• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میمونہ ہارون

مُسلم شریف کی مقدّس کتاب تھامے صفا و مروہ کے مابین بابرکت زمین پر بیٹھے ’’قال رسول اللہ ﷺ‘‘ کے موتیوں سے اپنے دِل کا آنگن سجا رہی تھی کہ یک لخت خیالات کی رَو نے ہزاروں برسوں کا سفرطے کرلیا اور سوچ ایک انوکھے خیال پر مرتکز ہوگئی۔ ہم حضرت ابراہیمؑ اور بی بی ہاجرہؑ کی قُربانی کا واقعہ بچپن ہی سے سُنتے چلے آرہے ہیں کہ کس طرح خلیل اللہؑ نے اپنے ربّ کے حُکم کی تعمیل میں اپنی محبوب اہلیہ اور لختِ جگر، حضرت اسمٰعیلؑ کو ایک بیابان، ویران، چٹیل مقام میں چھوڑ دیا۔ 

کہاں تاحدِّ نظر پھیلے فلک بوس اور پُرہیبت پہاڑ اور کہاں ایک صنفِ نازک اور ایک ننّھا سا بچّہ… اُس منظر کا تصوّر ذہن میں اُبھرتے ہی انسان سہم سا جاتا ہے، لیکن ایک تابع فرماں بیوی اور اپنے ربّ کی اطاعت گزار بندی کو اپنے پروردگارکی رحمت اور قدردانی پراِس قدر یقین تھا کہ اُس نے بِلاحیل وحُجّت حضرت ابراہیمؑ کے حُکم کو یہ سوچتے ہوئے قبول کر لیا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی یہ قُربانی رائیگاں نہیں جانے دے گا۔

گرچہ یہ واقعہ بچپن ہی سے ذہن کے قرطاس پر نقش تھا، لیکن صفا و مروہ کے درمیان بیٹھے اِس کی نئی جہت سامنےآئی کہ امّاں ہاجرہؑ کے توکّل اور یقین کی کہانی صرف یہیں تک محدود نہ تھی کہ اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائیں گے، بلکہ اِس داستان میں ایک ماں کے عشق اور اضطراب کے وہ اَن مول موتی بھی موجود ہیں کہ جو اِس کے لباسِ ممتا میں گوہرِ نایاب کی مانند جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ 

درحقیقت، اِس موقعے پر ممتا جیسے بے مِثل جذبے سے لیس امّاں ہاجرہؑ کے نازک قدموں میں اللہ تعالیٰ نے بلند و بالا پہاڑوں کو تسخیر کرنے کی ہمّت پیدا کر دی تھی اور اِس جذبے ہی نے ایک صنفِ نازک کو اپنے معصوم بچّے کی پیاس بُجھانے کے لیے آہنی عزم سے مملو کرتے ہوئے سخت گرمی میں سنگلاخ زمین پر یوں محوِ تلاشِ آب کیا کہ مشیّتِ ایزدی سے پہاڑوں کو حُکم ہوا کہ ’’پانی اُگل دو۔‘‘ اور پھرایک عظیم المرتبت پانی، آبِ حیات کا چشمہ اُبل پڑا۔

وہ پانی کہ جو صرف سیراب ہی نہیں کرتا، بلکہ قدرتی غذائی اجزاء اور انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی برکات و فیوض سے بھی لب ریز ہے اور ہزاروں برس بعد ’’آبِ زم زم‘‘ کا جاری رہنا ایک معجزہ بھی ہے۔ بہرکیف، اس وقت آبِ زم زم کے کرشمات اور برکات مطمحِ نظر نہیں، بلکہ ایک ماں کے عظیم جذبۂ ممتا اور اُس کیفیت کا بیان مقصود ہےکہ جس کی بدولت رحمتِ خداوندی جوش میں آئی اور پہاڑوں کے سنگلاخ سینے کو چیر کےرکھ دیا گیا۔ 

یا للعجب! وہ پہاڑ کہ جسے توڑنے کے لیے آج کے جدید دَور میں بھی ڈائنامائٹ یا دیگر میکینیکل ٹیکنالوجیز استعمال کی جاتی ہیں، ننّھے اسمٰعیلؑ کی پاکیزہ اور نرم ایڑیوں کی ضرب سے پھٹ پڑے۔ جو لوگ صنفِ نازک کے آہنی عزم، استقامت اور توکّل علی اللہ کامشاہدہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس محیّرالعقول واقعے کو یاد کریں۔ یاد رہے، جہاں سبب نہ ہوں، وہاں مسبّب الاسباب موجود ہوتا ہے، لیکن وہ اسباب اُنہیں ہی مہیّا کرتا ہے کہ جو یقین، توکّل، صبر، محنت اور خود سُپردگی کی صفات سے آراستہ ہوتے ہیں۔

اگر ربّ کے حُکم کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا جائے، تو نجات یقینی ہے اور توکّل و اطاعت کے سبب خالی جھولیاں بھی بَھر دی جاتی ہیں، بلکہ کبھی کبھی سبب کے برعکس بھی عطا کردیا جاتاہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی خاطر اللہ تعالیٰ نے پانی میں راستہ بنا دیا، جب کہ فرعون کو غرقِ آب کر ڈالا۔

جب ہم حالات کی ستم ظریفی سے تھک جائیں اور اپنے حقوق چھوڑ کر دوسروں کے حقوق ادا کرتے کرتے تھکن سے نظریں بار بار عرش کے مالک کی جانب اُٹھنے لگیں، تو سمجھ لیں کہ کاوش قبول ہوگئی۔ مگر شرط یہ ہے کہ زبان پر شُکر اور قلب میں اطمینان ہو۔ وہ ہم سے اِس سے زیادہ کا طالب بھی نہیں ہے کہ ہم ’’صنفِ نازک‘‘ جو ٹھہریں۔ 

ہمارے لیے امّاں ہاجرہؑ کی قُربانی کی اس داستان میں عزم و ہمّت کا سامان پوشیدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایک ماں کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ نہ صرف اُس کی سعی کے نتیجے میں اُس کے لختِ جگر کے لیے آبِ زم زم کی صُورت پیش بہا نعمتوں کا حامل چشمہ پُھوٹ پڑا، بلکہ قدردانی کی حد دیکھیے کہ اُس وقت سے رہتی دُنیا تک امّاں ہاجرہؑ کی سعی کو جُزوِعبادت بنا دیا۔ 

یہ واقعہ عمومی طور پر سب کے لیے اور خاص طور پر صنفِ نازک کے لیے ایک درسِ عظیم ہے کہ ہمیں زندگی میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب کے سامنے ہار ماننے کی بجائے ہمیشہ بہتری کی اُمید اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتے ہوئے نیکی و بھلائی کے کاموں پر استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یاد رہے، تاریخ کے اوراق بہادر اور جرأت مند خواتین کو کبھی فراموش نہیں کرتے اور اس کا ثبوت امّاں ہاجرہؑ کی سعی ہے۔ 

جی ہاں! جب یہی صنفِ نازک عزم، استقلال، جدوجہد اوراپنی مقدور بھرکاوش اپنے نامۂ اعمال میں ڈلواتی ہے، تو قابلیت اور قبولیت دونوں کی نوید پاتی ہے۔ شرط بس وہی ہے کہ عزم، اطاعت، یقین اور ایثار، جو عشق کی ٹہنی پر اُگنے والے پھول ہی تو ہیں، جن سے عورت ذات جذبوں کے نام پرخُوب سیراب کی گئی ہے۔ اور پھر اِن خوش نُما پُھولوں کا شہد جس آبنوسی کاسےمیں محفوظ کیا جاتا ہے، اُسے ’’صبر‘‘ کہتے ہیں۔ 

بس! جذبات و احساسات کے اظہار کی تھوڑی سی ٹریننگ اور ٹیوننگ صنفِ نازک کو ’’صنفِ آہن‘‘ بنا سکتی ہے اور آج اُمّت کو ایسی اُمّہات کی اشد ضرورت ہے، جن کی گود میں محمّد بن قاسم، ٹیپو سلطان اورطارق بن زیاد جیسے غیرت مند سپوت پرورش پائیں کہ غزہ کی سرزمین پر، کتنی ہی بہنوں کے خُون میں رنگے آنچل اُن کا کفن بن چُکے ہیں۔ 

بقول وصی شاہ ؎ یہ کام یابیاں، یہ عزّت، یہ نام تم سے ہے… اے میری ماں! مِرا سارا مقام تم سے ہے… تمھارے دَم سے ہیں، میرے لہو میں کِھلتے گلاب…مِرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے… گلی گلی میں جو آوارہ پھر رہا ہوتا…جہاں بَھر میں وہی نیک نام تم سے ہے…کہاں بساطِ جہاں اور مَیں کم سِن و ناداں…یہ مِری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے…جہاں جہاں ہے مِری دشمنی، سبب مَیں ہوں…جہاں جہاں ہے مِرا احترام، تم سے ہے…اے میری ماں، مُجھے ہر پَل رہے تمہارا خیال… تم ہی سے صُبح مِری، میری شام تم سے ہے…یہ کام یابیاں، یہ عزّت، یہ نام تم سے ہے…اے میری ماں مِرا سارا مقام تم سے ہے۔