• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیس بکی ادباء، دانش وَر: ’’فرقہ بیٹرا غرقیہ‘‘

فیصل قاسم قریشی

اردو کا بیڑا غرق، جو آج کل کی نسل نے کیا ہے، وہ تو رکھیں ایک طرف، اِس سے بھی دو ہاتھ آگے ایک اور ’’فرقۂ بیڑا غرقیہ‘‘ پنپ رہا ہے۔ یہ لوگ خُود کو لکھاری کہلاتے ہیں اور زیادہ تر نے فیس بُک سے شہرت پائی ہے۔ ان میں سے اکثر تو کتابیں چھپوا کر خُود کو ادیب بھی بنا چُکے ہیں۔ اور جب کسی کو اپنی کتاب تحفتاً بھیجتےہیں (کیوں کہ ویسے تو کوئی خریدتا نہیں) تو آٹوگراف میں لکھتے ہیں۔ ”محترم جناب فلاں صاحب کے ذوقِ مطالعہ کی نظر“۔

کیا کہا، آپ کو اِس میں کوئی غلطی نظر نہیں آ رہی؟ ارے بھئی، غلطی نہیں غلطان ہے پورا۔ دیکھیے، پہلی غلطی تو یہ کہ محترم اور صاحب دونوں کو ایک ہی جا جمع کردیا ہے، حالاں کہ تعظیمی کلمہ صرف ایک ہی استعمال ہوسکتا ہے۔ اب وہ آپ نام سے پہلے محترم لگا کر کریں یا نام کے بعد صاحب کے اضافے کے ساتھ۔ قواعد کی رُو سے دو تعظیمی کلمات ایک ہی جملے میں استعمال کرنا بالکل غلط ہے۔ 

دوسری غلطی دیکھیے۔ ’’نظر‘‘کہتے ہیں نگاہ کو، آنکھ کو۔ نظر، جسمانی عضو یعنی آنکھ کو بھی کہتے ہیں اور اس آنکھ سے کسی چیز کے دیکھنے کو بھی نظر (ڈالنا) کہتے ہیں۔ نظر کے کئی محاورے ہیں، جیسے نظر نہ آنا، نظریں پھیر لینا، نظرِ کرم کرنا، نظر نواز ہونا، نظر ڈالنا، نظر اتارنا، نظر لگانا، نظروں میں آنا، نظروں سے اُتر جانا، نظر سے نظر ملانا اور نظر کا کھانا وغیرہ۔ اب آپ دیکھیے کہ اِن خود ساختہ ادیبوں کے اس جملے میں کیا غلطی ہے۔ ذوقِ مطالعہ کی آنکھ/نگاہ، یہ کیا جملہ بنا؟ 

چلیے، اب ہم اِس کی درستی کروائے دیتے ہیں۔ اس جملے میں لکھا جائے گا ”...... ذوقِ مطالعہ کی نذر“۔ اب یہ نذر کیا بلا ہے؟ لغت میں ’’نذر‘‘ کےمعنی ہیں صدقہ، بھینٹ یا تحفہ۔ اگر ہمارے لکھے پر یقین نہیں تو کھول لیجیے فیروز اللغات اور فرہنگِ عامرہ و فرہنگِ آصفیہ۔ وہاں بھی اگر یہی معنی نظر نواز ہوں تو مان لیجیے گا کہ آٹو گراف کے جملے میں اصل لفظ ”نذر“ ہونا چاہیے، نہ کہ ”نظر“۔

چلیے، اب آگے چلتے ہیں۔ ویسے آگے جانا بھی اب بڑا مشکل لگ رہا ہے، کیوں کہ سر میں درد ہوچُکا ہے اور، اور…درد سے یاد آیا کہ اکثر ادیبوں کو ابھی تک درد ”ہوتی“ ہے۔ ابھی تک کا مطلب ہے کہ چاہے اُنہیں لکھتے ہوئے تیس سال ہوچُکے ہوں یا خُود اُنہیں پیدا ہوئے ساٹھ سال۔

آپ خود تصور کریں ناں کہ ایک ساٹھ پینسٹھ سال کا مرد، جس کی داڑھی سفید، توند گول، چہرہ مٹول، چندیا پر بالوں کی جھالر اٹکی ہو، اور وہ کہے کہ ’’میاں! مجھے تو درد ہو ’’رہی‘‘ہے، تو سوچیے، بےچاری درد شرما نہیں جائے گی، لاحول ولاقوۃ۔ مختصر یہ کہ درد ہوتی نہیں، ہوتا ہے۔ پھر سے فیروزاللغات و نوراللغات میں جھانکی ماریے یا فراہنگِ آصفیہ و عامرہ کو سلام کر آئیے۔ آپ کومعلوم ہوجائے گا کہ آپ نقطہ نقطہ غلط لکھتے آ رہے تھے۔

نقطے سے یاد آیا کہ ایک نُکتہ بھی ہوتا ہے۔ مگر نذر اور نظرکی طرح اکثر ”فیس بُکی ادباء“ کو ان کے درمیان فرق بھی نہیں معلوم۔ کیا کہا، آپ کو معلوم ہے، تو چلیے سب کو بتائیے کہ نُقطہ وہ چیز ہے، جسے انگریزی میں ڈاٹ کہتے ہیں۔ اور بہت سارے ڈاٹس مل کرایک لکیر بناتے ہیں۔ 

ریاضی کی رُو سے نُقطہ وہ چیزہے، جسے مزید تقسیم نہ کیا جا سکے۔ اور اردو میں نُقطہ کہتے ہیں، ایک بالکل چھوٹے سےنشان کو، جو کسی بھی حرف کے اوپر یا نیچے لگا ہو۔ جب کہ نُکتہ کہتے ہیں کسی بات یا گہری بات، راز یا بھید کو، جو آپ کو مناسب لگے، آپ کہہ لیجیے۔ جیسے ’’قائدِاعظم کے چودہ نکات‘‘ تو آپ نے سُنے ہی ہوں گے۔ یہ نکات اِسی نکتے کی جمع ہیں۔

جمع سے یاد آیا کہ ہمارے مُلک میں شادی بیاہ کے دعوت ناموں پر ابھی بھی اردو، عربی اور فارسی سے اظہار یک جہتی کیا جاتا ہے۔ مدعو الیہ کے نام کے بعد لکھا جاتا ہے’’بمع اہل و عیال کے ساتھ‘‘۔ اہل و عیال سےتو ہماری کوئی دشمنی نہیں، البتہ ایک ہی معنی کے تین الفاظ استعمال کرنے پر ضرور احتجاج کرتے ہیں۔ ب کا مطلب فارسی میں ’’سے، ساتھ اور کے ساتھ‘‘ ہے۔ جیسے دن بدن، رُوبرو، خُود بخود میں ب استعمال ہوا ہے۔ مع عربی میں ’’ساتھ‘‘ نبھاتا ہے۔ 

’’ان اللّہ مع الصابرین‘‘ کا ترجمہ کر دیکھیے۔ ان دونوں پر بس نہیں ہوتی، اس کے بعد بھی کے ساتھ لگاتے ہیں تاکہ مدعو الیہ، اہل وعیال کو بھول نہ جائے۔ اِسی طرح یہاں پر ’’آبِ زم زم کا پانی‘‘ پیاجاتا ہے، شبِ برات کی رات میں دُعائیں مانگی جاتی ہیں، لیلۃ القدر کی رات میں عبادت کی جاتی ہے، یومِ آزادی کا دن منایا جاتا ہے، تین دن کا سہہ روزہ لگایا جاتا ہے اورچالیس دن کا چلہ کاٹا جاتا ہے۔

چلتے چلتے دو باتیں اور سُن لیجیے۔ پہلی یہ کہ اگر آپ اگرچہ کو اگرچا (چہ بروزن یا) پڑھتے ہیں تو فوراً اُسے اگرچے (چہ بروزن یہ) پڑھنا شروع کردیں۔ اور دوسری بات، آئندہ کسی بھی ایسے دو الفاظ کو مِلا کر نہ لکھیے گا، جنہیں جدا جدا کر کے لکھا جا سکتا ہو۔ 

جیسے کہ کیونکہ (کیوں کہ)، کیونکر (کیوں کر)، بیک وقت (بہ یک وقت)، آپنے (آپ نے) میں نے (مَیں نے) وغیرہ وغیرہ۔ یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ یہاں تو اب یہ حال ہو چلا ہے۔ اُردو کو ہی خطرہ ہے اُردو کے ادیبوں سے۔