے ٹریڈر اناڑی ہو یا اُس کے پاس مارکیٹ پر نظر رکھنے کا مناسب وقت نہ ہو، توعموماً منافعے کے لالچ یا نقصان کے خوف سےوہ کوئی جذباتی فیصلہ بھی کربیٹھتا ہے اور ایسے غلط فیصلے ہی ذہنی دباؤ کے باعث بنتے ہیں۔

ٹرانزیکشن کی لاگت: ڈے ٹریڈنگ مفت نہیں ہوتی، ایک ڈے ٹریڈر کو کم منافعے کے ساتھ سروس چارجز کی شکل میں مختلف ادائیگیاں بہرحال کرنی ہوتی ہیں۔ 

کم منافعے پر جب مزید چارجز ادا کرنا پڑتے ہیں، تو ڈے ٹریڈرز کی ساری خوشیاں خاک میں مل جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈے ٹریڈرز کچھ ہی عرصے بعد اسٹاک مارکیٹ ترک کردیتے ہیں۔

قلیل سرمایہ: جب اسٹاک مارکیٹ میں مندی چھائی ہوئی ہو، تواُس وقت ڈے ٹریڈرز کے لیے ٹریڈنگ بہت مشکل ہوجاتی ہے، بڑے سرمایہ کار تو مندی کی تکالیف جَھیل جاتے ہیں، مگر ڈے ٹریڈرزکومارکیٹ سے باہر نکلنا پڑتا ہے، جب کہ امریکا میں ایک قانون ’’ڈے ٹریڈر پیٹرن‘‘ ہے، جس کی رُو سے ڈے ٹریڈر کے لیے لازم ہےکہ وہ سرمایہ کاری سےقبل کم ازکم 25 ہزار ڈالرز کا مالک ہو۔

معمولی اُتار چڑھاؤ: اسٹاک مارکیٹ میں معمولی سا اُتارچڑھاؤ بھی ڈے ٹریڈرز کو متاثر کرتا ہے۔ مثلاً، جب قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے، تو ڈے ٹریڈر کو اپنے شیئرز کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتے ہیں، کیوں کہ وہ اگلے دن تک شیئرز ہولڈ کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ اِسی طرح اگرشیئرزکی قیمت اچانک بہت بڑھ جائے، تو اُن کے لیے منہگا شیئرخریدنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

وقت کی قلّت: ڈے ٹریڈنگ ایک فُل ٹائم جاب ہے، مگر بہت سے ڈے ٹریڈرز اِسے پارٹ ٹائم جاب کے طور پر اختیار کرتے ہیں اور پارٹ ٹائم ڈے ٹریڈنگ کرنے والوں کی نظر اسٹاک مارکیٹ پر اُس طرح نہیں ہوتی، جیسی ہونی چاہیے۔ 

یہ عموماً اسٹاک مارکیٹ کی مکمل صورتِ حال سے لاعلم رہتے ہیں اور یہی لاعلمی اُنہیں بڑے منافعے سے محروم کردیتی ہے۔ بلاشبہ، جب علم ادھورا ہوتا ہے، تو فیصلے بھی کچھ زیادہ سُودمند نہیں ہوتے۔

اوور ٹریڈنگ: منافعے کے لالچ میں بہت سے ڈے ٹریڈرز حد سے زیادہ سرمایہ اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیتے ہیں اور لالچ کے نتیجے میں ہونے والی ٹریڈنگ اکثر گھاٹے کا سودا ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ سرمایہ کار لالچ میں آکر بہت سی اہم احتیاطی تدابیر نظر انداز کر دیتے ہیں اور یہی امر بعد میں نقصان کا سبب بنتا ہے۔ نیز، ایسا بھی ہوتا ہےکہ جلدی میں ایسے منہگے اسٹاکس خرید لیے جاتے ہیں کہ جو منافع بخش نہیں ہوتے۔

ڈویڈینڈ سے دُوری: چُوں کہ ڈے ٹریڈرز روزانہ کی بنیاد پر منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو وہ ڈویڈینڈ سے دُور بھاگتے ہیں۔ واضح رہے، دُنیا میں اسٹاک کے تمام بڑے سرمایہ کار ڈویڈینڈ کی بدولت ہی خوش حال ہوئے ہیں۔

اسٹاک مارکیٹ کی گہری بصیرت: اسٹاک مارکیٹ میں کام یابی کے لیے صرف سرمایہ ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر مارکیٹ کی سمجھ بُوجھ اور تجزیہ کاری کی اچّھی صلاحیت ہو، تو زیادہ نفع کمایا جاسکتا ہے۔ نیز، سرمایہ کار بہت سے غلط فیصلوں سے بھی بچ جاتاہے۔ 

کچھ یوٹیوبرز اپنے یوٹیوب چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کہتے نظر آتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے زیادہ علم ضروری نہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مارکیٹ کی سمجھ بُوجھ جتنی زیادہ ہو، اُتنے ہی بہتر فیصلےکرکے اچّھا منافع کماناممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ بڑے سرمایہ کار اپنی کم علمی کاعیب چُھپانےکےلیے بھاری بھرکم معاوضے پر پروفیشنل کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

لیوریج : لیوریج اسٹاک مارکیٹ کی ایک اصطلاح ہے، جس کا مطلب ہے ’’قرضہ لے کر اسٹاک میں سرمایہ کاری کرنا۔‘‘ جب کوئی ڈے ٹریڈر قرض لے کراسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگاتا ہے اور مارکیٹ میں مندی چھا جاتی ہے یا جس کمپنی کے شیئرز خریدے تھے، اُن کی قیمت ایک دَم گرجاتی ہے، توڈے ٹریڈر کے لیے قرض واپس کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈے ٹریڈرز صرف لیوریج کی وجہ سے مارکیٹ سے بھاگ جاتے ہیں۔

10۔ سُست رفتار انٹرنیٹ: آج کے دَور میں اسٹاک مارکیٹ تیز رفتار انٹرنیٹ پر انحصار کرتی ہے۔ چوں کہ زیادہ تر ڈے ٹریڈرز متوسّط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان جیسے ممالک میں انٹرنیٹ کی بار بار بندش یا سُست روی ایک عام سی بات ہے، تو ڈے ٹریڈر کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، کیوں کہ اگر انٹرنیٹ چند منٹس یا ایک آدھ گھنٹے کے لیے بھی بند ہوجاتا ہے، تو ڈے ٹریڈرز اچّھے سودے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

المختصر، ڈے ٹریڈنگ ہر شخص کے لیے نہیں ہے۔ بالخصوص ایسے لوگوں کے لیے، جو یہ کام پارٹ ٹائم کرناچاہتے ہیں۔ نیز، وہ لوگ بھی، جو کم وقت میں بہت امیر ہونا چاہتے ہیں، اُنھیں بھی ڈے ٹریڈنگ سے دُور ہی رہنا چاہیے۔ 

گرچہ اِس میں خطرات کم ہیں، لیکن اُسی تناسب سے منافع بھی کم ہے۔ اب تک دُنیا میں جتنے بھی لوگ اسٹاک بزنس سے امیر ترین ہوئے ہیں، اُن سب میں ایک بات مشترک ہے کہ اُنہوں نے اسٹاک مارکیٹ میں طویل المدّت سرمایہ کاری کی۔ جیساکہ وارن بفٹ، ایلون مسک اورجیف بیزوس وغیرہ۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق‘‘

جوہری بم، خوف اور بچاؤ (محمّد اسلم جاوید، کراچی) گلزار ہجری، فی الفور تبدیلی کی منتظر سیوریج لائن، پردیسی گارڈن میں سیوریج لائن کی بدترین صورتِ حال، ڈمپرز اور دیگر بھاری گاڑیاں(صغیرعلی صدیقی، کراچی) ماہِ رمضان، عیدالفطر (شری مرلی چند گھوگھلیہ، شکارپور) حقوقِ ہم سائیگی (یوسف سولنگی، دربیلو) رمضان اور روزے کی فضیلت (شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ) گلدستۂ مغفرت (نام درج نہیں) تین مسافر (اریبہ عرفان) فاتحِ سندھ، محمد بن قاسم، رمضان المبارک (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور) نمازِ پنج گانہ کے طبّی فوائد، خوشیاں آپ کے قدموں میں، مذہب (محمد صفدر خان ساغر، راہوالی، گوجرانوالہ) رمضان کی رُوح، چیمپئنز ٹرافی، بائیکاٹ، عیدالفطر کی فضیلت، اے غزہ! تم تنہا نہیں، مجاہدین کی ماؤں کا خراجِ تحسین، جنگلات (صبا احمد) سیاسی جماعتوں میں جمہوریت (راؤ محمّد خالد) ماہِ رمضان میں گیس قلّت سےپریشانی (نور فاطمہ، ایف بی ایریا، کراچی) حضرت عائشہؓ کا واقعہ، روزہ، تزکیۂ نفس کا ذریعہ، باجماعت نمازکےفضائل، کھانا کھانےکے آداب، معاشرتی حقوق (قاضی جمشید عالم صدیقی، لاہور) زکوٰۃ (قاسم عبّاس، ٹورنٹو، کینیڈا) غزوۂ بدر، 23مارچ تجدیدِ عہد کا دن، رمضان المبارک اور احتیاطی تدابیر، بھٹّا مزدور (پروفیسر حکیم سیّد عمران فیّاض) ہم کون ہیں (طیّبہ علی) شاہانہ زندگی گزارنے والا شخص(پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق جانوری) اُف یہ گرمی، آبادی اور قرضہ، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، عطاء آباد جھیل، اپنی ذات بھی اہم، جی لو زندگی، کوئٹہ کی سیر، لاہور، لاہور ہے، فِری لانسنگ (مبشّرہ خالد، کراچی) ربّ کی طرف پلٹنے کا دن، ماہِ صبروضبط، جنگ مسائل کا حل نہیں، تہذیبوں کی جنگ، اُمّتِ مسلمہ جواب دہ (لطیف النساء، ناظم آباد، کراچی) اسکولوں کا اہم مسئلہ (شہاب سورانی، بنّوں) سینیٹر علاّمہ ساجد میر( حکیم احمد حسین اتحادی) رمضان المبارک کی تیاری، موجودہ صُورتِ حال میں ہماری ذمّے داری (دانیال حسن چغتائی، لودھراں) سوچنےکاعالمی دن، صحت، حکمت اور انسانیت (حافظ بلال بشیر، کراچی) طلاق (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ) ۔

سنڈے میگزین سے مزید