ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
کیو ایس ورلڈ یونی ورسٹی رینکنگز (QS-Rankings) دنیا بھرکی اعلیٰ جامعات کی کارکردگی جانچنے کاتسلیم شدہ عالمی ادارہ ہے۔ اس ادارے کے تحت شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ نے پاکستان کے تعلیمی شعبے کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا کی ٹاپ 350جامعات کی فہرست میں پاکستان کی کوئی جامعہ شامل نہیں۔
یہ محض ایک درجہ بندی نہیں، ایک سنگین انتباہ اور ایسا المیہ ہے، جو ہمیں اس نکتے پر لا کھڑا کرتا ہے، جہاں ایک طرف تنزلی کی تاریک گہری کھائی ،تودوسری طرف ایک کٹھن مگر ضروری اصلاحی راستہ ہے۔ جب کسی قوم کا تعلیمی نظام زوال کا شکار ہو جائے، تو اس کی تباہی محض ایک خدشہ نہیں رہتی، بلکہ ایک تدریجی حقیقت بن جاتی ہے۔ اکیسویں صدی کو علمی ترقی کی صدی کہا جاتا ہے، جہاں قوموں کی قو ت کا انحصار ہتھیاروں سے زیادہ علم، تحقیق اور ایجادات پر ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے تعلیمی نظام کی ساخت آج بھی کالونیل دَور کے فرسودہ سانچوں میں جکڑی ہوئی ہے۔
آزادی کے 78سال بعد بھی ہم تعلیم کو قومی ترجیح نہ بنا سکے اوراس قوم کے حکم رانوں کی تعلیمی شعور سے محرومی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام، اپنی جی ڈی پی کا 4سے 7فی صد تک تعلیم کے لیے مختص کرتی ہیں، جب کہ ہمارے ملک میں محض 1.7فی صد اس مد میں خرچ ہوتا ہے۔ واضح رہے، پاکستان میں اس وقت تقریباً 244جامعات موجود ہیں، جن میں سے بیش تر، محض بلڈنگز اور بورڈز ہی تک محدود ہیں۔
ان جامعات میں تحقیق برائے تحقیق نہ ہونے کے برابر اور تحقیق برائے ترقی ناپید ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی 2023ءکی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی جامعات سے سالانہ تقریباً 20,000 تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں، مگر صرف 7فی صد ہی کسی بین الاقوامی جرنل میں جگہ بناپاتے ہیں۔ ان میں سے بھی بیش تر عمومی جائزے اور مقالات نقل شدہ مواد پر مبنی ہوتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب کی بنیاد ہی علم تھی۔
بغداد، قرطبہ، نیشاپور، قاہرہ اور سمرقند جیسے شہروں میںایسا جامع نظامِ تعلیم قائم تھا کہ جو عالمی فکری دھارے متعین کرتا تھا۔ مسلمان سائنس دان، فلسفی، ریاضی دان، طبیب اور مفسّر نہ صرف اپنے عہد کے امام تھے، بلکہ آج دنیا میں ہر طرف جو سائنسی ترقی نظر آتی ہے، اس کی بنیاد ان ہی کی محنتوں کا ثمر ہے۔ ابنِ سینا، الرازی، ابن الہیثم، البیرونی اور امام غزالی جیسی نابغۂ روزگارہستیوں کا شمار صرف مسلم معاشرے ہی نہیں، پوری انسانی تہذیب کے معماروں میںہوتا ہے۔
آج جب اقوامِ عالم، آرٹیفیشل انٹیلی جینس، کوانٹم فزکس، جینیاتی انجینئرنگ اور خلا کی وسعتوں میں اپنے علمی قافلے رواں کر چکی ہیں، ایسے میں پاکستان کی بہت سی جامعات آج بھی قدیم نصابی ڈھانچوں پر مبنی اور تحقیق سے خالی روایتی تدریسی طرز میں الجھی ہوئی ہیں، جہاں جدید علوم کے ساتھ بامعنی انضمام کی کوششیں ناپید ہیں۔ طالب علموں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ناقص تدریس اور تحقیقی رہنمائی کی کمی ہے۔ پاکستان کے بیش تر پروفیسر، پی ایچ ڈیز کی تحقیق کا عالمی معیار سے کوئی تعلق نہیں۔
اُن کی توجہ زیادہ تر تدریسی اوقات کی تکمیل، یونی ورسٹی کی سیاست، اور ذاتی مراعات پر مرکوز ہے۔ علاوہ ازیں، ایک اور سنگین مسئلہ جامعات کے انتظامی و مالیاتی بحران کا بھی ہے۔ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں مسلسل کمی نے تحقیقی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
یونی ورسٹیز خود کو تجارتی ادارہ تصوّر کرتی ہیں۔ جہاں معیار کی جگہ تعداد، اور تحقیق کی جگہ داخلے اور فیسیززیادہ اہم ہوگئی ہیں۔ المختصر، ہم جب تک سفارشی کلچر، سیاسی وابستگی اور مصلحتوں کے پھیر سے نہیں نکلیں گے، تعلیمی اداروں کا وقارمجروح ہوتا رہے گا۔
اس موقعے پر برادر اسلامی ملک، ملائیشیا کی مثال دی جاسکتی ہے، جس نے 1990ءکی دہائی میں جامع تعلیمی پالیسی بنا ئی، اپنی جامعات کو خود مختار کیا، نصاب جدید خطوط پر استوار ہوا اور بیرونی جامعات کے ساتھ مشترکہ پروگرام متعارف کروائے گئے، تو آج ’’یونی ورسٹی آف ملایا‘‘ اور ’’یونی ورسٹی آف سائنس ملائیشیا‘‘ عالمی فہرستوں میں نمایاں تر ہیں۔
اسی طرح ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود اپنی جامعات کو سائنسی تحقیق کے مراکز میں تبدیل کر دیا۔ تہران یونی ورسٹی، شریف یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی اور امیر کبیر انسٹی ٹیوٹ اب سائنسی اشاعتوں کے حوالے سے دنیا کی اوّلین جامعات میں آتی ہیں۔ حتیٰ کہ بنگلا دیش کی ’’ڈھاکا یونی ورسٹی‘‘ بھی کچھ درجہ بندیوں میں پاکستان کی معروف جامعات سے آگے ہے۔
تعلیم کے محاذپرپاکستانی جامعات کا عالمی اخراج اور ملک کی مایوس کن تعلیمی صورتِ حال ایک فکری المیہ ہے۔ اگر عالمی درجہ بندی سے خارج قوم کو عالمی رینکنگز میں شامل کروانا مقصود ہے، تو اس کے لیے محض نعروں یا پراجیکٹس کی نہیں، ہمہ گیر، دیرپا اور غیر سیاسی تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، تعلیم کو قومی سلامتی کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ دوم، بجٹ میں تعلیم کا حصّہ بڑھایا جائے۔
سوم، اساتذہ کی تربیت، تن خواہوں اور تحقیق پر سرمایہ کاری ہو۔ چہارم، پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک مذہبی، سائنسی، لسانی اور فکری توازن کے ساتھ ایک مربوط، قومی اور جدید تعلیمی خاکہ تشکیل دیا جائے۔ یاد رکھیں، آج اگر ہم شعبہ تعلیم کے لیے سنجیدہ نہیں ہوںگے تو کل ہمارے نوجوانوں کے پاس ہنر ہوگا، نہ شعوراور نہ ہی اخلاقی اقدار۔ جو قومیں علم کی بنیاد پر نہیں اٹھتیں، وہ تاریخ کے حاشیوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔
یہ لمحہ گریہ و فغاں کا نہیں، محاسبے اور بے داری کا ہے۔ ہماری جامعات اگر دنیا کی 350کی فہرست میں شامل نہیں، تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ اس جواب کی تلاش ہی میں ہماری نجات ہے۔ اگر آج بھی ہم نے تعلیم کو قومی بقا کا مسئلہ نہ سمجھا، تو وہ دن دُور نہیں، جب ہم صرف عالمی درجہ بندی ہی سے نہیں، بلکہ تاریخ کے اوراق سے بھی خارج ہو جائیں گے۔