• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیک و مخلص دوست کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں

’’دوستی‘‘ جیسے خُوب صُورت تعلق، رشتے کو اُجاگر کرنے کے لیے 27اپریل 2011ء کو اقوامِ ِمتحدہ نے ہر سال 30جولائی کا دن عالمی سطح پر ’’ورلڈ فرینڈ شپ ڈے‘‘ کے طور پر مختص کرنے کا اعلان کیا۔ دوستوں کے لیے خاص طور پر منایا جانے والا یہ دن خصوصاً سچّے دوستوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ انسانی معاشرتی زندگی بہت سے رشتوں، تعلقات کے ساتھ گزرتی ہے، ان رشتوں میں سے کچھ تو خداداد ہیں ، یعنی اُن میں انسان کی مرضی، اختیار کادخل نہیں، جیسے ماں، باپ، بہن، بھائی وغیرہ، لیکن کچھ رشتے ایسے بھی ہیں، جنھیں بنانے کے ضمن میںانسان پوری طرح خود مختار ہے اور ایسے ہی رشتوں میں سے ایک رشتہ، دوستی کا ہے۔ 

دوستی، بہت حد تک انسان کی سوچ، مزاج کی عکّاسی کرتی ہے۔ حدیث مبارکہؐ ہے کہ ’’کسی شخص کو پہچاننا ہو، تو اُس کے ہم نشینوں کو دیکھو۔‘‘ یعنی یہ ایک ایسا رشتہ ہے، جوکسی بھی انسان کی شخصیت بنانے یا بگاڑنے میں کافی حد تک موثر اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دوست،چوں کہ ہم سن و سال اور ہم فکر و ہم مزاج ہوتا ہے، تو وہ ہمارے احساسات و جذبات کو نہ صرف آسانی سے سمجھ سکتا ہے، بلکہ فکری و عملی غلطیوں کی اصلاح بھی کرسکتا ہے۔ اور ایک مخلص دوست وہی ہوتا ہے، جو مشکل سے مشکل حالات میںبھی اپنے دوست کو تنہا نہیں چھوڑتا، بلکہ دوستوں کے خلوص کا صحیح اندازہ مصیبت اور پریشانی ہی کے وقت ہوتا ہے۔ 

یوں تو دوستوں کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں، لیکن موجودہ دَور میں جب کہ افراتفری، انتشار، خلفشار، باہمی تنازعات کے باعث خونی رشتوں کی قدریں گھٹتی جارہی ہیں، کہیں دولت تو کہیں شہرت رشتوں کا معیار بن گئے ہیں، توان گمبھیر حالات نے دوستی کے رشتے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔

یاد رکھیں، ایک نیک و مخلص دوست کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں، کیوں کہ نیک سیرت اور مخلص دوست کے مفید مشوروں، مدد اور معاونت سے زندگی میں بہت سہولتیں اور آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ جو مسائل ہم والدین، بھائی بہن سے شیئر نہیں کرسکتے، اُن کا حل اپنے مخلص دوست سے پوچھ سکتے ہیں۔ وہ خوبیاں جو ہم مختلف رشتوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ ڈھونڈتے ہیں، وہ تمام ایک مخلص دوست میں مل سکتی ہیں۔ 

سچّے دوستوں کے پہلو میں بیٹھ کر انسان صرف فرحت و مسرّت کے لمحات ہی شیئر نہیں کرتا، آنسوؤں اور سِسکیوں کا بھی تبادلہ کرتا ہے۔ سچّے دوست دل کے غیر آباد کونوں کے مکین ہوتے ہیں۔ وہ ہماری زندگی میں اتنی اہمیت حاصل کر لیتے ہیں کہ جب تک ہم ان سے اپنا ہر غم، خوشی بانٹ نہ لیں، ہمیں سکون نہیں آتا۔کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ ’’دوستوں کے ساتھ جمع کی جانے والی کھٹّی میٹھی یادیں زندگی کے البم کی خُوب صُورت تصویروں کی مانند ہیں، جنہیں ذہن و دماغ کی دیواروں سے کبھی کُھرچا نہیں جاسکتا۔‘‘

’’دوستی‘‘ جیسے بہترین رشتے کے حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قُرآنِ مجیدفُرقانِ حمید کی پہلی سورت، سورئہ فاتحہ میں ’’انعمت علیھم‘‘ کہہ کر واضح کردیا کہ جب بھی دُعا مانگی جائے، نیک لوگوں کا ساتھ مانگا جائے۔ جب کہ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘ یعنی نمازِ باجماعت ادا کرنے کی ترغیب کے ساتھ فرمایا کہ ’’نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرو۔‘‘ اسی طرح سورۃ التوبہ آیت نمبر 119میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچّے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ 

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اِس آیت سے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا ثبوت ملتا ہے، کیوں کہ اُن کے ساتھ ہونے کی ایک صُورت اُن کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے اور اُن کی صحبت اختیار کرنے کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ اُن کی سیرت و کردار اور اچھے اعمال دیکھ کر خود کو بھی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ دل کی سختی ختم ہوتی اور اس میں رِقّت و نرمی محسوس ہوتی ہے۔

دوست اور دوستی کے حوالے سے حضور پُرنورصلَّی اللہ عَلیہِ وَالِہ وَسلم نےارشاد فرمایا کہ ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، تو اُسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔‘‘ (ترمذی)۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی خصلت، فطرت، عادت اور سرشت پہچاننی ہو، تو یہ دیکھا جائے کہ اُس کا دوست کون ہے۔ 

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’آدمی اُسی کے ساتھ ہوگا، جس سے وہ محبّت کرتا ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کچھ لوگوں سے محبّت کرتا ہے، لیکن اُن جیسے عمل نہیں کرپاتا۔ (اُس کا کیا ہوگا؟) آپ ﷺ نے فرمایا۔’’آدمی اُسی کے ساتھ ہوگا، جس سے وہ محبّت رکھتا ہے۔‘‘ (بُخاری و مسلم) اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔ ’’غریب ہے وہ شخص، جس کا کوئی دوست نہیں۔‘‘

دوست اور دوستی، ایک ایسا عنوان ہے کہ جس سے نوع بشر کا ہر فرد آشنا ہے۔ عالم ہو یا جاہل، بڑا ہو یا چھوٹا، امیر ہو یا غریب، ہر فرد اپنے افکارو خیالات کے مطابق، اپنے ہم فکر، ہم مزاج شخص کو اپنا دوست بناتا ہے۔ یوں کہیے، دوستی اللہ کا اپنے مومن اور مخلص بندوں کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے اور یہ تحفہ اتحاد اور بھائی چارے کے ضمن میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ کہتے ہیں۔’’دوست تو اصل میں وہی ہے، جو مُشکل اور پریشانی کے وقت اپنے دوست کا ہاتھ پکڑ لے، یعنی بُرے وقت میں اُس کےکام آئے۔‘‘سیدھی سی بات ہے، جو وقت پر کام نہ آئے، وہ دوست نہیں۔

اگر آپ کا دوست مُشکل میں آپ کا ساتھ دے، تو آپ پر بھی لازم ہے کہ اُس کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ نیز، دوستی کے معاملے میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا شخص کبھی آپ کا دوست نہیں ہوسکتا، جس میں یہ دو خرابیاں ہوں۔وہ، محفل میں آپ کا مذاق اُڑائے اور آپ کی غیبت کرنے والوں کو نہ روکے۔ ایسے دوستوں سے تو خلوت ہی بہتر ہے۔

اسی طرح بعض لوگ دوست بن کر پیٹھ پر وار بھی کردیتے ہیں، تو ایسے دوست نما دشمنوں سے بھی کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔ ویسے بڑے بوڑھےکہتے ہیں کہ دوستوں کو بھی کبھی اپنارازنہ بتاؤ، مُبادا کل کواَن بن ہوگئی، تو تُمہارا راز فاش نہ کردیں۔ یوں تو دوست کئی قسم کے ہوسکتے ہیں، لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے بہترین دوست وہ ہے کہ جسے دیکھنے سے اللہ کی یاد آجائے۔ 

یعنی نیک کاموں اور خدا کی اطاعت میں معاون و مددگار ہو۔ سچ بھی یہ ہے کہ اور وہی دوستی پائےدار اور دنیا و آخرت کے لیے مفید ہے، جو اسلامی اقدار کے تحت اور دینی اصولوں پر قائم ہو۔ ایک بہترین دوست عیوب کی مخلصانہ طور پر اصلاح کرتا، ترقی کے حصول میں مدد اور مشکل حالات میں ساتھ دیتا ہے۔ 

دوست کے ساتھ رہ کر اُس کی عادات و خصائل کا ہم میں منتقل ہونا لازمی امر ہے اور یہ عمل بہت غیر محسوس طور پر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر دوست کو غصّہ بہت زیادہ آتا ہے اور ہم نہایت ٹھنڈے مزاج کے حامل ہیں، تو کچھ عرصہ دوست کی صحبت میں رہ کر ہمیں بھی جلد غصّہ آنے لگے گا۔ اسی طرح اگرہم نماز،روزے کے پابند ہیں، توہمارے دوست بھی ہماری صحبت میں دین کی طرف رغبت محسوس کریں گے۔ 

حضرت علیؓ کا قول ہےکہ ’’تمہارا دوست تمہارا تعارف ہوتا ہے۔‘‘ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ مولانا روم کے ایک قول کا مفہوم ہے کہ’’آدمی اپنے جیسے ہی کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے، جیسے کبوتر کبوتر کے ساتھ رہتا ہے اور باز باز کے ساتھ۔‘‘ اچھا دوست اور اچھی صحبت جہاں دُنیا و آخرت کی کام یابی کی کلید ہے، وہیںبُرا دوست اور بُری صحبت دُنیا و عاقبت کی بربادی کی وجہ بن جاتی ہے۔

اسی حوالے سے حضرت شیخ سعدؔی شیرازیؒ کے فرمان کا مفہوم ہے۔’’حضرت نوحؑ کا بیٹا بُرے لوگوں کی صحبت میں بیٹھا اور خاندانِ نبوّت کا فرزند ہوکر بھی تباہ و برباد ہوگیا اور دوسری جانب اصحابِ کہف کا کُتّا اصحابِ کہف کی صحبت کی وجہ سے آج بھی پہچانا جاتا ہے۔‘‘

جب کہ مولانا رومؒکا کہنا ہے۔’’اچھّے کی صحبت تمہیں اچھا بنادے گی اور بُرے کی صحبت بُرا۔‘‘جب تک مولانا روم کو شمس تبریز کی صحبت اور غلامی نصیب نہ ہوئی، اُس وقت تک وہ فقط مولوی تھے۔ شمس تبریز کی صحبت نے انہیں مولوی سے مولائے روم بنا دیا۔ مولائے رومؒ کہتے ہیں۔’’اولیاء اللہ کی صحبت میں گزارئے ہوئے لمحات سو سالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہیں۔جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو، تو اُسے چاہیےکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے ساتھ رہے۔‘‘

الغرض، اللہ تعالیٰ کے قرب کی دولت اولیاء و صوفیاء کی صحبت و معیّت ہی سے ملتی ہے۔ یہ سوغاتِ محبت، صحبتِ صلحاء اختیار کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی، اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم صرف اور صرف نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، اُنھیں اپنا دوست بنائیں تاکہ دُنیا میں بھی نیکوں کے ساتھ شُمار کیے جائیں اورآخرت میں بھی اُنہی کے ساتھ ہوں۔