شاعر: احمد عادل
صفحات: 141، قیمت: 500 روپے
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور۔
زیرِ نظر مجموعۂ کلام کے خالق، احمد عادل کا نام ادبی حلقوں کے لیے نیا نہیں۔ اُن کا شمار سینئر شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ گزشتہ کئی برس سے بحرین میں مقیم ہیں، لیکن ان کی شاعری میں آج بھی’’دبستانِ کراچی‘‘ کی گونج سُنائی دیتی ہے۔ وطن سے دُور رہ کر، وطن کی اقدار و روایات سے جُڑا رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔
اِس تناظر میں اگر احمد عادل کو دبستانِ کراچی کا نمائندہ شاعر کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ احمد عادل کے لیے یہ بات بڑے اعزاز و افتخار کی ہے کہ اُن کا مجموعۂ کلام اُردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر، عباس تابش نے مرتّب کیا اور اِس سے کتاب کی بھی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں ایک حمد، ایک نعت اور55 غزلیں شامل ہیں۔ یقیناً اُنہوں نے نظمیں بھی کہی ہوں گی، لیکن ان کی محبوب ترین صنفِ سخن، غزل ہے۔ احمد عادل کی غزل، روایتی غزل سے بہت مختلف ہے کہ اُنہوں نے ادب کی کلاسیکی روایت بھی عزیز رکھی اور جدید عہد کے تقاضے بھی پورے کیے۔ اُنہوں نے جدّت میں، شدّت اختیار نہیں کی، جو اِس دَور کے بیش تر شعراء کا شیوہ ہے۔
احمد عادل کے ابتدایے سے معلوم ہوا کہ اُن کے نانا، مائل تھانوی اور والد، شارق تھانوی بھی قادر الکلام شاعر تھے۔ وراثت اپنی جگہ، لیکن اُنہوں نے اپنی متاثر کُن شاعری کے ذریعے ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنائی ہے اور وہ بہت خوش نصیب ہیں کہ اُن کی شخصیت اور فن پر مرتضیٰ برلاس، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، امجد اسلام امجد، عبّاس تابش، زاہد فخری اور منصور عثمانی جیسے صاحبانِ علم ودانش نے مضامین تحریر کیے۔
اعتذار
جنگ’’ سنڈے میگزین‘‘ کے6 جولائی کے شمارے میں صفحہ’’نئی کتابیں‘‘ پر ایک کتاب’’ خفتگانِ خاکِ گوجرانوالا‘‘ کے مصنّف کے نام کے حوالے سے فاضل تبصرہ نگار غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔
مذکورہ کتاب کے مصنّف، پروفیسر محمّد اسلم(مرحوم) نہیں، بلکہ پروفیسر محمّد اسلم اعوان ہیں، جو بقیدِ حیات ہیں، جب کہ جو دیگر کتب اُن سے سہواً منسوب ہو گئیں، اُن کے مصنّف پروفیسر محمّد اسلم (مرحوم) اور ڈاکٹر منیر احمد سلیچ ہیں۔